مسائل

بھیک مانگنا کیسا

بھیک مانگنا کیسا

(۱)’’عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَسْأَلُ النَّاسَ حَتَّی یَأْتِیَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ فِی وَجْہِہِ مُضْغَۃُ لَحْمٍ۔ (1)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم انے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ آدمی ہمیشہ لوگوں سے بھیک مانگتا رہے گا یہاں تک کہ قیامت کے دن وہ اس حالت میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی بوٹی نہ ہوگی۔ یعنی نہایت بے آبرو ہو کر آئے گا۔ (بخاری، مسلم)
’’ عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَأَنْ یَأْخُذَ أَحَدُکُمْ حَبْلَہُ فَیَأْتِیَ بِحُزْمَۃِ الْحَطَبِ عَلَی ظَہْرِہِ فَیَبِیعَہَا فَیَکُفَّ اللَّہُ بِہَا وَجْہَہُ خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَسْأَلَ النَّاسَ أَعْطَوْہُ أَوْ مَنَعُوہُ‘‘۔ (2)
حضرت زبیر بن عوام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلوۃو السلام نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص اپنی رسی لے اور لکڑیوں کا ایک گٹھا پیٹھ پر لاد کر لائے اوران کو بیچے اور اللہ تعالیٰ بھیک مانگنے کی لذت سے اس کے چہرے کو بچائے تو یہ بہتر ہے اس بات سے کہ لوگوں سے بھیک مانگے ۔ اور وہ ا س کو دیں یا نہ دیں۔ (بخاری)
(۳)’’ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ وَہُوَ یَذْکُرُ الصَّدَقَۃَ وَالتَّعَفُّفَ عَنِ الْمَسْأَلَۃِ۔ اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ
حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا سے روایت ہے کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم منبر پر تشریف فرما تھے ۔ صدقہ کا اور بھیک مانگنے سے بچنے کا ذکر کرتے

الْیَدِ السُّفْلَی وَالْیَدُ الْعُلْیَا ہِیَ الْمُنْفِقَۃُ وَالسُّفْلَی ہِیَ السَّائِلَۃُ ‘‘۔ (1)
ہوئے فرمایا کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ۔ اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ۔ (بخاری، مسلم)
(۴)’’ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلُ کُدُوحٌ یَکْدَحُ بِہَا الرَّجُلُ وَجْہَہُ فَمَنْ شَائَ أَبْقَی عَلَی وَجْہِہِ وَمَنْ شَاء تَرَکَہُ إِلَّا أَنْ یَسْأَلَ الرَّجُلُ ذَا سُلْطَانٍ أَوْ فِی أَمْرٍ لَا یَجِدُ مِنْہُ بُدًّا‘‘۔ (2) (ابوداود، ترمذی)
حضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ بھیک مانگنا ایک قسم کی خراش ہے کہ آدمی بھیک مانگ کر اپنے منہ کو نوچتا ہے تو جو چاہے اپنے منہ پر اس خراش کو نمایاں کرے اور جو چاہے اس سے اپنا چہرہ محفوظ رکھے ۔ ہاں اگر آدمی صاحبِ سلطنت سے اپنا حق مانگے یا ایسے امر میں سوال کرے کہ اس سے چارہ کا ر نہ ہو تو جائز ہے ۔ (ابوداود، ترمذی)
(۵)’’عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَہُمْ تَکَثُّرًا فَإِنَّمَا یَسْأَلُ جَمْرًا فَلْیَسْتَقِلَّ أَوْ لِیَسْتَکْثِرْ‘‘۔ (3)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ جو شخص مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے بھیک مانگتا ہے وہ گویا انگارہ مانگتا ہے توا س کو اختیار ہے کہ بہت مانگے یا کم مانگے ۔ (مسلم)
انتباہ :
(۱)… آج کل بہت سے لوگوں نے بھیک مانگنا اپنا پیشہ بنالیا ہے ۔ گھر میں ہزاروں روپے ہیں۔ ہل بیل والے ہیں کھیتی کرتے ہیں مگر بھیک مانگنا نہیں چھوڑتے ۔ حالانکہ ایسے لوگوں کو بھیک مانگنا حرام ہے ۔ اور ان

کو بھیک دینے والے گنہ گار ہوتے ہیں: ’’ لِأَنَّ اﷲَ تَعَالَی قَالَ فِی الْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ {لا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِِِ }‘‘(پارہ ۶، رکوع ۵)۔
(۲)…ڈھول، ہارمونیم، سارنگی بجانے والوں اور گانے والوں کو بھیک دینا منع ہے ۔
اشعۃ اللمعات جلد دوم ص:۳۰ میں ہے : ’’بناید داد سائلے را کہ طبل زدہ برور ہامی گردد ومطرب راکہ از ہمہ افحش ست‘‘۔ (1)
(۳)…آج کل اکثر لوگ اندھے ، لولے ، لنگڑے ، اپاہج کو بھیک نہیں دیتے اور گانے والی، جوان نامحرم عورتوں سے گانا سنتے اور انہیں بھیک دیتے ہیں یہ سخت ناجائز اور حرام ہے ۔
٭…٭…٭…٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!