اسلامسوانحِ كربلا مصنف صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ القویفضائل

کوفہ کوحضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روانگی

کوفہ کوحضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روانگی

اس بنا پر آپ نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفہ روانہ فرمایا اور اہل کوفہ کو تحریر فرمایا کہ تمہاری استدعا پر ہم حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوروانہ کرتے ہیں ان کی نصرت و حمایت تم پر لازم ہے۔ حضرت مسلم کے دو فرزند محمد اور ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہما جو اپنے باپ کے بہت پیارے بیٹے تھے اس سفر میں اپنے پدر مشفق کے ہمراہ ہوئے۔ حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوفہ پہنچ کر مختار بن ابی عبید کے مکان پر قیام فرمایا آپ کی تشریف آوری کی خبر سن کرجُوْق جُوْق مخلوق آپ کی زیارت کو آئی اور بارہ ہزار سے زیادہ تعداد نے ا ۤپ کے دست مبارک پر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی۔

حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہلِ عراق کی گَرْوِیْدَ گی وعقیدت دیکھ کر حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جناب میں عریضہ لکھا جس میں یہاں کے حالات کی اطلاع دی اور التماس کی کہ ضرورت ہے کہ حضرت جلد تشریف لائیں تاکہ بندگانِ خدا، ناپاک کے شر سے محفوظ رہيں اور دین حق کی تائید ہو، مسلمان امام حق کی بیعت سے مشرف و فیض یاب ہوسکیں۔ اہل کوفہ کا یہ جوش دیکھ کر حضرت نعمان بن بشیر صحابی نے جواس زمانے میں حکومت شام کی جانب سے کوفہ کے والی (گورنر) تھے۔ اہل کوفہ کو مطلع کیا کہ یہ بیعت یزید کی مرضی کے خلاف ہے اور وہ اس پر بہت بھڑ کے گا لیکن اتنی اطلاع دے کر ضابطہ کی کارروائی پوری کرکے حضرت نعمان بن بشیرخاموش ہوبیٹھے اور اس معاملہ میں کسی قسم کی دست اندازی نہ کی۔(1)
مسلم بن یزید حضرمی اور عمارہ بن ولید بن عقبہ نے یزید کو اطلاع دی کہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے ہیں اور اہل کوفہ میں ان کی محبت و عقیدت کا جوش دَم بدَم بڑھ رہا ہے۔ ہزارہا آدمی ان کے ہاتھ پر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرچکے ہیں اور نعمان بن بشیر نے اب تک کوئی کارروائی انکے خلاف نہیں کی نہ اِنْسِدادی تدابیر عمل میں لائے۔
یزید نے یہ اطلاع پاتے ہی نعمان بن بشیر کو معزول کیا اور عبید اللہ بن زیاد کو جواس کی طرف سے بصرہ کا والی تھاان کا قائم مقام کیا۔ عبید اللہ بن زیاد بہت مکار وکَیَّاد

تھا، وہ بصرہ سے روانہ ہوا اور اس نے اپنی فوج کو قادِسِیَّہ میں چھوڑا اور خود حجازیوں کا لباس پہن کر اونٹ پر سوار ہوا اور چند آدمی ہمراہ لے کر شب کی تاریکی میں مغرب و عشاء کے درمیان اس راہ سے کوفہ میں داخل ہوا جس سے حجازی قافلے آیا کرتے تھے۔ اس مکاری سے اس کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت اہلِ کوفہ میں بہت جوش ہے، ایسے طور پر داخل ہونا چاہیے کہ وہ ابنِ زیاد کو نہ پہچانیں اور یہ سمجھیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لے آئے تاکہ وہ بے خطرہ و اندیشہ امن و عافیت کے ساتھ کوفہ میں داخل ہوجائے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا، اہلِ کوفہ جن کو ہر لمحہ حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تشریف آوری کا انتظار تھا، انہوں نے دھوکا کھایا اور شب کی تاریکی میں حجازی لباس اور حجازی راہ سے آتا دیکھ کر سمجھے کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لے آئے، نعرہ ہائے مسرت بلند کئے، گردو پیش مرحبا کہتے چلے مَرْ حَبًا بِکَ یَا اِبْنَ رَسُوْلِ اللہِ اور قَدِمْتَ خَیْرَ مَقْدَمٍ کا شور مچایا۔یہ مردود دل میں تو جلتا رہا اور اس نے اندازہ کرلیا کہ کوفیوں کو حضرت اما م رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تشریف آوری کاانتظار ہے اور ان کے دل ان کی طرف مائل ہیں مگر اس وقت کی مصلحت سے خاموش رہا تاکہ ان پر اس کا مکر کھل نہ جائے یہاں تک کہ دارالامارہ (گورنمنٹ ہاؤس) میں داخل ہوگیا۔ اس وقت کوفی یہ سمجھے کہ یہ حضرت نہ تھے بلکہ ابن زیاد اس فریب کاری کے ساتھ آیااور انھیں حسرت و مایوسی ہوئی۔ رات گزار کر صبح کو ابن زیاد نے اہل کوفہ کو جمع کیا اور حکومت کا پروانہ پڑھ کر انہیں سنایا اور یزید کی مخالفت سے ڈرایا دھمکایا، طرح طرح کے حیلوں سے حضرت مسلم کی جماعت کو منتشر کردیا، حضرت مسلم نے ہانی بن عروہ کے مکان میں اقامت فرمائی، ابن زیاد نے محمد بن اشعث کو ایک دستہ فوج کے ساتھ ہانی کے مکان پر بھیج کر اس کوگرفتار
کرامنگایا اور قید کرلیا، کوفہ کے تمام رؤسا وعمائد کو بھی قلعہ میں نظر بند کرلیا۔(1)
حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ خبر پاکر برآمد ہوئے اور آپ نے اپنے متوسّلین کو ندا کی، جوق جوق آدمی آنے شروع ہوئے اور چالیس ہزارکی جمعیت نے آپ کے ساتھ قصر شاہی کا احاطہ کرلیا، صورت بن آئی تھی حملہ کرنے کی دیر تھی۔ اگرحضرت مسلم حملہ کرنے کا حکم دیتے تو اسی وقت قلعہ فتح پاتا اور ابن زیاد اور اس کے ہمراہی حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں گرفتار ہوتے اور یہی لشکر سیلاب کی طرح امنڈ کر شامیوں کوتاخت و تاراج کرڈالتا اور یزید کو جان بچانے کے لیے کوئی راہ نہ ملتی۔نقشہ تو یہی جما تھا مگر کار بدست کار کنان قدرست ، بندوں کا سوچا کیا ہوتاہے۔ حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قلعہ کا احاطہ تو کرلیا اور باوجود یکہ کوفیوں کی بد عہدی اور ابن زیاد کی فریب کاری اور یزید کی عداوت پورے طو ر پر ثابت ہو چکی تھی۔ پھر بھی آپ نے اپنے لشکر کوحملہ کا حکم نہ دیااور ایک بادشاہ داد گُسْتَرکے نائب کی حیثیت سے آپ نے انتظار فرمایا کہ پہلے گفتگو سے قطع حجت کرلیا جائے او رصلح کی صورت پیدا ہوسکے تو مسلمانوں میں خونریزی نہ ہونے دی جائے۔ آپ اپنے اس پاک ارادہ سے انتظار میں رہے اور اپنی احتیاط کو ہاتھ سے نہ دیا، دشمن نے اس وقفہ سے فائدہ اٹھا یا اور کوفہ کے رؤساو عمائد جن کو ابن زیاد نے پہلے سے قلعہ میں بند کر رکھا تھا انھیں مجبور کیا کہ وہ اپنے رشتہ داروں اور زیرِاثر لوگوں

کو مجبور کرکے حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جماعت سے علیحدہ کردیں۔
یہ لوگ ابن زیاد کے ہاتھ میں قید تھے اور جانتے تھے کہ اگرا بن زیا د کوشکست بھی ہوئی تو وہ قلعہ فتح ہونے تک ان کاخاتمہ کردیگا۔ اس خوف سے وہ گھبراکر اٹھے اور انہوں نے دیوارِ قلعہ پر چڑھ کر اپنے متعلقین و متوسلین سے گفتگو کی اور انھیں حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رَفاقَت چھوڑدینے پر انتہادرجہ کا زوردیا اور بتایا کہ علاوہ اس بات کے کہ حکومت تمہاری دشمن ہوجائے گی یزید ناپاک طِیْنَت تمہارے بچہ بچہ کو قتل کرڈالے گا، تمہارے مال لٹوادے گا، تمہاری جاگیریں اور مکان ضبط ہوجائیں گے، یہ اور مصیبت ہے کہ اگر تم امام مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہے تو ہم جوابن زیاد کے ہاتھ میں قید ہیں قلعہ کے اند رمارے جائیں گے، اپنے انجام پر نظر سڈالو،ہمارے حال پر رحم کرو، اپنے گھروں پر چلے جاؤ۔ یہ حیلہ کامیاب ہوا اور حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لشکر منتشر ہونے لگا یہاں تک کہ تابوقتِ شام حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد کوفہ میں جس وقت مغرب کی نماز شروع کی تو آپ کے ساتھ پانچ سو آدمی تھے اور جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ کے ساتھ ایک بھی نہ تھا۔ تمناؤں کے اظہار اور التجاؤں کے طومار سے جس عزیز مہمان کو بلایا تھا اس کے ساتھ یہ وفاہے کہ وہ تنہا ہیں اور ان کی رَفاقت کے لئے کوئی ایک بھی موجود نہیں، کوفہ والوں نے حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چھوڑنے سے پہلے غیرت و حمیت سے قطع تعلق کیا اور انہیں ذرا پرواہ نہ ہوئی کہ قیامت تک تمام عالَم میں ان کی بے ہمتی کا شُہْرہ رہے گا اور ا س بزدلانہ بے مروتی اور نامردی سے وہ رسوائے عالَم ہوں گے۔ حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس غربت و مسافرت میں تنہا رہ گئے، کدھر جائیں، کہاں قیام کریں، حیرت ہے کوفہ کے تمام مہمان خانوں کے دروازے مقفّل تھے جہاں سے ایسے

محترم مہمانوں کو مدعو کرنے کے لئے رسل و رسائل کا تانتاباندھ دیا گیاتھا، نادان بچے ساتھ ہیں، کہاں انہیں لٹائیں، کہا ں سلائیں، کوفہ کے وسیع خطہ میں دوچار گز زمین حضرت مسلم کے شب گزارنے کے لئے نظر نہیں آتی۔ اس وقت حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد آتی ہے اور دل تڑپادیتی ہے، وہ سوچتے ہیں کہ میں نے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جناب میں خط لکھا ، تشریف آوری کی التجا کی ہے اور اس بد عہد قوم کے اخلاص و عقیدت کاایک دل کش نقشہ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حضور پیش کیا ہے اور تشریف آوری پر زوردیاہے۔ یقیناحضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میری التجا ردنہ فرمائیں گے اور یہاں کے حالات سے مطمئن ہوکر مع اہل و عیال چل پڑے ہوں گے یہاں انھیں کیا مصائب پہنچیں گے اور چمن زہرا کے جنتی پھولوں کو اس بے مِہْری کی طَپِش کیسے گَزَنْد پہنچائے گی۔ یہ غم الگ دل کو گھائل کررہاتھا اور اپنی تحریر پر شرمندگی و انفعال اور حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے خطرات علیحدہ بے چین کررہے تھے اور موجودہ پریشانی جداد امن گیر تھی۔
اس حالت میں حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیاس معلوم ہوئی، ایک گھر سامنے نظر پڑا جہاں طوعہ نامی ایک عورت موجود تھی اس سے آپ نے پانی مانگا، اس نے آپ کو پہچان کر پانی دیا اور اپنی سعادت سمجھ کر آپ کو اپنے مکان میں فَروکَش کیا۔ اس عورت کا بیٹا محمد ابن اشعث کا گُرگا تھا، اس نے فوراً ہی اس کو خبردی اور اس نے ابن زیاد کو اس پر مطلع کیا۔ عبیداللہ ابن زیاد نے عمرو بن حریث( کو توال کوفہ) اور محمد بن اشعث کو بھیجا ان دونوں نے ایک جماعت ساتھ لے کر طوعہ کے گھر کا احاطہ کیا اور چاہا کہ حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گرفتار کرلیں۔ حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی تلوارلے کر نکلے اور بناچاری آپ نے ان ظالموں سے مقابلہ شروع کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اس جماعت پر اسطرح ٹوٹ پڑے جیسے شیرِ ببر گلۂ گوسْپَنْد پرحملہ آور ہو۔ آپکے شیرانہ حملوں سے دل آوروں نے دل چھوڑ دئیے اور بہت آدمی زخمی ہوگئے، بعض مارے گئے۔ معلوم ہوا کہ بنی ہاشم کے اس ایک جوان سے نامردانِ کوفہ کی یہ جماعت نَبْرَد آزما نہیں ہوسکتی۔ اب تجویز کی کہ کوئی چال چلنی چاہیے اور کسی فریب سے حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔ یہ سوچ کر امن و صلح کا اعلان کردیا اور حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ ہمارے آپ کے درمیان جنگ کی ضرورت نہیں ہے نہ ہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لڑنا چاہتے ہیں مدعا صرف اس قدر ہے کہ آپ ابن زیاد کے پاس تشریف لے چلیں اور اس سے گفتگو کرکے معاملہ طے کرلیں۔ حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میراخود قصدِجنگ نہیں اور جس وقت میرے ساتھ چالیس ہزار کا لشکر تھااس وقت بھی میں نے جنگ نہیں کی اور میں یہی انتظار کرتا رہاکہ ابن زیاد گفتگو کرکے کوئی شکلِ مُصالَحَت پیدا کرے تو خونریزی نہ ہو۔(1)
چنانچہ یہ لوگ حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مع ان کے دونوں صاحبزادوں کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس لے کر روانہ ہوئے۔ اس بدبخت نے پہلے ہی سے دروازہ کے دونوں پہلوؤں میں اندر کی جانب تیغ زن چھپا کر کھڑے کردئیے تھے اور انہیں حکم دے دیا تھا کہ حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ دروازہ میں داخل ہوں تو ایک دم دونوں طرف سے ان پروار کیاجائے۔ حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی کیا خبر تھی اور آپ اس مکاری

اور کَیَّادی سے کیا واقف تھے، آپ آیۂ کریمہ: رَبَّنَا افْتَحْ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ (1) الآیۃ پڑھتے ہوئے دروازہ میں داخل ہوئے۔ داخل ہونا تھا کہ اشقیا نے دونوں طرف سے تلواروں کے وار کئے اور بنی ہاشم کا مظلوم مسافر ا عداء دین کی بے رحمی سے شہید ہوا

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن

دونوں صاحبزادے آپ کے ساتھ تھے۔ انہوں نے اس بے کسی کی حالت میں اپنے شفیق والد کاسر ان کے مبارک تن سے جدا ہوتے دیکھا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے دل غم سے پھٹ گئے اور اس صدمہ میں وہ بَیْد کی طرح لرزنے اور کانپنے لگے۔ ایک بھائی دوسرے بھائی کو دیکھتا تھا اور ان کی سرمگیں آنکھوں سے خونی اشک جاری تھے لیکن اس معرکۂ ستم میں کوئی ان نادانوں پر رحم کرنے والا نہ تھا، ستم گاروں نے ان نونہالوں کو بھی تیغ ستم سے شہید کیا اور ہانی کو قتل کرکے سولی چڑھایا۔ ان تمام شہیدوں کے سر نیزوں پر چڑھاکر کوفہ کے گلی کوچوں میں پھرائے گئے اور بے حیائی کے ساتھ کوفیوں نے اپنی سنگ دلی اور مہمان کُشی کا عملی طور پر اعلان کیا۔(2)
یہ واقعہ 3 ذی الحجہ 60ھ؁ کا ہے۔ اسی روز مکہ مکرمہ سے حضرت امام حسین رضی

اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔(1)

1۔۔۔۔۔۔الکامل فی التاریخ، سنۃ ستین، خروج الحسین…الخ، دعوۃ اہل الکوفۃ…الخ، ج۳،
ص۳۸۵،۳۸۶ ملخصاً
والبدایۃ والنہایۃ ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ ، قصۃ الحسین بن علی…الخ، ج۵،
ص۶۵۷ملخصاً

1۔۔۔۔۔۔الکامل فی التاریخ، سنۃ ستین، خروج الحسین…الخ، دعوۃ اہل الکوفۃ…الخ، ج۳،
ص۳۸۷۔۳۸۸ملتقطاً
والبدایۃ والنہایۃ ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ ، قصۃ الحسین بن علی…الخ ، ج۵،
ص۶۵۶۔۶۵۸ملتقطاً
وتاریخ الطبری، سنۃ ستین، باب مقتل الحسین بن علی…الخ، ج۴، ص۶۶

1۔۔۔۔۔۔الکامل فی التاریخ، سنۃ ستین، خروج الحسین…الخ، دعوۃ اہل الکوفۃ …الخ
ومقتل مسلم بن عقیل ، ج۳، ص۳۹۳۔۳۹۵ملتقطاً
والبدایۃ والنہایۃ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ، قصۃ الحسین بن علی…الخ،ج۵،
ص۶۶۰،۶۶۱ملتقطاً

1۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان: اے رب ہمارے ہم میں اور ہماری قوم میں حق فیصلہ کر۔ (پ۹،الاعراف:۸۹)
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الطبری،سنۃ ستین،باب مقتل الحسین بن علی…الخ،ج۴،ص۶۸
والمنتظم لابن جوزی، سنۃ ستین من الہجرۃ، باب ذکر بیعۃ یزید بن معاویۃ…الخ،
ج۵،ص۳۲۶
والکامل فی التاریخ، سنۃ ستین،خروج الحسین…الخ، مقتل مسلم بن عقیل،ج۳،
ص۳۹۸ملتقطاً
والبدایۃ والنہایۃ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ، صفۃ مخرج الحسین الی العراق،ج۵،
ص۶۶۵

1۔۔۔۔۔۔ آپ کے ہمراہ اس وقت مسطورہ ذیل حضرات تھے۔تین فرزند حضرت امام علی اوسط جن کو امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جو حضرت شہر بانو بنت یزد جرد بن شہریاربن خسرو پرویز بن ہرمز بن نوشیرواں کے بطن سے ہیں ان کی عمراس وقت بائیس سال کی تھی اوروہ مریض تھے۔ حضرت امام کے دوسرے صاحبزادے حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو یعلی بنت ابی مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی کے بطن سے ہیں جن کی عمر اٹھارہ سال کی تھی (یہ شریک جنگ ہوکر شہید ہوئے) تیسرے شیر خوار جنہیں علی اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جن کا نام عبد اللہ اور جعفر بھی بتایا گیا ہے اس نام میں اختلاف ہے آپ کی والدہ قبیلہ بنی قضاعہ سے ہیں اور ایک صاحبزادی جن کانام سکینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے اور جن کی نسبت حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوئی تھی اور اس وقت آپ کی عمر سات سال کی تھی۔ کربلا میں ان کا نکاح ہونے کی جوروایت مشہور ہے وہ غلط ہے اس کی کچھ اصل نہیں اور کچھ ایسے کم عقل لوگوں نے یہ روایت وضع کی ہے جنھیں اتنی بھی تمیز نہ تھی کہ وہ یہ سمجھ سکتے کہ اہل بیت رسالت کے لیے وہ وقت توجہ الی اللہ اور شوق شہادت اور اتمام حجت کا تھا۔ اس وقت شادی نکاح کی طرف التفات ہونا بھی ان حالات کے منافی ہے۔ حضرت سکینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات بھی راہِ شام میں مشہور کی جاتی ہے یہ بھی غلط ہے بلکہ وہ واقعہ کربلا کے بعد عرصہ تک حیات رہیں اور ان کا نکاح حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوا۔ حضرت سکینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ امراء القیس ابن عدی کی دختر قبیلہ بنی کلب سے ہیں۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی ازواج میں سب سے زیادہ ان کے ساتھ محبت تھی اور ان کا بہت زیادہ اکرام و احترام فرماتے تھے۔ حضرت امام کا ایک شعر ہے ؎
1۔۔۔۔۔۔ آپ کے ہمراہ اس وقت مسطورہ ذیل حضرات تھے۔تین فرزند حضرت امام علی اوسط جن کو امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جو حضرت شہر بانو بنت یزد جرد بن شہریاربن خسرو پرویز بن ہرمز بن نوشیرواں کے بطن سے ہیں ان کی عمراس وقت بائیس سال کی تھی اوروہ مریض تھے۔ حضرت امام کے دوسرے صاحبزادے حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو یعلی بنت ابی مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی کے بطن سے ہیں جن کی عمر اٹھارہ سال کی تھی (یہ شریک جنگ ہوکر شہید ہوئے) تیسرے شیر خوار جنہیں علی اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جن کا نام عبد اللہ اور جعفر بھی بتایا گیا ہے اس نام میں اختلاف ہے آپ کی والدہ قبیلہ بنی قضاعہ سے ہیں اور ایک صاحبزادی جن کانام سکینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے اور جن کی نسبت حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوئی تھی اور اس وقت آپ کی عمر سات سال کی تھی۔ کربلا میں ان کا نکاح ہونے کی جوروایت مشہور ہے وہ غلط ہے اس کی کچھ اصل نہیں اور کچھ ایسے کم عقل لوگوں نے یہ روایت وضع کی ہے جنھیں اتنی بھی تمیز نہ تھی کہ وہ یہ سمجھ سکتے کہ اہل بیت رسالت کے لیے وہ وقت توجہ الی اللہ اور شوق شہادت اور اتمام حجت کا تھا۔ اس وقت شادی نکاح کی طرف التفات ہونا بھی ان حالات کے منافی ہے۔ حضرت سکینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات بھی راہِ شام میں مشہور کی جاتی ہے یہ بھی غلط ہے بلکہ وہ واقعہ کربلا کے بعد عرصہ تک حیات رہیں اور ان کا نکاح حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوا۔ حضرت سکینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ امراء القیس ابن عدی کی دختر قبیلہ بنی کلب سے ہیں۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی ازواج میں سب سے زیادہ ان کے ساتھ محبت تھی اور ان کا بہت زیادہ اکرام و احترام فرماتے تھے۔ حضرت امام کا ایک شعر ہے ؎
1۔۔۔۔۔۔ آپ کے ہمراہ اس وقت مسطورہ ذیل حضرات تھے۔تین فرزند حضرت امام علی اوسط جن کو امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جو حضرت شہر بانو بنت یزد جرد بن شہریاربن خسرو پرویز بن ہرمز بن نوشیرواں کے بطن سے ہیں ان کی عمراس وقت بائیس سال کی تھی اوروہ مریض تھے۔ حضرت امام کے دوسرے صاحبزادے حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو یعلی بنت ابی مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی کے بطن سے ہیں جن کی عمر اٹھارہ سال کی تھی (یہ شریک جنگ ہوکر شہید ہوئے) تیسرے شیر خوار جنہیں علی اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جن کا نام عبد اللہ اور جعفر بھی بتایا گیا ہے اس نام میں اختلاف ہے آپ کی والدہ قبیلہ بنی قضاعہ سے ہیں اور ایک صاحبزادی جن کانام سکینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے اور جن کی نسبت حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوئی تھی اور اس وقت آپ کی عمر سات سال کی تھی۔ کربلا میں ان کا نکاح ہونے کی جوروایت مشہور ہے وہ غلط ہے اس کی کچھ اصل نہیں اور کچھ ایسے کم عقل لوگوں نے یہ روایت وضع کی ہے جنھیں اتنی بھی تمیز نہ تھی کہ وہ یہ سمجھ سکتے کہ اہل بیت رسالت کے لیے وہ وقت توجہ الی اللہ اور شوق شہادت اور اتمام حجت کا تھا۔ اس وقت شادی نکاح کی طرف التفات ہونا بھی ان حالات کے منافی ہے۔ حضرت سکینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات بھی راہِ شام میں مشہور کی جاتی ہے یہ بھی غلط ہے بلکہ وہ واقعہ کربلا کے بعد عرصہ تک حیات رہیں اور ان کا نکاح حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوا۔ حضرت سکینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ امراء القیس ابن عدی کی دختر قبیلہ بنی کلب سے ہیں۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی ازواج میں سب سے زیادہ ان کے ساتھ محبت تھی اور ان کا بہت زیادہ اکرام و احترام فرماتے تھے۔ حضرت امام کا ایک شعر ہے ؎ لَعُمْرِیْ اِنَّنِیْ لَاُحِبُّ اَرْضًا

تَحُلُّ بِھَا سَکِیْنَۃُ وَالرَّبَابُ

اس سے معلوم ہوتاہے کہ امام عالی مقام کو حضرت سکینہ اور ان کی والدہ ماجدہ سے کس قدر محبت تھی۔ حضرت امام کی بڑی صاحبزادی حضرت فاطمہ صغری رضی اللہ تعالیٰ عنہاجو حضرت ام اسحٰق بنت حضرت طلحہ کے بطن سے ہیں اپنے شوہر حضرت حسن بن مثنیٰ بن حضرت امام حسن ابن حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ۔(رضی اللہ تعالیٰ عنہم)کے ساتھ مدینہ طیبہ میں رہیں کربلا تشریف نہ لائیں۔ امام کے ازواج میں حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حضرت شہر بانو اور حضرت علی اصغر کی والدہ تھیں۔ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چار نوجوان فرزند حضرت قاسم،حضرت عبد اللہ، حضرت عمر، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ تھے اور کربلا میں شہید ہوئے۔ حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے پانچ فرزند حضرت عباس ابن علی ،حضرت عثمان ابن علی،حضرت عبد اللہ ابن علی، حضرت محمد ابن علی، حضرت جعفر ابن علی، رضی اللہ تعالیٰ عنہم

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!