فضائل

اعتکاف کے فضائل و مسائل

اعتکاف کے فضائل و مسائل

(۱)’’عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّی تَوَفَّاہُ اللَّہُ ‘‘۔ (1)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے کہ نبی کر یم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ ( اسی طریقے پر) وصال فرمایا۔ (بخاری، مسلم)
(۲)’’ عَنْ أَنَسِ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْتَکِفُ فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ فَلَمْ یَعْتَکِفْ عَامًا فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ اعْتَکَفَ عِشْرِینَ ‘‘۔ (2)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور ایک سال اعتکاف نہیں فرمایا تو دوسرے سال بیس دن اعتکاف فرمایا۔ (ترمذی، ابوداود)
رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ ہے ۔ جیسا کہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
’’اعتکاف در ظاہر مذہب حنفیہ سنت مؤکدہ است از جہت مواظبت رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ برآں تا انکہ گذشت ازیں عالم‘‘ ۔ (3)
یعنی ظاہر مذہب حنفیہ میں اعتکاف سنت موکدہ ہے اس لیے کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام ہمیشہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔ (اشعۃ اللمعات، جلد دوم، ص ۱۱۸)

انتباہ:

(۱) …اعتکاف کی تین قسمیں ہیں:
’’واجب ‘‘ کہ اعتکاف کی منّت مانی مثلاً یوں کہا کہ میرا بچہ تندرست ہوگیا تو میں تین دن اعتکاف کروں گا۔ تو بچہ کے تندرست ہونے پر روزہ کے ساتھ تین دن کا اعتکاف واجب ہوگا۔
’’سنت مؤکدہ‘‘ کہ بیسویں رمضان کو سورج ڈوبتے وقت اعتکاف کی نیت سے مسجد میں ہو اور تیسویں رمضان کو غروب کے بعد یا انتیس کو چاند ہونے کے بعد نکلے ۔ یہ اعتکاف سنت کفایہ ہے یعنی اگر سب لوگ ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا۔ اور ایک نے کرلیا تو سب بری الذمہ ہوگئے ۔
ان دونوں کے علاوہ جو اعتکاف کیا جائے وہ’’ مستحب‘‘ ہے ۔
جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری جلد اول ص:۱۹۷ میں ہے : ’’ یَنْقَسِمُ إلَی وَاجِبٍ وَہُوَ الْمَنْذُورُ تَنْجِیزًا أَوْ تَعْلِیقًا وَإِلَی سُنَّۃٍ مُؤَکَّدَۃٍ وَہُوَ فِی الْعَشْرِ الْأَخِیرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَإِلَی مُسْتَحَبٍّ وَہُوَ مَا سِوَاہُمَا ہَکَذَا فِی فَتْحِ الْقَدِیرِ‘‘۔ (1)
(۲) …اعتکاف کرنے والا دنیوی بات نہ کرے ، قرآن مجید کی تلاوت کرے ۔ حدیث شریف پڑھے اور درود شریف کی کثرت کرے ۔ علم دین پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہو۔ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور دیگر انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیائے عظام کی سیرت کی کتابیں پڑھے ۔
جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص:۱۹۸میں ہے : ’’لَا یَتَکَلَّمَ إلَّا بِخَیْرٍ وَیُلَازِم التِّلاوَۃَ وَالْحَدِیثَ وَالْعِلْمَ وَتَدْرِیسَہُ وَسِیَرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْأَنْبِیَائِ عَلَیْہِمْ السَّلَامُ، وَأَخْبَارَ الصَّالِحِینَ کَذَا فِی فَتْحِ الْقَدِیرِ‘‘ ملخصاً۔ (2)
(۳) …مستحب اعتکاف کی آسان صورت یہ ہے کہ جب بھی مسجد میں داخل ہوں تو دروازہ پر دخولِ مسجد کی نیت کے ساتھ اعتکاف کی بھی نیت کرلیں جب تک مسجد میں رہیں گے اعتکاف کا بھی ثواب ملے گا۔ نیت

کے الفاط یہ ہیں:
’’ بِسْمِ اﷲِ دَخَلْتُ وَعَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَنَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاِعْتِکَافِ اَللَّھُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ‘‘ ۔
یعنی اﷲ تعالیٰ کے مقدس نام کی برکت کے ساتھ میں داخل ہوا اور اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور میں نے سنت اعتکاف کی نیت کی۔ بارِ الہٰا! میرے لیے
اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ۔
٭…٭…٭…٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!