اسلام

لفظ اِلٰہ کی تحقیق

    اِلٰہ اِلٰہٌ سے بنا جس کے لغوی معنی ہیں انتہائی بلندی یا حیرانی ۔ الٰہ وہ جو انتہائی بلند و بر تر ہو یا جس کی ذات یا صفات میں مخلوق کی عقل حیران رہ جائے قرآن کی اصطلاح میں الٰہ بمعنی مستحق عبادت ہے یعنی معبود جہاں کہیں اِلٰہ آوے اس کے معنی معبود ہونگے لااِلٰہ نہیں ہے کوئی مستحق عبادت اِلَّا اللہ خدا کے سوا۔ مستحق عبادت وہ جس میں یہ صفات ہوں پیدا کرنا ،رزق،زندگی، موت کا مالک ہونا ۔ خود مخلو ق کی صفات سے پاک ہونا جیسے کھانا ،پینا ،مرنا ، سونا، مخلوق ہونا، کسی عیب کا حامل ہونا وغیرہ دانا غیب مطلق ہونا ۔ عالم کا مالک حقیقی ہونا وغیرہ۔ فرماتا ہے :
(1) اَمِ اتَّخَذُوۡۤا اٰلِہَۃً مِّنَ الْاَرْضِ ہُمْ یُنۡشِرُوۡنَ ﴿۲۱﴾
کیا انہوں نے زمین میں سے معبود بنالیے وہ کچھ پیدا کرتے ہیں ۔(پ17،الانبیآء:21)
یعنی چونکہ ان بتوں میں پیدا کرنے کی قابلیت نہیں وہ توخود مخلوق ہیں لہٰذا وہ خدا نہیں۔
(2) اَللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوۡمُ ۬ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الۡاَرْضِ ؕ
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آپ زندہ ہے اور وں کو قائم رکھنے والا ہے اسے نہ اونگھ آوے نہ نیند اس کی ہی وہ چیزیں ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔(پ3،البقرۃ:255)
(3) مَا کَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ کُلُّ اِلٰہٍۭ بِمَا خَلَقَ
اور نہ اس کے ساتھ کوئی معبود ہے یوں ہوتا تو ہر خدا پنی مخلوق لے جاتا ۔(پ18،المؤمنون:91)
(4) وَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً لَّا یَخْلُقُوۡنَ شَیْـًٔا وَّ ہُمْ یُخْلَقُوۡنَ وَلَا یَمْلِکُوۡنَ لِاَنۡفُسِہِمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا وَّ لَا یَمْلِکُوۡنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوۃً وَّ لَا نُشُوۡرًا ﴿۳﴾
انہوں نے خدا کے سوا اور خدا ٹھہرالئے جو کچھ نہیں پید اکرتے او رخود پیدا کئے جاتے ہیں اور نہیں مالک ہیں اپنی جانوں کیلئے نقصان ونفع کے اور نہیں مالک ہیں مرنے جینے کے اور نہ اٹھنے کے۔(پ18،الفرقان:3)
    ان جیسی بہت سی آیات سے یہ ہی پتا لگتا ہے کہ الٰہ حقیقی ہونے کا مدار مذکورہ بالا صفات پر ہے۔ مشرکین کے بتو ں اور اللہ تعالیٰ کے دیگر بندو ں میں چو نکہ یہ صفات موجود نہیں ہیں او رمخلوق کی صفتیں موجود ہیں جیسے کھانا ،پینا ، مرنا، سونا، صاحب اولاد ہونا ۔ لہٰذا وہ الٰہ نہیں ہوسکتے ۔
وَ اُمُّہٗ صِدِّیۡقَۃٌ ؕ کَانَا یَاۡکُلٰنِ الطَّعَامَ
اور عیسیٰ علیہ السلام کی ماں بہت سچی تھیں یہ دونوں کھانا کھاتے تھے ۔(پ6،المآئدۃ:75)
یعنی مسیح اور ان کی والدہ صاحبہ چونکہ کھانا کھاتے لہٰذا الٰہ نہیں ۔
    مشرکین عر ب نے اپنے معبودوں میں چونکہ حسب ذیل باتیں مانیں لہٰذا انہیں الٰہ مان لیا اور مشرک ہوگئے ۔
(۱) رب تعالیٰ کے مقابل دوسروں کی اطاعت کر نا حق سمجھ کر یعنی ان کا معبود جو کہے وہی حق ہے۔ خواہ رب کے خلاف ہی ہو ۔
(1) اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳﴾
تو دیکھوتو جس نے اپنی خواہش نفسانی کو اپنا الٰہبنالیا تو کیا تم اس کی نگہبانی کے ذمہ دار ہوگئے ۔(پ19،الفرقان:43)
(2) اِتَّخَذُوۡۤا اَحْبَارَہُمْ وَرُہۡبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ وَالْمَسِیۡحَ ابْنَ مَرْیَمَ ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوۡۤا اِلٰـہًا وَّاحِدًا
عیسائیوں نے اپنے پادریوں اور جو گیوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا او رمسیح بیٹے مریم کو او رانہیں حکم نہ تھا مگر یہ کہ ایک خدا کو پوجیں۔(پ10،التوبۃ:31)
    ظاہر ہے کہ عیسائیوں نے نہ تو اپنی خواہش کو نہ اپنے پادریوں کو خدا مانا مگر چونکہ رب تعالیٰ کے مقابلہ میں ان کی اطاعت کی اس لئے انہیں گویا الٰہ بنالیا۔
(۲) کسی کو یہ سمجھناکہ یہ ہم کو رب تعالیٰ کے مقابلہ میں اس سے بچالے گا یعنی وہ عذاب دینا چاہے تو یہ نہ دینے دیں۔
(1) اَمْ لَہُمْ اٰلِہَۃٌ تَمْنَعُہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِنَا ؕ لَا یَسْتَطِیۡعُوۡنَ نَصْرَ اَنۡفُسِہِمْ وَ لَا ہُمۡ مِّنَّا یُصْحَبُوۡنَ ﴿۴۳﴾
کیا ان کے کچھ خدا ہیں جو ان کو ہمارے مقابل ہم سے بچالیں وہ تو اپنی جانوں کو نہیں بچاسکتے اور نہ ہماری طر ف سے ان کی مدد کی جائے ۔ (پ17،الانبیآء:43)
(۳) کسی کو دھونس کا شفیع سمجھنا کہ رب تعالیٰ کے مقابل اس کی مرضی کیخلاف ہمیں اس سے چھڑا لیگا ۔
(1) اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ ؕ قُلْ اَوَ لَوْ کَانُوۡا لَا یَمْلِکُوۡنَ شَیْـًٔا وَّ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴۳﴾قُلۡ لِّلہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیۡعًا
کیا انہوں نے اللہ کے مقابل سفارشی بنا رکھے ہیں فرمادو کہ کیا اگر چہ وہ کسی چیز کے مالک نہ ہوں اور نہ عقل رکھیں فرمادو کہ شفاعت تو سب اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔(پ24،الزمر:43،44)
(2) مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشْفَعُ عِنْدَہٗۤ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ؕ
وہ کو ن ہے جو رب کے پاس اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کر سکے ۔(پ3البقرۃ:255)
(۴)کسی کو شفیع سمجھ کر پوجنا اسے تعبدی سجدہ کرنا ۔
وَیَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَایَضُرُّہُمْ وَ لَایَنۡفَعُہُمْ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللہِ
اور وہ اللہ کے سواا ن چیزوں کو پوجتے ہیں جو نہ انہیں نقصان دے نہ نفع اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے سفارشی ہیں اللہ کے نزدیک۔(پ11،یونس:18)
(۵)کسی کو خدا کی اولاد ماننا، پھر اس کی اطا عت کرنا ۔
وَ جَعَلُوۡا لِلہِ شُرَکَآءَ الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ وَ خَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیۡرِ عِلْمٍ ؕ
اور بنایا ان مشرکین نے جنات کو اللہ کا شریک حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا اور بنایا اس کے لئے بیٹے اوربیٹیاں ۔ (پ7،الانعام:100)
    غرضیکہ الٰہ کا مدار صرف اسی پر ہے کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کے برابر ماننا اور برابر ی کی وہ ہی صورتیں ہیں جو اوپر کی آیا ت سے معلوم ہوئیں۔ ہم مخلوق کو سمیع ، بصیر، زندہ ، قادر ، مالک ،وکیل، حاکم ،شاہد اور متصرف مانتے ہیں مگر مشرک نہیں کیونکہ کسی کو ان صفات میں رب تعالیٰ کی طر ح نہیں مانتے ۔
اعتراض:رب تعالیٰ بتو ں او رنبیوں ، ولیوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :
مَا کَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ ؕ سُبْحٰنَ اللہِ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوۡنَ ﴿۶۸﴾
اور ان کے لئے کوئی اختیار نہیں اللہ پاک اور برتر ہے اس سے جو شرک کرتے ہیں۔ (پ20،القصص:68)
    اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کو اختیارماننا ہی شرک ہے تم بھی نبیوں ، ولیوں کو اختیار مانتے ہو۔ تم نے انہیں الٰہ بنالیا ۔
جواب : یہا ں اختیار سے مراد پید اکرنے کا اختیارہے، اسی لئے فرمایا گیا :
وَ رَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُ ؕ مَا کَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ ؕ
آپ کا رب جو چاہے پیدا کرے اور اختیار فرمائے انہیں کوئی اختیار نہیں ۔(پ20،القصص:68)
    بااختیار سے مراد ہے رب تعالیٰ کے مقابل اختیار ورنہ تم بھی بادشاہوں ، حاکموں کوبا اختیار مانتے ہو ۔ اسی لئے ان سے ڈرتے ہو ۔
اعتراض : رب تعالیٰ نے نبیوں ، ولیوں اور بتوں کے لئے فرمایا:
وَیَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَایَضُرُّہُمْ وَ لَایَنۡفَعُہُمْ
وہ ا للہ کے سوا ان چیز وں کو پوجتے ہیں جو نہ انہیں نقصان دے نہ نفع ۔(پ11،یونس:18)
معلوم ہوا کہ کسی کو نافع اور ضار ماننا اسے الٰہ ماننا ہے اور تم بھی نبیوں ، ولیوں کو نافع اور ضار مانتے ہو تم بھی مشرک ہوئے ۔
جواب: ان جیسی آیات میں رب تعالیٰ کے مقابلہ میں نافع ماننا مراد ہے کہ رب تعالیٰ چاہے ہمیں نقصان پہنچا نا اور یہ ہمیں نفع پہنچادیں ، اس کی تفسیر یہ آیت ہے :
وَ اِنۡ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ ؕ
اگر خدا تمہیں رسوا کرے تو اس کے بعد تمہیں مدد کون دے گا ۔(پ4،اٰل عمرٰن: 160)
ورنہ تم بھی بادشاہ حاکموں ، بلکہ سانپ ، بچھو، دواؤں کو نافع اور نقصان دہ مانتے ہو۔ نیز فرماتا ہے :
وَ اِنۡ یَّمْسَسْکَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗۤ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ اِنۡ یَّمْسَسْکَ بِخَیۡرٍ فَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱۷﴾
اگر تجھے اللہ سختی پہنچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنیوالا نہیں اور جو تجھے بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔(پ7،الانعام:17)
    یہ آیت ان تمام آیتو ں کی تفسیر ہے کہ نفع نقصان سے مراد رب تعالیٰ کے مقابل نفع او رنقصان ہے ۔
اعتراض : رب تعالیٰ فرماتا ہے :
یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیۡ عَنۡکَ شَیْـًٔا ﴿۴۲﴾
براہیم علیہ السلام نے کہاکہ اے باپ تم اسے کیوں پوجتے ہو جو نہ سنے نہ دیکھے نہ تم سے کچھ مصیبت دور کرے ۔(پ16،مریم:42)
     معلوم ہوا کہ کسی کو غائبانہ پکار سننے والا ،غائبانہ دیکھنے والا ، نافع وضا ر ماننا، اسے الٰہ ماننا ہے۔ یہ شرک ہے ۔تم بھی نبیوں ، ولیوں میں یہ صفات مانتے ہو ۔ لہٰذا انہیں الٰہ مانتے ہو ۔
جواب : اس آیت میں دور سے سننے، دیکھنے کا ذکر کہا ں ہے؟ یہا ں تو کفار کی حماقت کا ذکر ہے کہ وہ ایسے پتھروں کو پوجتے ہیں جن میں دیکھنے ،سننے کی بھی طاقت نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ جو سنے، دیکھے ،وہ خدا ہے ورنہ پھرتو ہر زندہ انسان خدا ہونا چاہیے کہ وہ سنتا ،دیکھتا ہے۔ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿ۚ ۲﴾  (الدہر:2) ، رب تعالیٰ فرماتا ہے :
اَلَہُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوۡنَ بِہَاۤ ۫ اَمْ لَہُمْ اَیۡدٍ یَّبْطِشُوۡنَ بِہَاۤ ۫ اَمْ لَہُمْ اَعْیُنٌ یُّبْصِرُوۡنَ بِہَاۤ ۫
کیا ان بتوں کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑیں یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھیں ۔(پ9،الاعراف:195)
    اس میں بھی ان کفار کی حماقت کا ذکر ہے کہ وہ بے آنکھ ، بے ہاتھ اور بے پاؤں کی مخلوق کو پوجتے ہیں حالانکہ ان بتو ں سے خود یہ بہترہیں کہ ان کے ہاتھ ، پاؤں، آنکھ ، کان وغیرہ تو ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس کے آنکھ ، کان ہوں وہ خدا
ہوجائے ۔
اعتراض : رب تعالیٰ فرماتاہے :
وَ اِنۡ تَجْہَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی ﴿۷﴾اَللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ
اگر تم اونچی بات کہو تو وہ پوشیدہ اور چھپی باتو ں کو جان لیتا ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔(پ16،طہ:7،8)
    اس آیت سے معلوم ہو اکہ ا لٰہ کی شان یہ ہے کہ اونچی نیچی ، ظاہر، چھپی سب باتوں کو جانے، اگر کسی نبی ولی میں یہ طا قت مانی گئی تو اسے الٰہ مان لیا گیا او رشرک ہوگیا ۔
جواب : خدا کی یہ صفات ذاتی ، قدیم ، غیر فانی ہیں ۔ اسی طر ح کسی میں یہ صفات ماننا شرک ہے ۔ اس نے اپنے بندوں کو ظاہر پوشیدہ باتیں جاننے کی قوت بخشی ہے یہ قوت بہ عطاء الٰہی عارضی غیر میں ماننا عین ایمان ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
مَا یَلْفِظُ مِنۡ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ ﴿۱۸﴾
بندہ کوئی بات منہ سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک محافظ تیار بیٹھا ہے ۔(پ26،قۤ:18)
    یعنی اعمالنا مہ لکھنے والا فرشتہ انسا ن کا ہر ظاہر اور پوشیدہ کلام لکھتا ہے ۔اگر اسی فرشتے کو ہر ظاہر باطن بات کا علم نہ ہوتا تو لکھتا کیسے ہے ؟
وَ اِنَّ عَلَیۡکُمْ لَحٰفِظِیۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾کِرَامًا کَاتِبِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾یَعْلَمُوۡنَ مَا تَفْعَلُوۡنَ ﴿۱۲﴾
اور بے شک تم پر کچھ نگہبان ہیں معزز لکھنے والے جانتے ہیں ہر وہ جوتم کرو ۔(پ30،الانفطار:10۔12) پتا لگا کہ اعمال نامہ لکھنے والے فرشتے ہمارے چھپے اور ظاہر عمل کو جانتے ہیں ورنہ تحریر کیسے کریں ۔
اعتراض : رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَّ اَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنۡسِ یَعُوۡذُوۡنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوۡہُمْ رَہَقًا ۙ﴿۶﴾
اورکچھ انسانوں کے مرد کچھ جنوں کے مردوں کی پنا ہ لیتے تھے اور اس سے ان کا اور تکبر بڑھ گیا ۔(پ29،الجن:6)
معلوم ہوا کہ خدا کے سوا کسی کی پناہ لینا کفر و شرک ہے ۔ فرماتا ہے :
وَّ ہُوَ یُجِیۡرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیۡہِ
وہ رب پناہ دیتا ہے اور اس پر پناہ نہیں دی جاتی ۔ (پ18،المؤمنون:88)
جواب : ان آیات میں رب تعالیٰ کے مقابل پناہ لینا مراد ہے نہ کہ اس کے اذن سے اس کے بندوں کی پناہ ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾
اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر کے تمہارے پاس آجاویں اور اللہ سے بخشش چاہیں اور آپ بھی ان کی مغفرت کی دعا کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنیوالا مہربان پائیں ۔(پ5،النسآء:64)
    اگر یہ مراد نہ ہو تو ہم سردی گرمی میں کپڑوں مکانوں سے پناہ لیتے ہیں، بیماری میں حکیم سے ، مقدمہ میں حاکموں سے یہ سب شرک ہوجاوے گا ۔
اعتراض : خدا کے سوا کسی کو علم غیب ماننا شرک ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
قُل لَّا یَعْلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیۡبَ اِلَّا اللہُ ؕ
فرمادو جو آسمانوں اور زمین میں ہے ان میں غیب کوئی نہیں جانتا اللہ کے سوا ۔(پ20،النمل:65)
علم غیب دلیل الوہیت ہے جسے علم غیب مانا اسے الٰہ مان لیا ۔(جواہر القرآن ) جواب : اگر علم غیب دلیل الوہیت ہے تو ہر مومن الٰہ ہے کیونکہ ایمان با لغیب کے بغیر کوئی مومن نہیں ہوتا اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ(البقرۃ:3) اور بغیر علم کے ایمان ناممکن ہے اور ملک الموت، ابلیس ، فرشتہ کا تب تقدیر بھی الٰہ ہوگئے کہ ان سب کو بہت علوم غیبیہ دیئے گئے ہیں۔ رب فرماتا ہے :
اِنَّہٗ یَرٰىکُمْ ہُوَ وَقَبِیۡلُہٗ مِنْ حَیۡثُ لَا تَرَوْنَہُمْ ؕ
وہ ابلیس اور اس کے قبیلہ والے تم کو وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں دیکھ نہیں سکتے ۔(پ8،الاعراف:27)
     غیب کے متعلق نفی کی آیا ت بھی ہیں اور ثبوت کی بھی ۔ نفی کی آیات میں واجب، قدیم، کل ،ذاتی علم مراد ہے اور ثبوت کی آیات میں عطائی، ممکن، بعض، عارضی علم مراد۔ رب فرماتا ہے :
(1) وَلَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۵۹﴾
نہیں ہے کوئی خشک وتر چیز مگر وہ روشن کتاب لوح محفوظ میں ہے ۔(پ7،الانعام:59)
(2) وَتَفْصِیۡلَ الْکِتٰبِ لَارَیۡبَ فِیۡہِ
قرآن لوح محفوظ کی تفصیل ہے اس میں شک نہیں ۔(پ11،یونس:37)
(3) وَ نَزَّلْنَا عَلَیۡکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ
ہم نے آپ پرقرآن اتاراتمام چیزوں کاروشن بیان(پ14،النحل:89)
اگر کسی کو علم غیب نہیں دینا تھا تو لکھا کیوں ؟ اور جب لکھا گیا تو جو فرشتے لوح محفوظ کے حافظ ہیں تو انہیں علم ہے یا نہیں ؟ضرور ہے تو چا ہیے کہ یہ سب الٰہ بن جائیں ۔ رب تعالیٰ نے فرمایا کہ حکم صرف اللہ کا ہے :
(1) اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ
نہیں ہے حکم مگر اللہ کا۔(پ7،الانعام:57) (2) اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا
میرے سوا کسی کو وکیل نہ بناؤ ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:2)
(3)وَکَفٰی بِاللہِ حَسِیۡبًا ﴿۶﴾
اللہ کافی حساب لینے والاہے۔ (پ4،النسآء:6)
تو چاہیے کہ وکیل ہونا ، حکم ہونا ، حسیب ہونا ، الوہیت کی دلیل ہو ۔ جسے وکیل مانا ۔ اسے خدا مان لیا۔
؎ گرہمیں مکتب وہمیں مُلّا کار طفلاں تمام خواہد شد!

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!