اعمالمسائل

نیک عورتوں کا ذکر

نیک عورتوں کا ذکر

حمدِ باری تعالیٰ:

سب خوبیاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے کائنات اور اس کی ہر چیز کو مضبوط بنایا اوراس کی اکٹھی اور جدا جدا اشیاء کو پختہ بنایا ۔ میں اس کی حمد کرتا ہوں جس کے مجھ پر بہت احسانات ہیں اور اعتراف کرتا ہوں کہ میں اس کے احسانات کاشکر ادا کرنے سے قاصررہا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہی بادشاہ اور بہت زیادہ احسان فرمانے والا ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت سیِّدُنا محمدِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلَّم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کو سراپا ہدایت بناکر بھیجا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلَّم نے معجزۂ قرآنی کے ذریعے کفر کے اندھیروں میں حیرت زدہ لوگوں کو ہدایت عطا فرمائی اور تمام تعریفیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے دین ِاسلام کو تمام ادیان پر غلبہ عطا فرمایا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پراور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی آل پر اور صحابۂ کرام علیہم الرضوان پرہر گھڑی اور ہر وقت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی دائمی رحمت کا نزول ہو۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں مؤمن عورتوں کا ذکر یوں فرماتا ہے: ”وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَآءٌ مُّؤْمِنٰتٌ ترجمۂ کنزالایمان:اور اگر یہ نہ ہوتا کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں۔”(پ۲۶،الفتح:۲۵)
اور مزید ارشاد فرمایا: اِنَّ الْمُسْلِمِیۡنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیۡنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیۡنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیۡنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیۡنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیۡنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیۡنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیۡنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیۡنَ فُرُوۡجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَ الذَّاکِرِیۡنَ اللہَ کَثِیۡرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللہُ لَہُمۡ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیۡمًا ﴿۳۵﴾ ترجمۂ کنزالایمان:بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے اور ایمان والیاں اور فرمانبرداراور فرمانبرداریں اور سچے اور سچیاں اور صبر والے اور صبر والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں اور روزے والے اور روزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لئے اللہ نے بخشش اوربڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔”(۱)(پ۲۲،الاحزاب:۳۵)

ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نیک عورتوں کا ذکر نیک مردوں کے ساتھ کیا ہے۔ مردوں کی طرح عورتوں کے بھی مختلف احوال ہیں، اُن میں بھی زُہد و تقویٰ اور خیر وبھلائی کی صفات مکمل طور پر پائی جاتی ہیں، اُن میں بھی اورادو وظائف کرنے والی اور جنگلات و کھنڈرات کی سیاحت کرنے والی عورتیں ہوتی ہیں۔ اور بعض کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کشف وغیرہ کی خصوصیات بھی عطا فرماتا ہے جیساکہ پہلے دور میں رابعہ عدویہ، شعوانہ ،ریحانہ ،اُمُّ الخیررحمۃاللہ تعالیٰ علیہن اور ان کے علاوہ معروف اور غیر معروف پاکباز عورتیں گزری ہیں۔

1 ۔۔۔۔۔۔مفسِّرِشہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ”شانِ نزول: اسماء بنتِ عمیس جب اپنے شوہر جعفر بن ابی طالب کے ساتھ حبشہ سے واپس آئیں۔ تو ازواجِ نبئ کریم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم سے مِل کر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا عورتوں کے باب میں بھی کوئی آیت نازل ہوئی ہے۔ اُنہوں نے فرمایا :نہیں۔ تو اسماء نے حضور سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم سے عرض کیا کہ” حضور عورتیں بڑے ٹَوٹے(یعنی خسارے) میں ہیں۔”فرمایا: کیوں؟ عرض کیا کہ ”ان کا ذکر خیر کے ساتھ ہوتا ہی نہیں جیسا کہ مردوں کا ہوتا ہے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ان کے دس مراتِب مردوں کے ساتھ ذکر کئے گئے اور ان کے ساتھ ان کی مدح فرمائی گئی اور مراتب میں سے پہلا مرتبہ اسلام ہے جو خدا اور رسول کی فرمانبرداری ہے۔ دُوسرا ایمان کہ وہ اعتقاد صحیح اور ظاہر و باطن کا موافق ہونا ہے۔ تیسرا مرتبہ قنوت یعنی طاعت ۔ہے۔اس میں چوتھے مرتبہ کا بیان ہے کہ وہ صدقِ نیات و صدقِ اقوال و افعال ہے۔ اس کے بعد پانچویں مرتبہ صبر کا بیان ہے کہ طاعتوں کی پابندی کرنا اور ممنوعات سے احتراز رکھنا۔ خواہ نفس پر کتنا ہی شاق اور گراں ہو۔ رضائے الٰہی کے لئے اختیار کیا جائے۔ اس کے بعد پھرچھٹے مرتبہ خشوع کا بیان ہے۔ جو طاعتوں اور عبادتوں میں قلوب و جوارِح کے ساتھ متواضِع ہونا ہے۔ اس کے بعد ساتویں مرتبہ صدقہ کا بیان ہے۔ جواللہ تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے مال میں سے اس کی راہ میں بطریق فرض و نفل دینا ہے۔ پھر آٹھویں مرتبہ صوم کا بیان ہے۔ یہ بھی فرض و نفل دونوں کو شامل ہے۔ منقول ہے کہ” جس نے ہر ہفتہ ایک درم صدقہ کیا وہ مُتَصَدِّ قین میں اور جس نے ہر مہینہ ایَّامِ بِیض کے تین روزے رکھے، وہ صائمین میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد نویں مرتبہ عفَّت کا بیان ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنی پارسائی کو محفوظ رکھے اور جو حلال نہیں ہے اس سے بچے۔ سب سے آخر میں دسویں مرتبہ کثرتِ ذکر کا بیان ہے۔ ذکر میں تسبیح، تحمید، تہلیل، تکبیر، قراء َتِ قرآن، علمِ دین کا پڑھنا، پڑھانا، نماز، وعظ، نصیحت، میلاد شریف، نعت شریف پڑھنا سب داخل ہیں۔ کہا گیا ہے کہ بندہ ذاکرین میں جب شمار ہوتا ہے جب کہ وہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہر حال میں اللہ کا ذکر کرے۔”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!