مسئلہ وحدۃ الوجود
الحمد اللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی حبیبہ و رسولہ سیدنا محمد وآلہ و أصحابہ اجمعین ۔
یہ امر پوشیدہ نہیں ہے کہ ہر چیز پیدا ہونے سے پہلے معدوم ہو تی ہے ، او ر جس وقت پیدا ہوئی ہے یکایک محسوس ہو جا تی ہے ۔ اب یہاں دیکھنا یہ ہے کہ کس چیز نے اسے محسوبنا دیا ہے ؟اور وہ کیا چیز ہے جس کے نہ ہونے سے وہ معدوم تھی ،اور اس کے ہونے سے محسوس ہو گئی ۔
ادنیٰ تامل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ ’’وجود‘‘ ہی ہے جو حالت ’’عدم ‘‘ میں اس چیز سے متعلق نہ تھا ، او ر جب دونوں میں باہمی تعلق ہوا تو وہ چیز محسوس اورموجود ہوگئی۔عقل اس پر گواہی دیتی ہے کہ جو چیز ایسی ہوکہ اس کے وجود سے ’’معدوم ‘‘ چیز ’’موجود ‘‘ ہوجائے وہ اعتباری نہ ہوگی بلکہ مستقل بالذات ہوگی اس سے ثابت ہو اکہ جو وجود جس کا ذکر یہاں ہو رہا ہے وہ مصدری نہیں کیونکہ ’’وجود مصدری ‘‘ ایک اعتباری اور انتزاعی چیز ہے جس کا منشا ئے انتزاع دوسری چیز ہوگی ۔
اب یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ دوسری چیز نفسِ شئے معدوم ہے یا اور کچھ ؟ اگر نفس ِ شئے معدم ہوتو لازم آئے گا ک معدوم من حیث ہو معدوم سے وجود خیال میںآئے !جو کسی طرح درست نہیں !تو لازمی ہے کہ وہ دوسری شئے وجود مصدری کامنشا ئے انتزاع ہے ، وہ نفس وجودہوگا مگر مصدری نہ ہوگا ، بلکہ ایسا مستقل ہوگا کہ معدوم شئے کو وجود دے سکے اور اس کی موجودیت کا منشائے انتزاع بنے ۔
غرضکہ یہ وجود ،وجود مصدری کا منشاء انتزاع ہے اور خارج میں موجود ہے ۔ اس وجود کا معنیٰ ’’ہونا ‘‘ نہیں ہو سکتا جو معنا ئے مصدری ہے ،بلکہ اس کا معنی ’’ما بہ الموجودیت ‘‘ہے ۔ گواس کی حقیقت سمجھ میں نہ آئے مگر اتنا تو ضرور سمجھ میں آتا ہے کہ ہر شئے معدوم کے موجود ہونے کے وقت ایک چیز ایسی اس کے ساتھ متعلق ہو تی ہے جس کی وجہ سے اس پر موجودیت کا اطلاق ہو جا تا ہے ۔
جب وجود کے دومعنے معلوم ہو ئے ، تو اب ہم جہاں ’’وجود ‘‘ کہیں گے تو اس سے مراد ’’ما بہٖ الموجودیت ‘‘لیں گے ۔
جب آپ یہ سمجھ گئے تو جو معدوم شئے وجود میں آتی ہے وہاں دوچیزیں ہو ں گی ،ایک وہ معدوم جس کو وجود مل رہا ہے ،دوسرا وجود جس کی وجہ سے وہ معدوم شئے وجود میں آرہی ہے ۔تو اب تمام موجوداتِ عالم کا حال معلوم ہو گیا کہ اگر وجود سے قطع نظر کر لیجئے تو وہ سب معدوم ہے ، اوراس کا موجود ہونا صرف وجود کی برکت سے ہے ۔
اب یہاں یہ بات معلوم کر نے کی ضرورت ہے کہ عالم میں بے انتہاء چیزیں ہم دیکھتے ہیں جو شکل و شمائل میں ایک دوسری سے ممتاز ہیں ، اس کثرت کا منشاء آیا وجود ہے یا وہ معدومات ؟اس میں شک نہیںکہ ’’وجود مصدری ‘‘ میں کثرت ضرور ہے کیونکہ اس کا منشاء ہر ایک ’’موجود‘‘ ہے جو دوسرے سے تشخص میں ممتاز ہے ،مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’’وجود خارجی ‘‘ اور اصلی یعنی’’ما بہٖ الموجودیت ‘‘میں کثرت ہے ،کیونکہ اس کی خاصیت تویہ ہے کہ جس’’ معدوم ‘‘کے ساتھ ملا اس کو ’’موجود ‘‘کر دیا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ کثرت اشیائے معدومہ میں ہے ۔
یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اشیائے معدومہ تومعدوم ہیں اور ’’عدم ‘‘ میں امتیاز سمجھ میں نہیں آتا ؟ !تو اس کو یوں سمجھنا چاہئے کہ مثلاً زید جو ’’موجود‘‘ ہوا حالت ’’عدم ‘‘ میں ’’زید معدوم ‘‘تھا یعنی عدم محض نہ تھا ،اسی وجہ سے اس کو ’’زید معدوم ‘‘ کہنے کی ضرورت ہوئی ۔ دیکھئے جب ہم گھر بنا تے ہیں تو پہلے اس کا نقشہ ذہن میں لا تے ہیں پھر خارج میں اس کو موجود کر تے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ خارج میں معدوم گھر وجود میں آیا نہ یہ کہ مطلق معدوم یعنی عدم محض ۔مقصود یہ ہے کہ گو گھر ،خارج میں معدوم ہے مگر عدم محض نہیں ، اگر عدم محض ہو تا تو یوں کہتے کہ عدم کو ہم وجود میں لائے ،حالانکہ کہا جا تا ہے کہ معدوم گھر کو ہم نے موجودکیا ۔ پھر وہ معدوم گھر جب وجود میں آیا تو جس قدر آثارولوازم اس کے خیال کئے گئے تھے ان سب کا وجود خارج میں آگیا ۔
حاصل یہ کہ ’’موجود گھر‘‘ کے وجود سے اگرقطع نظر کیا جائے تو صرف ’’گھر‘‘ رہ جائے گا جو قبل وجود ’’معدوم‘‘ تھا اوربعد وجود ’’موجود‘‘ ہو گیا ،اسی کو اس گھر کا ’’عین ثابت ‘‘ کہیں گے ،گوکہ حالت عدم میں موجود نہیں مگر من وجہ اس کو ثبوت کا ایک درجہ حاصل ہے جس کو وجود نہیں کہہ سکتے ۔
جب ہی موجود میں دہ چیزیں پائی جاتی ہیں ،ایک ’’وجود‘‘ دوسری ’’عین ثابت‘‘۔پس معلوم ہوا کہ کثرت موجودات صرف اعین ثابتہ کی کثرت سے ہے ورنہ نفس وجود صرف ایک ہی ہے ۔ اس کو یوں سمجھنا چاہئے کہ تمام عالم کے اعیان ثابتہ پر وجود محیط ہے اور وجود ان پرایسا ہے جیسے چادر مختلف اشیاء پر اڑہا دی جا تی ہے ،اوران اعیان ثابتہ کا ظہور صرف وجود کی وجہ سے ہورہا ہے ۔
اب تمام عالم کو خیال کر لیجئے کہ کہیں زمین ہے کہیں پانی او رکہیں ہوا اور افلاک (کائنات )وغیرہ ،اس مجموعہ میںوجود موجود ہے جو ایک ہی ہے مگر ہر ایک چیز کا عین ثابت علیحدہ علیحدہ ہے ،جتنے آثار و لوازم ہر ایک کے ہیں وہ سب ہر ایک کے عین ثابت ہیں مندرج و مندمج ہیں ان کو وجود سے کوئی تعلق نہیں، او رتعلق ہے تواس قسم کا کہ ان کاظہور بغیر وجود کے ممکن نہیں ۔
محققین وجودہی کو’’ ذات الٰہی ‘‘کہتے ہیں جو تمام عالم کا ’’ مابہ الموجودیت ‘‘ ہے ، کیونکہ اسی سے ہرچیز کی موجود یت متعلق و وابستہ ہے ۔گو شریعت میں اس لفظ کا اطلاق ذات الٰہی پر وارد نہیں مگر معنی ضـرور صادق آتے ہیں اور عقل بھی اس کو تسلیم کر تی ہے ۔ والعبرۃ للمعنی ۔
اس صورت میں مثلاً زید بلکہ تمام عالم معدوم ہے ، اور موجود ہے تو اس وجہ سے کہ وجود کے ساتھ اس کو ایک تعلق خاص ہے ،اگر وہ تعلق اٹھ جائے تو اس کو پھر کسی طرح موجود نہیں کہہ سکتے ، اب اگر ظاہر ہے تووجود ہی ہے ، کیونکہ معدوم بحیثیت عدم ظاہر نہیںہوسکتا ،اگر ا س کو ظہور ہے تو تعلق وجود کے طفیل سے ہے ۔ا س لحاظ سے بندہ
اپنے کو فانی اور غیر موجود کہہ سکتا ہے ۔ اور اس لحاظ سے کہ وجود کے ساتھ اس کو تعلق خاص ہے اور نظر صرف وجود کی طرف کر ے تو ‘‘ہمہ اوست ‘‘ کا مضمون بھی صادق آتا ہے ۔ اسی وجہ سے بزرگان دین کے اقوال دونوں قسم کے وارد ہیں ، حضرت شیخ اکبر رضی اللہ عنہ نے متعد و مقامات میں فرمایا ہے ما انت ہوبل انت ہو ۔
اگر کوئی اس خیال سے کہ ’’وجود‘‘واحد ہے او ربزرگان دین نے ’’ہمہ اوست‘‘فرمایا ہے اپنی حقیقت جو عین ثابت ہے پیش نظر نہ رکھے او ریہ کہے کہ ہمیں عبادت کی ضـرورت نہیں ، تو حضرات صوفیہ کے نزدیک بھی وہ کافر ہے ، کیونکہ خدا ے تعالیٰ نے صاف فرما یا ہے وما خلقت الجن الانس الا لیعبدون اور جگہ جگہ عبادت کی تاکید فرمائی ہے ۔اور نصوص قطعیہ کے انکار سے حضرات صوفیہ کے پاس بھی آدمی کا فر ہو جا تا ہے اور وحدت وجود سے اس کوکوئی نفع نہ ہوگا ،کیونکہ باوجود وحدت وجود کے دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ آگ برابر جلا تی ہے اور اس سے دردو مصیبت ہو تی ہے ،اسی طرح قیامت میں بھی عذاب الیم ہوگا ۔ اگر وحدت وجودکا مقتضیٰ یہ ہوتا کہ کسی کو اذیت اورضرر نہ ہوتو دنیا میں بھی اذیت نہ ہوتی ۔ اور یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وحدت الوجود کا اثر قیامت ہی میں ہوگا، کیونکہ وجوددنیا و آخرت میں ایک ہی ہے،مقتضائے ذاتی اس کا بدل نہیں ہوسکتا ۔ہاں یہ بات او رہے کہ کثرت عبادت سے کنت سمعہ و بصرہ کے مقام تک پہونچ جائے ،لیکن اس کا وحدت الوجود سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ کثرت عبادت کا ثمرہ ہے ۔
ہذا من افادۃ العالم العارف باللہ مولانا الحافظ الحاج المولوی محمد انوار اللہ مدظلہ العالی وعم فیضہ المتعالی بدام الایام و اللیا لی فی اثبات و حدۃ الوجود