فضائل

انبیائے کرام زندہ ہیں

انبیائے کرام زندہ ہیں

(۱)’’ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّہَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَائِ فَنَبِیُّ اللَّہِ حَیٌّ یُرْزَقُ‘‘۔ (1)
حضرت ابودرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ نے زمین پر انبیائے کرام علیہم السلام کے جسموں کو کھانا حرام فرمادیا ہے لہذا اللہ کے نبی زندہ ہیں۔ رزق دیئے جاتے ہیں۔ (رواہ ابن ماجہ، مشکوۃ ص۱۲۱)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ:
’’پیغمبر خدا زندہ است بہ حقیقت حیات دنیاوی‘‘۔ (2)
یعنی خدائے تعالیٰ کے نبی دنیوی زندگی کی حقیقت کے ساتھ زندہ ہیں۔ (اشعۃ اللمعات، جلد اول ص۶۷۵)
اورحضرت مُلا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ:
’’ لَا فَرقَ لَھُمْ فِی الْحَالَیْنِ وَلِذَاقِیْلَ أَوْلِیَائُ اﷲِ لَایَمُوْتُوْنَ وَلٰکِنْ یَنْتَقِلُوْنَ مِنْ دَارٍ إِلَی دَارٍ‘‘۔ (3)
یعنی انبیائے کرام کی دنیوی اور بعد وصال کی زندگی میں کوئی فرق نہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اولیائے کرام مرتے نہیں بلکہ ایک دار سے دوسرے دار کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں۔ (مرقاۃ جلد دوم مطبوعہ بمبئی ص۲۱۲)
(۲)’’عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّہَ حَرَّمَ عَلَی
حضرت اوس بن اوس رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ

الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَائِ‘‘۔ (1)
نے انبیائے کرام علیہم السلام کے جسموں کو زمین پر (کھانا) حرام فرمادیا ہے ۔
(رواہ ابوداود، والنسائی، والدارمی، والبیہقی، وابن ماجہ کلہم عن اوس بن اوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، مشکوۃ ص ۱۲۰)
حضرت مُلَّا علی قاری رضی عنہ ربّہ الباری اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ:
’’إِنَّ الْأَنْبِیَاء فِی قُبُوْرِھِمْ أَحْیَاء ‘‘۔ (2)
یعنی انبیائے کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ (مرقاۃ، جلد دوم ص ۲۰۹)
اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
’’حیات انبیاء متفق علیہ است ہیچ کس را دروے خلافے نیست حیات جسمانی دنیاوی حقیقی نہ حیات معنوی روحانی چنانکہ شہدا راست‘‘۔ (3)
یعنی انبیائے کر ام علیہم السلام زندہ ہیں اور ان کی زندگی سب مانتے آئے ہیں۔ کسی کو اس میں اختلاف نہیں ہے ۔ ان کی زندگی جسمانی حقیقی دنیاوی ہے ۔ شہیدوں کی طرح صرف معنوی اور روحانی نہیں ہے ۔ (اشعۃ اللمعات، جلد اول ص ۵۷۴)

انتباہ :

(۱)… انبیائے کرام علیہم السلام بعد وفات دنیوی زندگی کی حقیقت کے ساتھ زندہ رہتے ہیں اسی لیے شبِ معراج جب سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم بیت المقدس پہنچے تو انبیائے

کرام علیہم السلام کو وہاں نماز پڑھائی۔ اگر انبیائے کرام علیہم السلام بعد وفات زندہ نہ ہوتے تو بیت المقدس میں نماز پڑھنے کے لیے کیسے آتے ۔
(۲)…انبیائے کرام علیہم السلام کی زندگی جسمانی حقیقی دنیوی ہے ۔ شہیدوں کی طرح صرف معنوی اور رُوحانی نہیں ہے اسی لیے انبیائے کرام علیہم السلام کا ترکہ نہیں تقسیم کیا جاتا اور نہ ان کی بیویاں دوسرے سے نکاح کرسکتی ہیں۔ اور شہیدوں کا ترکہ تقسیم ہوتا ہے اور ان کی بیویاں عدت گزارنے کے بعد دوسرے سے نکاح کر سکتی ہیں۔
(۳)…انبیائے کرام علیہم السلام کی زندگی برزخی نہیں بلکہ دنیوی ہے بس فرق صرف یہ ہے کہ ہم جیسے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہیں۔
جیسا کہ حضرت شیخ حسن بن عمار شرنبلالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی مشہور کتاب ’’نورالایضاح ‘‘کی شرح ’’مراقی الفلاح ‘‘میں فرماتے ہیں:
’’وَمِمَّا ھُوَ مُقَرَّرٌ عِنْدَ الْمُحَقِّقِیْنَ أَنَّہُ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیٌّ یُرْزَقُ مُمَتّعٌ بِجَمِیْعِ الملاذِّ وَالْعِبَادَاتِ غَیْرَ أَنَّہُ حجبَ عَنْ أَبْصَارِ الْقَاصِرِیْنَ عَنْ شَرِیْف المقَامَاتِ‘‘۔ (1)
یعنی یہ بات اربابِ تحقیق علماء کے نزدیک ثابت ہے کہ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (حقیقی دنیوی زندگی کے ساتھ) زندہ ہیں۔ ان پر روزی پیش کی جاتی ہے تمام لذت والی چیزوں کا مزا اور عبادتوں کا سرور پاتے ہیں۔ لیکن جو لوگ کہ بلند درجوں تک پہنچنے سے قاصر ہیں ان کی نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ (مع طحطاوی مصری ص۴۴۷)
اور نسیم الریاض شرح شفا قاضی عیاض جلد اول، ص:۱۹۶میں ہے :
’’اَلأَنْبِیَائُ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ أَحْیَائٌ فِی قُبُوْرِھِمْ حَیَاۃً حَقِیْقَۃً‘‘۔ (2)
یعنی انبیائے کرام علیہم السلام حقیقی زندگی کے ساتھ اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔
اور مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد اول ص: ۲۸۴میں ہے :
’’إِنَّہُ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیٌّ یُرْزَقُ
یعنی بے شک حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم باحیات ہیں

وَیُسْتَمَدُّ مِنْہُ الْمَدَدُ الْمُطْلَقُ‘‘۔ (1)
انہیں روزی پیش کی جاتی ہے اور ان سے ہرقسم کی مدد طلب کی جاتی ہے ۔
اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنے مکتوب سلوک أقرب السبل بالتوجہ إلی سید الرسل مع أخبار الأخیار مطبوعہ رحیمیہ دیوبند ص ۱۶۱ میں فرمایا کہ:
’’باچندیں اختلاف و کثرت مذاہب کہ در علمائے امت ست یک کس رادریں مسئلہ خلافے نیست کہ آں حضرت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم بحقیقتِ حیات بے شائبہ مجاز و توہم تاویل دائم و باقی ست وبراعمال اُمت حاضرو ناظر و مرطالبان حقیقت راو متوجہان آں حضرت رامضیض و مربی‘‘۔
یعنی علمائے امت میں اتنے اختلافات و کثرت مذاہب کے باوجود کسی شخص کو اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم حیاتِ ( دنیوی) کی حقیقت کے ساتھ قائم اور باقی ہیں۔ اس حیات نبوی میں مجاز کی آمیزش اور تاویل کا وہم نہیں ہے اور امت کے اعمال پر حاضر و ناظر ہیں۔ نیز طالبانِ حقیقت کے لیے اور ان لوگوں کے لیے کہ آنحضرت کی جانب توجہ رکھتے ہیں حضور ان کو فیض بخشنے والے اور ان کے مربی ہیں۔
(۴)…پارہ ۲۳ آخری رکوع کی آیت کریمہ ’’إِنَّکَ مَیِّتٌ‘‘میں جو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے لیے موت آنا ذکر فرمایا تو اس سے مراد اس عالم دنیا سے منتقل ہونا ہے اور ان احادیث کریمہ میں حیات سے بعد وصال کی حقیقی زندگی مراد ہے ۔
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
میری چشم عالم سے چھپ جانے والے
(اعلی حضرت بریلوی)
٭…٭…٭…٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!