اعمال

شکار اور ذبح کے احکام

شکار اور ذبح کے احکام

(۱)’’عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَرَأَیْتَ أَحَدُنَا أَصَابَ صَیْدًا وَلَیْسَ مَعَہُ سِکِّیْنٌ أَیَذْبَحُ بِالْمَرْوَۃِ وَشِقَّۃِ الْعَصَا؟ فَقَالَ أَمْرِرِ الدَّمَ بِمَا شِئْتَ وَاذْکُرِ اسْمَ اللَّہِ ‘‘۔ (1)
حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ کا کیا خیال ہے ؟ اگر ہم میں سے کسی کو شکار مل جائے اور اس کے پاس چھری نہ ہو تو کیا وہ پتھر اور لاٹھی کی کھپچی سے اس کو ذبح کرسکتا ہے ؟ حضور نے فرمایا اللہ کا نام لے کر جس چیز سے چاہو خون بہائو۔ ( ذبح کا حق ادا ہوجائے گا) ۔ (ابوداود، نسائی، مشکوۃ)
(۲)’’عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا عَلَّمْتَ مِنْ کَلْبٍ أَوْ بَازٍ ثُمَّ أَرْسَلْتَہُ وَذَکَرْتَ اسْمَ اللَّہِ فَکُلْ مِمَّا أَمْسَکَ عَلَیْکَ قُلْتُ وَإِنْ قَتَلَ قَالَ إِذَا قَتَلَہُ وَلَمْ یَأْکُلْ مِنْہُ شَیْئًا فَإِنَّمَا أَمْسَکَہُ عَلَیْکَ‘‘۔ (2)
حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جس کتّے یا باز کو تم نے سکھایا ہو اور پھر اﷲ تعالی کا نام لے کر اس کو شکار پر چھوڑ و تو جس جانور کو وہ تمہارے لیے پکڑ رکھے ( اور خود نہ کھائے ) تو اس کو تم کھالو۔ میں نے عرض کیا اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالے حضور نے فرمایا جب شکار کو مار ڈالے اور خود اس میں سے کچھ نہ کھائے تو شکار کو اس نے تیرے لیے پکڑ رکھا ہے ۔ (ابوداود، مشکوۃ)
(۳)’’عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنِ اتَّخَذَ کَلْبًا إِلَّا
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایاکہ جو شخص مویشی کی حفاظت
کَلْبَ مَاشِیَۃٍ أَوْ صَیْدٍ أَوْ زَرْعٍ انْتَقَصَ مِنْ أَجْرِہِ کُلَّ یَوْمٍ قِیْرَاطٌ‘‘۔ (1)
یا شکار کرنے یا کھیت کی نگہبانی کے مقاصد کے علاوہ صرف شوق کے لیے کتا پالے تو روزانہ ایک قیراط کی
مقدار میں اس کا ثواب کم ہوگا۔ (بخاری، مسلم)
(۴)’’عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو بْنِ العَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَتَلَ عُصْفُورًا فَمَا فَوْقَہَا بِغَیْرِ حَقِّہَا سَأَلَہُ اللَّہُ عَنْ قَتْلِہِ قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا حَقُّہَا؟ قَالَ اَنْ یَذْبَحَہَا فَیَأْکُلُہَا وَلَا یَقْطَعُ رَأْسَہَا فیَرْمِی بِہَا‘‘۔ (2)
حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ما سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جو شخص چڑیا یااس سے بڑے پرندے کو ناحق مارے تو خدائے تعالی اس کے متعلق بھی باز پرس کرے گا۔ عرض کیا گیا یارسول اللہ ! پرندوں کا حق کیا ہے ؟ فرمایا انہیں ذبح کرے تو کھائے نہ یہ کہ سر کاٹ کر پھینک دے ۔ (احمد، نسائی، مشکوۃ)
(۵)’’عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالُوْا یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ ہُنَا أَقْوَامًا حَدِیثٌ عَہْدُہُمْ بِشِرْکٍ یَأْتُونَنَا بِلحْمَانٍ لَا نَدْرِی أَیَذْکُرُونَ اسْمَ اللَّہِ عَلَیْہَا أَمْ لَا قَالَ اذْکُرُوا أَنْتُمْ اسْمَ اللَّہِ وَکُلُوا‘‘۔ (3)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا نے فرمایا کہ صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ ! یہاں کچھ قومیں رہتی ہیں جن کے شرک کا زمانہ بہت قریب ہے (یعنی نو مسلم ہیں) وہ لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ ذبح کے وقت وہ خدائے تعالی کا نام لیتے ہیں یا نہیں۔ حضور نے فرمایا کہ تم بسم اللہ کہو اور کھائو۔ (بخاری)

(۶)’’ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْیحدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَہُ فَلْیُرِحْ ذَبِیحَتَہُ‘‘۔ (1)
حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیمنے فرمایا کہ جب (جانور) ذبح کرنا چاہو تو ٹھیک سے ذبح کرو ۔ اپنی چھُری کو تیز کرلو اور ذبیحہ کو تکلیف نہ پہنچائو۔ (مسلم)

اِنتباہ :

(۱)… ذبح میں چار رگیں کاٹی جاتی ہیں۔ ’’ حلقوم‘‘ جس میں سانس آتی جاتی ہے ۔ ’’مری‘‘ جس سے کھانا پانی اترتا ہے ، ان دونوں کے اغل بغل اور دو رگیں ہوتی ہیں جن میں خون کی روانی ہوتی ہے ۔ ان کو ’’ودجین‘‘ کہتے ہیں۔ (2) (درمختار، بہار شریعت)
(۲)…چار رگوں میں سے تین کٹ گئیں یا ہر ایک کا اکثر حصہ کٹ گیا تو ذبیحہ حلال ہے ۔
(۳)… مشرک اور وہابی مرتد دہریہ نیچری کا ذبیحہ حرام و مردار ہے ۔
(۴)… ہندو نے کہا کہ یہ مسلمان کا ذبیحہ ہے تو اس کا کھانا جائز نہیں۔ اور اگر یہ کہا کہ میں مسلمان سے خرید کر لایا ہوں تو اس کا کھانا جائز ہے ۔ درمختارمیں ہے :’’ أَصْلُہُ أَنَّ خَبَرَ الْکَافِرِ مَقْبُولٌ بِالْإِجْمَاعِ فِی الْمُعَامَلاتِ لَا فِی الدِّیَانَاتِ۔ ‘‘(3)
(۵)…ذبح کرنے میں قصداً بِسْمِ اﷲ اَﷲ أَکْبَرنہ کہا تو جانور حرام ہے اور بھول کر ایسا ہوا تو حلا ل ہے ۔ (4) (ہدایہ، جلد چہارم ص ۴۱۹، بہار شریعت)
(۶)…اس طرح ذبح کرنا کہ چھری حرام مغز تک پہنچ جائے یا سر کٹ کر جدا ہوجائے مکروہ ہے ۔ مگر وہ ذبیحہ کھایا جائے گا یعنی کراہت اس فعل میں ہے نہ کہ ذبیحہ میں۔ (5) (ہدایہ، بہار شریعت)
(۷)…بکری اور بھینس وغیرہ میں بائیس چیزیں ناجائز ہیں:۱۔ اوجھڑی، ۲۔ آنتیں ، ۳۔ مثانہ، ۴۔ خصیے ، ۵۔ ذکریعنی علامت نر، ۶۔ فرج یعنی علامت مادہ، ۷۔ پاخانہ کا مقام، ۸۔ رگوں کا خون، ۹۔ گوشت کا خون جو ذبح کے بعد گوشت میں نکلتا ہے ، ۱۰۔ دل کا خون ، ۱۱۔ جگر کا خون ، ۱۲۔ طحال کا خون، ۱۳۔ پتہ، ۱۴۔ پت یعنی وہ زرد پانی جو کہ پتہ میںہوتا ہے ، ۱۵۔ غدود ، ۱۶۔ حرام مغز، ۱۷۔ گردن کے دو پٹھے جو شانوں تک کھنچے رہتے ہیں ، ۱۸۔ ناک کی رطوبت ، ۱۹۔ نطفہ خواہ نر کی منی مادہ میں پائی جائے یا خود اس جانور کی منی ہو، ۲۰۔ وہ خون جو رحم میں نطفہ سے بنتا ہے ، ۲۱۔ وہ گوشت کا ٹکڑا جو رحم میں نطفہ سے بنتا ہے چاہے اعضا بنے ہوں یا نہ بنے ہوں ، ۲۲۔ بچہ تام الخلقت یعنی جو رحم میں پورا جانور بن گیا اور مردہ نکلا یا بغیر ذبح مرگیا۔
(۸)…اولیائے کرام کی نذر و نیاز کے جانور کا گوشت جائز ہے جب کہ بِسْمِ اﷲِ اﷲُ أَکْبَر کہہ کرذبح کیا گیا ہو جیسا کہ تفسیرات احمدیہ ص ۴۲پارہ دوم کی آیت کریمہ:{ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِۚ-}کے تحت ہے :
’’اَلْبَقَرَۃُ الْمَنْذُوْرَۃُ لِلْأَوْلِیَاء کَمَا ھُوَ الرَّسْمُ فِیْ زَمَانِنَا حَلاَلٌ طَیبٌ لِأَنَّہُ لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ غَیْرِ ا ﷲِ عَلَیْھَا وَقْتَ الذبْح وَإِنْ کَانُوْا یَنْذُرُوْنَھَا لَہُ‘‘۔ (1)
(۹)…شکاری جانور کا کیا ہوا شکار مندرجہ ذیل شرطوں کے ساتھ جائز ہے ۔ اول۔ شکاری جانور مسلمان کا ہو اور سکھایا ہوا ہو۔ دوم۔ اس نے شکار کو زخم لگا کر مارا ہو دبوچ کر نہ مارا ہو۔ سوم۔ شکاری جانور بِسْمِ اﷲِ اﷲُ أَکْبَرکہہ کر چھوڑا گیا ہو۔ چہارم۔ اگر شکار کے مرنے سے پہلے شکاری اس کے پاس پہنچا تو اس نے بِسْمِ اﷲِ اﷲُ أَکْبَر کہہ کر اسے ذبح کیا ہو۔ ان شرطوں میں سے اگر کوئی شرط نہ پائی گئی تو جانور حلال نہ ہوگا۔ (2) (خزائن العرفان)
(۱۰)…سکھائے ہوئے شکاری جانور کی پہچان یہ ہے کہ اگر شکار پر چھوڑا جائے تو چھٹ جائے اور روکا جائے تو رک جائے اور شکار کیے ہوئے جانور کو مالک کے لیے چھوڑ رکھے اس میں سے کچھ نہ کھائے ۔ تفسیر جلالین ص: ۹۳میں ہے : عَلَامَتُہَا أَنْ تُسْتَرْسَلَ إِذَا أُرْسِلَتْ وَتُنْزَجَرَ إِذَا زُجِرَتْ وَتُمْسِکَ الصَّیْدَ وَلَا تَأْکُلُ مِنْہ۔ (3)

(۱۱)…بندو ق یا غلیل کا کیا ہوا شکار اگر مرجائے تو حرام ہے ۔ (1) (رد المحتار، بہارشریعت) اور فتاوی قاضی خاں میں ہے ۔ لَا یَحِلُّ صَیْدُ البندَقۃِ وَالحَجرِ اہـ(2)
(۱۲)…جو شکار شوقیہ محض بغرض تفریح ہو، بندوق غلیل کا ہو خواہ مچھلی کا روزانہ ہو خواہ کبھی کبھی مطلقاً بالاتفاق حرام ہے ۔ درمختار، کتاب الصید میں ہے ۔ ہُوَ مُبَاحٌ إلَّا لِلتَّلَہِّی کَمَا ہُوَ ظَاہِرٌ ‘‘۔ (3)
(۱۳)…بعض لوگ مچھلیوں کے شکار میں زندہ مچھلی یا زندہ مینڈکی کانٹے میں پرو دیتے ہیں اور اس سے بڑی مچھلی پھنساتے ہیں ایسا کرنا منع ہے ۔ کہ اس سے جانور کو ایذا دینا ہے ۔ اسی طرح زندہ گھنیسا( کیچوا ) کانٹے میں پرو کر شکار کرتے ہیں یہ بھی منع ہے ۔ (4) (بہار شریعت، جلد ہفدہم ص ۲۷۳۰)
(۱۴)…بعض لوگ قصاب کے پیشہ کو مکروہ سمجھتے ہیں حالانکہ اس کی کر اہت کا قول کسی سے منقول نہیں۔ (5) (بہار شریعت بحوالہ رد المحتار)
٭…٭…٭…٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!