اسلاماعمالفضائل

قال شیخ الاسلام مجدّدِ ملت شیخ طریقت عارف باللہ شاہ محمد انواراللہ فاروقی رحمہ اللہ علیہ مؤسس جامعہ نظامیہ حیدرآباد کی رحمہ اللہ

قال شیخ الاسلام مجدّدِ ملت شیخ طریقت عارف باللہ شاہ محمد انواراللہ فاروقی رحمہ اللہ علیہ مؤسس جامعہ نظامیہ حیدرآباد کی رحمہ اللہ
(ملفوظات)

 

مجدّدِ ملت شیخ طریقت عارف باللہ شاہ محمد انواراللہ فاروقی رحمہ اللہ علیہ مؤسس جامعہ نظامیہ حیدرآباد کی تصانیف سے اخذ کردہ افکار زرین کا سبق آموز، دلچسپ، دلآویز، دلنشین موعظت سے معمور انتخاب جو آپ کی فکر و عمل میں ایک صالح انقلاب برپا کردے گا۔

تخریج و ترتیب
شاہ محمد فصیح الدین نظامی
مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد

ناشر
شیخ الاسلام لائبریری اینڈ ریسرچ فائونڈیشن
مجلسِ انوارِ فضیلت جامعہ نظامیہ حیدرآباد

 اَحوالِ قال!

بزرگو ں، دانشوروں، عالموں، صوفیوں، سنتوں، فلسفیوں کے کہے ہوئے جملے ’’اقوال زرین‘‘ اور ارقام کئے ہوئے رشحات ’’افکار زرین‘‘ کہلاتے ہیں جو دیکھنے میں بظاہر چھوٹے اور الفاظ میں کم ہوتے ہیں لیکن معنی کے لحاظ سے بڑے وسیع اور اپنے اندر ایک بحرِذخار لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ’’قال شیخ الاسلام‘‘ کے نام سے آپ کے ہاتھوں میں تیرھویں صدی ہجری کے ممتاز صوفی و مفکر شیخ الاسلام حضرت شاہ محمد انوار اللہ فاروقی چشتی قادری قدس سرہ العزیز مؤسس اعلیٰ جامعہ نظامیہ کے مختصر لیکن بہت ہی جامع و مانع افکار زرین پر مشتمل ہے جو آپ کی مختلف تصانیف سے بڑی دیدہ ریزی اور عرق ریزی کے بعد منتخب کئے گئے ہیں، معزم قارئین کو مطالعہ کے دوران ان مختصر لیکن معنی خیز جملوں کی کہکشاں میں شیخ الاسلام ایک صوفی، عالم، فلسفی، مفکر، مدبر، مصلح، مجدد، سائنس داں، معلم، دیدہ ور، دانشور، حکیم، ماہر لسانات، مفسر، محدث، فقیہ، معقولی، منقولی، نقاد، خیر خواہ، بہی خواہ، مربی، صرفی، نحوی، ادیب، انشاء پرداز، نباض، روحانیات، وجدانیات کے شعورِ کامل سے منور و روشن نظر آئیں گے۔
’’شیخ الاسلام لائبریری اینڈ ریسرچ فائونڈیشن حیدرآباد‘‘ کے قیام کا مقصد شیخ الاسلام کی فکر کو مختلف زاویوں سے عام سے عام تر کرنا اور آپ کی کتب کے مطالعہ کی ترغیب دینا بھی ہے۔ ’’قال شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کا اسی سلسلہ سے تعلق ہے، جس میں بعض خالص علمی الفاظ کی وضاحت قوسین میں لغت کی مدد سے دی جارہی ہے تا کہ سمجھنے میں آسانی ہو، علمی دینا میں اس جدت کی پذیرائی کی اُمید ہے اگر آپ یہ اسلوب پسند فرماتے ہیں تو ’’قال شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کو علمی مجالس میں پڑھ کر سنائیں، مقالات، مضامین میں اس کے حوالے دیں، درس گاہوں، خانقاہوں، تربیت گاہوں کے بورڈس پر اس کو نمایاں تحریر کریں، نوجوانوں کے ذہن نشین کرائیں، خوبصورت ہمہ رنگی اسٹیکرس تیار کریں۔ کیلنڈرس میں نمایاں جگہ پر شائع کریں، دوست و احباب کو تحفۃً پیش کریں، صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے، اُمید ہے کہ شیخ الاسلام فہمی کا یہ انداز قبولیت و مقبولیت مخلصانہ کا وسیلہ ثابت ہوگا، دوسری مرتبہ اس کی اشاعت حضرت شیخ الاسلام شاہ محمد انوار اللہ فاروقیؒ بانی جامعہ نظامیہ کے سو سالہ عرس کے موقع پر جماعت مولوی سالِ اول جامعہ نظامیہ کی جانب سے قائم کردہ ادارہ’’ مجلس انوار فضیلت ‘‘حیدرآباد عمل میں آ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان طلبہ کی عمر، علم، عمل میں ترقی عطا فرمائے آمین۔ فقط
۱۹؍ جمادی الاولیٰ 1436ھ خلوص کیش
م ۱۱ ؍مارچ 2015ء شاہ محمد فصیح الدین نظامی مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام رحمہ اللہ بانی جامعہ نظامیہ نے
(۱)فرمایا
ہمارے دین میں ادب کی نہایت ضرورت ہے جب تک اہل اسلام میں کامل طور پر ادب رہا، دن دونی رات چوگنی ترقی ہوتی رہی۔ (مقاصد الاسلام :۱۱۔۱)
(۲)فرمایا
بادشاہ کے نام کے ساتھ جس کا نام لکھا ہوا ہو اس کی عزت وہی کرے گا جو آدمی ہو، جانوروں کو اس سے کیا تعلق، اسی طرح ناواقف بہائم (چوپائے)سیرت حضرت ﷺ کی عظمت کو کیا جانیں۔ (مقاصد الاسلام: ۱۱۔۵)
(۳)فرمایا
گالی وہی نہیں ہوتی جو عرف میں مشہور ہے بلکہ مقصد گالی سے فقط کسرِ شان مقصود ہوتا ہے، اس وجہ سے جس بات میں آنحضرتﷺ کی کسرِ شان بیان کی جائے وہی گالی ہوگی۔ (مقاصد الاسلام: ۱۱۔۱۰)
(۴)فرمایا
ہمارے بعض مہربان جب حدیث’’لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ‘‘ (اگر آپ نہ ہوتے تو میں افلاک کو پیدا نہیں کرتا)سنتے ہیں تو بطورِ طعن و تعصّب (ملامت) کہتے ہیں یہ تو محدثین کے نزدیک بے اصل ہے وہ اس کو بڑی بات سمجھ رہے ہیں کہ حضرت ﷺ کی وجہ سے افلاک پیدا ہوئے، حالاں کہ وہاں تو یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو جنت ہوتی نہ دوزخ نہ آدم نہ دنیا، یہ سب آپ کی طفیلی ہیں(آپ کے صدقہ میں) ۔(مقاصد الاسلام : ۱۱۔۳۱)
(۵)فرمایا
وہ لوگ بڑے نا خلف (نا اہل) ہیں جن کے دل میں آنحضرت ﷺ کی وقعت (عظمت )نہیں۔ (مقاصد الاسلام:۱۱۔۴۲)
(۶)فرمایا
شارع علیہ السلام کا سکوت (خاموشی) کسی مسئلہ میں جو اعتقاد سے متعلق ہو اس کو شرعی بنادیتا ہے۔ (مقاصد الاسلام: ۱۱۔۴۵)
(۷)فرمایا
مفسرین نے ’’اَلَمْ تَرَ‘‘ کے معنی’’اَلَمْ تَعْلَمْ‘‘لکھا ہے اس کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی اس لئے کہ حضرت ﷺ اپنی نورانیت کے ساتھ اس وقت موجود تھے اور دیکھ رہے تھے کہ ہاتھی آپ کو سجدہ کر رہا ہے اور تمام لشکر کو پرندے ہلاک کر رہے ہیں اور سب بھاگے جارہے ہیں۔ (مقاصد الاسلام: ۱۱۔۴۷)
(۸)فرمایا
(ثواب و عقاب کا دار و مدار) دل کی کیفیات پر ہے اچھا کام بد نیتی سے کیا جائے تو برا ہوجاتا ہے جیسے ریا کی عبادت اور برا کام نیک نیتی سے کیا جائے تو اچھا ہوجاتا ہے جیسے اصلاح بین الناس کے خیال سے جھوٹ کہنا۔ (مقاصد الاسلام: ۱۱۔۱۰۰)
(۹)فرمایا
جب اسماعیل علیہ السلام کی دوبارہ زندگی پر مسلمانوں کو ہر سال عید منانے کا حکم ہواتو حضرت ابو العالم فخر انبیاء و رسل، مسجودِ خلائق صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت پر امتیوں کو کس قدر خوشی ہونی چاہئے۔ (مقاصد الاسلام: ۱۱۔۱۰۵)
(۱۰)فرمایا
دین کی کامیابی عقل کو تباہ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے میں رکھی ہے ’’ عقل قربان کن بہ پیش مصطفی، پیرو اوباش تایابی ھدیٰ‘‘ ترجمہ: آپ کے پاس عقل کو قربان کر اور ان کا پیرو ہوجا تاکہ تو ہدایت پائے۔ (مقاصد الاسلام: ۱۰۔۶)
(۱۱)فرمایا
خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں خواہ دشمن ہو یا دوست کوئی قابل التفات (توجہ) نہیں، نہ کسی سے خوف ہو نہ رجا (امید) ہو۔ (مقاصد الاسلام: ۱۰۔۹)
(۱۲)فرمایا
جس قسم کی اتباع صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کیا ممکن نہیں کہ ہر شخص اپنے پیر کی اتباع کرے، ہزاروں بلکہ لاکھوں میں چند ہی افراد ہوتے ہیں جو اس قسم کی اتباع کرکے درجۂ ولایت اور صدیقیت کو پہنچتے ہیں۔ (مقاصد الاسلام: ۱۰۔۱۴۔۱۵)
(۱۳)فرمایا
مرید صادق الاعتقاد کو چاہئے کہ اپنے مرشد کے قدم بقدم اور اس طرح پیروی کرے کہ خدا کی راہ میں سب سے بے تعلق ہوجائے اور خیر خواہ ہزار عقلی اور نقلی دلیلیں پیش کریں ایک نہ مانے اور جانبازی پر مستعد ہوجائے۔ (مقاصد الاسلام: ۱۰۔۱۴)
(۱۴)فرمایا
اولاد پر ان (والدین) کی حق شناسی اور تعظیم فرض کی گئی ہے کیوں کہ وہ ہمارے وجود کے باعث ہوئے۔ (مقاصد الاسلام: ۱۰۔۲۳)
(۱۵)فرمایا
صحابہ رضی اللہ عنہم نے گو اپنا فرض ادا کیا جس کے وہ مامور تھے (جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا) مگر ہم پر ان کی حق شناسی اور تعظیم لازم ہے کیوں کہ وہ ہمارے حق میں وجودِ دین کے ذریعہ ہوئے اگر وہ جانفشانیاں نہ کرتے تو دین ہم تک نہ پہنچتا۔ (مقاصدالاسلام: ۱۰۔۲۳)
(۱۶)فرمایا
حکومت کا نشہ اکثر آدمی کو بدمست بنادیتا ہے۔ (مقاصد الاسلام: ۱۰۔۳۵)
(۱۷)فرمایا
کسی خاص مضمون پر آدمی پوری توجہ اور غور کرے تو اس کو اصطلاح صوفیہ میں ’’مراقبہ‘‘ کہتے ہیں بشرطیکہ اس کو دین سے لگائو ہو۔ (مقاصد الاسلام: ۱۰۔۴۹)
(۱۸)فرمایا
مسلمان ہاتھوں سے مثلاً کام لیں تو وہی جن کی اجازت ہے، پائوں سے کام لے کر کہیں جائیں تو وہیں جہاں جانے کی اجازت ہے، آنکھوں سے کام لینا چاہیں تو وہی چیزیں دیکھیں جن کے دیکھنے کی اجازت ہے، کانوں سے سننا چاہیں تو وہی باتیں سنیں جن کے سننے کی اجازت ہے، خیال سے کام لینا چاہیں تو وہیں خیال کریں جو منع نہیں، جان دینا چاہیں تو اسی موقع میں جہاں جان دینے کی اجازت ہے۔ (مقاصدا لاسلام: ۱۰۔۵۳)
(۱۹)فرمایا
مسلمانوں کو مشائخ کے ہاتھوں پر بیعت کرتے وقت یہ خیال کرنا ضروری ہے کہ ہم نے اپنی جان و مال کو خدائے تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دیا اور پیر صاحب بھی یہی تعلیم و تلقین کریں کہ اب تمہیں ضرور ہے کہ ہر کام میں اپنی خواہشوں کو چھوڑ کر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق کام کیا کرو۔ (مقاصد الاسلام: ۱۰۔۵۶)
(۲۰)فرمایا
عاشقانِ جمال نبوی ﷺ ہمیشہ اس آرزو میں رہتے ہیں کہ دولتِ دیدار سے مشرف ہوا کریں اور فی الواقع اس کے آثار و برکات بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ (مقاصدالاسلام: ۱۰۔۹۰)
(۲۱)فرمایا
یہ ان حضرات (صحابہ) کی خوش اعتقادی کا اثر تھا کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کامیابیوں میں وسیلہ بناتے اور مواقع مہلکہ (ہلاکت) میں باعث نجات سمجھتے تھے اب ایسے مستند وسیلہ کو کوئی کھو بیٹھے تو وہ قسمت کی بات ہے۔ (مقاصد الاسلام: ۱۰۔۹۲)
(۲۲)فرمایا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ مشاہدئہ جمال الٰہی میں مستغرق رہتے ہیں، اس موقع پر کس کی مجال تھی کہ اپنی طرف توجہ دلا سکے، مگرکمال بندہ نوازی سے یہ اجازت ہوگئی کہ جب چاہو ہمیں پکارلو ہم متوجہ ہوجائیں گے، خصوصاً اس وقت کہ بارگاہ الوہیت میں تمہیں حضوری نصیب ہو متوجہ کرکے ضرورسلام عرض کیا کرو یہ ہے ’’سرّ اَلتحیّات ‘‘ میں سلام عرض کرنے کا۔ (مقاصد الاسلام: ۱۰۔۹۸)
(۲۳)فرمایا
(ایاک نستعین) کے لحاظ سے انبیاء اور اولیاء کی مدد جائز نہ ہوتو ماوشما کی مدد بھی جائز نہ ہوگی، اگر ماوشما کی مدد جائز ہے تو انبیاء اور اولیاء کی مدد بطریقِاولیٰ جائز ہوگی۔ (مقاصدالاسلام: ۱۰۔۱۰۶)
(۲۴)فرمایا
جو لوگ آنحضرتﷺ کے دین کے خدمت گذار ہیں ان پر آپ کی خاص قسم کی توجہ مبذول رہتی ہے اور بفضلہ تعالیٰ ان کی مشکل کشائیاں آپ برابر فرماتے رہتے ہیں۔
(مقاصد الاسلام: ۱۰۔۱۰۸)
(۲۵)فرمایا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو اِس عالم اور اُس عالم کے واقعات اور حالات برابر پیش نظر ہیں اور قرب و بعد یکساں ہے۔ (مقاصد الاسلام: ۱۰۔۱۰۹)
(۲۶)فرمایا
ہر دعا کے اول و آخر درود شریف پڑھا جائے، اس میں یہ لم (راز) ہے کہ درود شریف ایک خاص قسم کی دعا ہے جو حبیب خداﷺ کے حق میں کی جاتی ہے اس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ ہم بھی حضرت ﷺ کے دعا گو یوں ہی ہیں ورنہ خدائے تعالیٰ نے آپ کو وہ مدارج و مراتب عطا فرمائے ہیں کہ کسی کا وہم و خیال بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ (مقاصد الاسلام: ۱۰۔۱۲۹)
(۲۷)فرمایا
جو کام خلوص سے کیا جائے اس میں ایمانی فائدہ ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۱۰۔۱۲۹)
(۲۸)فرمایا
اہل اسلام میں وہی لوگ بڑے درجے کے سمجھے جاتے ہیں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کمال درجہ کی محبت ہوتی ہے۔ (مقاصد الاسلام: ۱۰۔۱۳۴)
(۲۹)فرمایا
مشائخین عظام اس قسم کے آداب میں غلو اور التزام کرتے ہیں وہ شارع علیہ الصلوۃ والسلام کے مرضی کے خلاف نہیں بلکہ باعث ترقی مدارج ہیں۔ (مقاصدالاسلام: ۱۰۔۱۴۷)
(۳۰)فرمایا
’’اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ‘‘(تم اپنی دنیا کے امور میں ماہر ہو)کے الفاظ سے عتاب نبوی آشکار ہے جس کو لفظ (دُنْیَاکُمْ) سے ظاہر فرمادیا ہے کہ تم دنیا دار ہو، اور اپنی دنیا کو ہم سے زیادہ جانتے ہو، ہمیں نہ تمہاری دنیا سے تعلق ہے نہ دنیا داروں سے مطلب۔ (مقاصد الاسلام: ۱۰۔۱۵۳)
(۳۱)فرمایا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورتِ مبارک جو خیال میں آئے گی اس کی حضرت ﷺ کی صورت کے ساتھ خاص قسم نسبت ہوگی اس کو بدترین حیوانات سے بدتر کہا گیا، کیا کسی ایماندار سے یہ ہوسکتا ہے؟ گو ایسے خیال والے لو گ اپنے ذہن میں اس کی کچھ توجیہات ضرور کرتے ہوں گے مگر وہ سب خارج از بحث ہوں گی۔ (مقاصد الاسلام: ۱۰۔۱۶۴)
(۳۲)فرمایا
تصوف اس علم کا نام ہے جس میں صرف وہ امور مذکور ہوتے ہیں جو تقرب الی اللہ کے باعث ہوں اور لوازم تصوف ایسے سخت ہوئے واقع ہیں کہ اہل فلسفہ ان کو سن لیں تو گھبرا جائیں۔ (مقاصد الاسلام: ۵۔۲)
(۳۳)فرمایا
ہمیشہ یادِ الٰہی میں رہنا صوفیہ کا فرضِ منصبی ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۵۔۵)
(۳۴)فرمایا
اگر یقین ہی نہ ہوتو ایمان صادق نہیں آسکتا ہے؟ اس لئے کہ ایمان یقین ہی کا نام ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۵۔۳۱)
(۳۵)فرمایا
تقدیر الٰہی میں یہ بات ٹھہر ( طئے ہو) چکی تھی کہ خلافت، نبوت کے تیس سال رہے گی اس کے بعد سلطنت قائم ہوجائے گی۔ (مقاصد الاسلام: ۵۔۵۵)
(۳۶)فرمایا
’’مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَولَاہُ‘‘ (میں جس کا آقا ہوں، علی اُس کے آقا ہیں) کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کے ممد و معاون ہیں اسی طرح علی کرم اللہ وجہہ بھی ہیں۔ (مقاصدالاسلام: ۵۔۹۱)
(۳۷)فرمایا
تقریباً کل سلاسل اولیاء اللہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے واسطہ سے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتے ہیں اس لئے ضرور تھا کہ تعلیم روحانی خاص طور پر آپ کو ہوتی۔ (مقاصدالاسلام: ۵۔۱۰۹)
(۳۸)فرمایا
اولاد کے نام جن بزرگوں کے رکھے جاتے ہیں ان کو کیسی وقعت اور محبت اس میں ملحوظ ہوا کرتی ہے کبھی سنا نہیں گیا کہ کسی نے اپنے لڑکے کا نام ’’فرعون‘‘ یا ’’ابو جہل‘‘ رکھا ہو۔ ( مقاصدالاسلام: ۵۔۱۸۵)
(۳۹)فرمایا
خدا ایسے لوگوں سے محفوظ رکھے کہ اچھوں کے لباس میں آکر مکر پھیلاتے ہیں اور مسلمانوں کے دین و دنیا کو غارت کرتے ہیں۔ (مقاصدالاسلام: ۵۔۲۳۷)
(۴۰)فرمایا
حدیث کو بلاوجہ رد کردینا یا اس سے انکار کرنا سوا اس کے نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمن بنالینا ہے، عیاذ بااللہ۔ (الکلام المرفوع: ۲۷)
(۴۱)فرمایا
عموماً کسی بزرگ کی ولایت مسلم ہوجائے تو اس بنا پر ان کی نقل کی ہوئی حدیثوں کو مان لینے میں محل تردد(شک و شبہ) نہ ہوگا۔ (الکلام المرفوع: ۳۰)
(۴۲)فرمایا
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہر ایک حدیث اور ترجمۃ الباب کے لکھنے کے قبل غسل کرکے مقام مقدس میں دو رکعت نماز پڑھنے کا جو التزام کیا تھا وہ نہایت خوش اعتقادی پر مبنی ہے۔ (الکلام المرفوع: ۵۳)
(۴۳)فرمایا
جو لوگ ائمہ فن کی تقلید نہیں کرتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لفظ لفظ پر ان سے غلطی ہونا ممکن ہے، سلامتی اسی میں ہے کہ ہر فن کے اکابر اور علماء کی تقلید کی جائے۔ (الکلام المرفوع: ۶۹)
(۴۴)فرمایا
کل اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے کہ مرتکبِ کبیرہ قطعی دوزخی نہیں، حق تعالیٰ اگر چاہے معاف کردے، اگر دوزخ میں داخل بھی ہوگیا تو بعد شفاعت دوزخ سے نکلے گا۔ (الکلام المرفوع: ۷۹۔۸۰)
(۴۵)فرمایا
بڑی افسوس اور سمجھنے کی بات ہے کہ اس زمانہ میں بعض مقلدین ائمہ حدیث اور غیر مقلدین فقہائے سلف کی نسبت جو بے باکانہ بے ادبانہ گستاخیاں کرتے ہیں مسلمانوں کی منصفانہ شان سے بعید ہے۔ (الکلام المرفوع: ۸۵)
(۴۶)فرمایا
کسی حدیث کا مخالف عقل و نقل ہونا موضوعیت کے لئے قطعی قرینہ نہیں ہوسکتا۔
(الکلام المرفوع: ۹۴)
(۴۷)فرمایا
محدثینِ اہل سنت نے جتنی حدیثیں فضائل اعمال کی بلا تصریح کرنے موضوعیت کے اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں اور ان احادیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے اپنی جانب منسوب کرکے ان کو قبول کرنے کے لئے ارشاد فرمایا جن پر عمل کرنے سے ضرور توقع ثواب جو ان میں مذکور ہے۔ (الکلام المرفوع: ۱۰۹)
(۴۸)فرمایا
اگر مثلیت (کسی کی طرح ہونا، جیسا ہونا) کا دعویٰ کسی کو ہوتا تو ملائکہ اس کے مستحق تھے مگر جب انھوں نے آدم علیہ السلام کے روبرو سر جھکا دیا تو اب کون مثلیت کا دعویٰ کرسکے۔ (مقاصد الاسلام: ۳۔۱۶)
(۴۹)فرمایا
جو لوگ صرف اپنے ذاتی کاموں میں لگے رہتے ہیں اور خدائے تعالیٰ کی نہ معرفت سے انھیں کام ہے نہ طاعت سے غرض۔ ایسے لوگ دنیوی امور میں کیسے ہی ہوشیار کیوں نہ ہوں ان انسانوں کے زمرے میں شریک ہو نہیں سکتے جن کو تمام مخلوقات پر شرف حاصل ہے۔ (مقاصد الاسلام: ۳۔۲۱)
(۵۰)فرمایا
اہل ایمان کو اس زمانے میں شکر کرنا چاہئے کہ حق تعالیٰ ہمارے ضعف ایمان پر رحم فرما کر اپنی قدرتِ کاملہ کی ایسی نشانیاں ظاہر فرما رہا ہے کہ ان میں غور کرنے سے ایمان قوی ہوجائے اور وسوسہ اندازوں کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں۔ (مقاصدالاسلام: ۳۔۳۳)
(۵۱)فرمایا
فصوص الحکم، فتوحات مکیہ وغیرہ جن کو دیکھنے سے واضح ہے کہ ہر عامی تو کیا اکثر علماء جو اس کو سمجھ نہیں سکتے اسی وجہ سے بعضے علماء نے شیح محی الدین عربی وغیرہ کی تکفیر کی ہے۔
(مقاصد الاسلام: ۳۔۹۲)
(۵۲)فرمایا
ہم نے اپنا فرض منصبی ادا کردیا اس پر بھی اہل اسلام الکلامؔ (شبلی نعمانی کی کتاب) کو اسلامی کتاب سمجھیں تو مختار ہیں۔ وما علینا الا البلاغ (مقاصد الاسلام: ۳۔۱۰۴)
(۵۳)فرمایا
صدہا بلکہ ہزارہا میں معدودے چند باکمال ہوتے ہیں جو اپنے وقت عزیز کو مفید کاموں میں صَرف کرکے کمال حاصل کرتے ہیں۔ (مقاصدالاسلام: ۳۔۱۱۶)
(۵۴)فرمایا
مسلمانوں کو چاہئے کہ دنیوی امور میں ضرورت سے زیادہ توجہ نہ کریں اور جس قدر توجہ کریں اس میں مقصود خدا و رسول کی اطاعت اور آخرت رہے تا کہ ’’نُوَلِّہٰ مَا تَوَلّٰی‘‘ (ترجمہ: ہم اسے پھیردیں گے جدھر وہ خود پھرا ہے) کی وعید کے مستحق نہ ہوں۔
(مقاصد الاسلام: ۲۔۱۲۱)
(۵۵)فرمایا
تصوف کچھ اور ہی چیز ہے جس کو قرآن و حدیث اور شریعت کا لب لباب کہنا چاہئے اس کو نہ فلسفہ قدیمہ سے کوئی تعلق ہے نہ فلسفہ جدیدہ سے کوئی مناسبت۔(مقاصدالاسلام: ۳۔۱۲۶)
(۵۶)فرمایا
جب تک آدمی مجتہد نہ ہو تمامی ضروری امور کی پابند کرکے حدیث سے کوئی مسئلہ ثابت نہیں کرسکتا۔ (حقیقۃ الفقہ دوم: ۱۰)
(۵۷)فرمایا
فقہی مسائل کے دلائل طلب کرنے والوں سے ہم یہی کہیں گے کہ دلائل قائم کرنا امام مجتہد کا کام ہے سو ہمارے امام نے بفضلہٖ تعالیٰ اکابر محدثین کے مجمعے میں دلائل قائم کرکے ان کو منوادیا اور احکام خدا و رسول پہونچا کر راہی ملکِ بقا (اس دنیا سے چل بسے) اب ہمارا کام یہی ہے کہ جو احکام (مسلسل سے) ہم تک پہونچے ہیں یعنی ہزارہا کتب فقہ گواہی دے رہے ہیں کہ وہ امام صاحب کے اقوال ہیں ان کو تقلیداً مان لیں ہم امتی مقلدوں کو نہ معجزے دکھلانے کی ضرورت ہے نہ دلائل قائم کرنے کی احتیاج۔ (حقیقۃ الفقہ دوم: ۲۱)
(۵۸)فرمایا
تقلید کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص کو معتبر سمجھ کر اس کے قول و فعل کی پیروی بغیر طلب دلیل کی جائے، تقلید انسان کی فطرتی صفت ہے اور تمام کمالات کی تحصیل کا مبداء بھی یہی صفت ہے جس انسان میں یہ صفت کمی کے ساتھ ہوگی اس کے کمالات میں نقص ضرور ہوگا۔
(حقیقۃ الفقہ دوم: ۵۱)
(۵۹)فرمایا
٭اسلام میں پہلا فرقہ جو مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہوا وہ فرقہ خوارج (حضرت علیؓ کے مخالفین)ہے۔ (حقیقۃ الفقہ دوم: ۷۶)
(۶۰)فرمایا
شیطان باوجودیکہ خدائے تعالیٰ کی توحید کا قائل اور عارف تھا مگر صرف ایک کبیرہ جو اس سے صادر ہوا کہ آدم علیہ السلام کو اس نے سجدہ نہ کیا اس لئے کافر اور ابدالآباد (ہمیشہ) کے لئے دوزخی ٹھہرا۔ (حقیقۃ الفقہ دوم: ۷۶)
(۶۱)فرمایا
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ طریقہ اختیار نہ کریں جس نے مسلمانوں میں تفرقہ (پھوٹ) ڈالا اور تفرقہ اندازوں کو دوزخی بنایا بلکہ وہ طریقہ اختیار کریں جو صحابہ سے آج تک اہل سنت و جماعت میں جاری ہے۔ (حقیقۃ الفقہ دوم: ۷۷)
(۶۲)فرمایا
اولیاء اللہ کا کسی مذہب کی تقلید کرنا ایسا نہ تھا جیسے ہم تقلید کرتے ہیں بلکہ ان کو مشاہدہ (نورِ الٰہی کے دیکھنے) سے یہ بات ثابت ہوجاتی تھی کہ مجتہدین رضی اللہ عنہم مقربین بارگاہِ الٰہی ہیں اور انبیاء کے مرتبہ کے بعد اُن کا مرتبہ ہے اور ان کو ہمیشہ امدادِ الٰہی ہوتی رہتی ہے اور کل مذاہب اربعہ حق(سچے) ہیں۔ (حقیقۃ الفقہ دوم: ۱۱۰)
(۶۳)فرمایا
دیکھنے کو تو علم کی تحصیل ہے مگر عمل کی حالت ناگفتہ بہ(ناقابل بیان) اور چھوٹے چھوٹے مسائل میں ایسا اختلاف پیدا ہوتا ہے کہ مخالفت اور دشمنی کی نوبت پہنچ جاتی ہے۔
(حقیقۃ الفقہ دوم: ۱۳۳)
(۶۴)فرمایا
ہم شربی اتفاق پیدا کرنے کا ایک قوی ذریعہ ہے۔ (حقیقۃ الفقہ دوم: ۱۳۴)
(۶۵)فرمایا
بخاری شریف جس سختی اور آفت کے وقت پڑھی جائے وہ دفع ہوجاتی ہے۔
(حقیقۃ الفقہ دوم: ۱۵۷)
(۶۶)فرمایا
کسی زمانہ میں کسی فرقہ کے لوگوں کی تعداد اہل سنت کی تعداد کو نہیں پہنچی۔
(حقیقۃ الفقہ دوم: ۲۴۴)
(۶۷)فرمایا
علماء ہی کے انفاس کی برکت ہے کہ ہروقت جو شبہات اور وساوس شیاطین الجن والانس مسلمانوں کے دل میں ڈالتے رہتے ہیں وہ دفع ہوجاتے ہیں۔ (مقاصد الاسلام: ۴۔۴)
(۶۸)فرمایا
مجاہدوں نے جو ملک اپنی جانبازی سے فتح کیا تھا علماء کی جانفشانیوں سے اس میں اسلام باقی رہتا ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۴۔۵)
(۶۹)فرمایا
نامی گرامی علماء جو انتقال کرجاتے ہیں ان کی جگہ نہ کوئی ان کا قائم مقام ہوتا ہے اور نہ اس کی فکر قوم کی طرف سے کی جاتی ہے اگر یہی حالت اور چند روز رہے تو آئندہ آنے والی نسلوں کو ہمارا دین و مذہب پہنچنے کی کیا صورت ہوگی۔ (مقاصد الاسلام: ۴۔۷)
(۷۰)فرمایا
٭ہماری قوم میں بفضلہ تعالیٰ اتنا سرمایہ موجود ہے کہ آئندہ آنے والی نسلوں تک علم کو محفوظ رکھ کر پہنچاسکتے ہیں۔ (مقاصد الاسلام: ۴۔۷)
(۷۱)فرمایا
بزرگانِ دین کا ارشاد ہے کہ انسان وہ ہے جو خیر الخیرین میں تمیز کرے یعنی جب دو قسم کے نیک کام پیش ہوں تو ان میں سے اس کام کو پہچان کر اختیار کرے جو دونوں میں بہتر ہو۔ (مقاصدالاسلام: ۴۔۹)
(۷۲)فرمایا
اس وقت دینی کاموں میں اس سے بہتر اور ضروری کوئی کام نہیں کہ طلبہ کی حوصلہ افزائی ہو۔ (مقاصد الاسلام: ۴۔۱۸)
(۷۳)فرمایا
حق تعالیٰ اہل اسلام کو توفیق دے کہ تحصیلِ علوم میں سعی (محنت ، کوشش) کرکے مدارج دین حاصل کریں اور جو خود حاصل نہ کرسکیں تو اتنا کریں کہ ان مدارس میں جہاں تدریس اپنے دینی علوم کی ہوتی ہے تائید دیں۔ (مقاصد الاسلام: ۴۔۳۴)
(۷۴)فرمایا
سفر حج میں اکثر مصائب کا سامنا ہوتا ہے مگر اس پر جو لوگ صبرکرتے ہیں اس خیال سے کہ خدا کی راہ میں جارہے ہیں تو کیسے کیسے انعامات کے مستحق ہوتے ہیں۔ (مقاصدالاسلام: ۴۔۳۸)
(۷۵)فرمایا
٭مجھے بھی بفضلہ تعالیٰ اس سفر مقدس (حج بیت اللہ) کا چار بار اتفاق ہوا۔
(مقاصد الاسلام : ۴۔۴۱)
(۷۶)فرمایا
اگر حدیث کے مقابلہ میں اہل فقہ گمراہ ہیں تو قرآن کے مقابلے میں اہل حدیث بھی ہدایت پر نہیں ہوسکتے۔ (مقاصدالاسلام: ۴۔۸۰)
(۷۷)فرمایا
جب خدا تعالیٰ نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کی کہ عین نماز میں ’’اَیُّھَا النَّبِیُّ‘‘ کہہ کر اپنے دل میں مجھے پکارو اور خطاب کرکے ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ‘‘ کہو تو ہمیں کس کا خوف ہے۔
(مقاصدالاسلام: ۴۔۸۲)
(۷۸)فرمایا
کیا بتوں کو اجازت ہوگی کہ اپنے پرستش کرنے والوں کی شفاعت کریں، ہرگز نہیں بلکہ اجازت انھیں مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کو ہوگی جن کی تعظیم و توقیر تمام خلق میں کرانی منظور ہے۔
(مقاصد الاسلام : ۴۔۵۸)
(۷۹)فرمایا
اولیاء اللہ کی قبروں پر میلے لگے رہتے ہیں اگر لوگوں کی مرادیں ان کے طفیل میں حاصل نہ ہوتیں تو کس کو غرض کہ مشقتیں اٹھا کر ان کی زیارتوں کو جائے اور ہزاروں روپیہ ایصال ثواب کے لئے خرچ کرے، یہ فقط ان کی مقبولیت کا اثر ہے ورنہ صدہا سلاطین مرگئے اور اپنا نام باقی رکھنے کے لئے لاکھوں روپیوں کی گنبدوں میں مدفون ہوئے مگر ان کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ (مقاصدالاسلام: ۴۔۸۷)
(۸۰)فرمایا
حق تعالیٰ نے ہمیں درود و سلام بھیجنے کا حکم فرمایا تو ہم اس امر الٰہی کے امتثال میں جب تک مشغول رہیں گے عبادتِ الٰہی میں رہیں گے خواہ نماز میں ہوں یا خارجِ نماز، معلوم نہیں کہ نماز میں عبادت کرنا کیوں برا سمجھا جا رہا ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۴۔۸۸)
(۸۱)فرمایا
ہمارے نوخیز علماء کی فکر ہے کہ یہ حضرات ملّا نہ علماء کے الفاظ سے بہت ہی گھبراتے ہیں چنانچہ اس ہیبت کے مارے کہ کہیں دیندار عالم ہونے پر گواہی نہ قائم ہوجائے جس سے ملا نہ کہنے کا کسی کا موقع مل جائے، اکثر داڑھی کو رخصت ہی کردیتے ہیں، جلسہ دستاربندی میں چند ساعتوں کے لئے عالمانہ لباس جو زیب بدن کیا تھا طاقِ نسیاں میں رکھ کر (بھلا کر)اس اندیشہ میں رہتے ہیں کہ کہیں کوئی یاد کرکے ملا نہ پن کا دھبہ نہ لگادے۔ (مقاصدالاسلام: ۴۔۹۲)
(۸۲)فرمایا
اسلامی فتوحات فقط شجاعت یا تدبیروں سے نہیں ہوئیں بلکہ یہ برکت اور تائید اسی ذکر الٰہی کی تھی جو صحابہ رضی اللہ عنہم ہر موقعے کی مناسبت سے ہمیشہ کیا کرتے تھے۔
(مقاصدالاسلام: ۲۔۲۷)
(۸۳)فرمایا
وہاں ہر حال میں ذکر الٰہی تھا تو یہاں ہر وقت دنیا کا ذکر و خیال ہے، وہاں دین کی اشاعت تھی تو یہاں اس کی بیخ کنی اور اماتت(جان سے مار دینا)، اس کی سزا یہ ہورہی ہے کہ وہاں روز افزوں (ہر روز)ترقی تھی تو یہاں روز افزوں (ہر روز) تنزل ہو رہا ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۲۔۳۳)
(۸۴)فرمایا
عقل صرف محسوسات اور وجدانیات تک محدود ہے اس کے آگے وہ چل نہیں سکتی۔
(مقاصدالاسلام: ۲۔۳۸)
(۸۵)فرمایا
مادر زاد نابینا کی عقل، حسن و جمال، خط و خال، غنج و دلال، نور و ظلال، بدر و ہلال، الوان و تمثال اور نجوم وغیرہ کے احوال کا ادراک ہرگز نہیں کرسکتی۔ (مقاصدالاسلام: ۲۔۳۹)
(۸۶)فرمایا
لفظ آیت جس طرح قرآن شریف کی آیتوں کو کہا جاتا ہے معجزات کو بھی کہا جاتا ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۲۔۵۲)
(۸۷)فرمایا
ہمارے معاصرین نے جو پختہ عزم کر رکھا ہے کہ اس قسم کی باتیں کبھی نہ مانیں گے سو یہ کوئی نئی بات نہیں اس طبیعت والے ہر زمانہ میں ہوا کرتے ہیں چنانچہ اس زمانے میں ایسے بھی لوگ تھے کہ ہزارہا معجزے دیکھنے پر بھی ایمان نہ لائے ایسی طبیعت والوں کو سمجھانے کی ہمیں ضرورت بھی نہیں۔ (مقاصد الاسلام: ۲۔۶۵)
(۸۸)فرمایا
دیکھئے لندن، امریکہ وغیرہ کو ہم لوگوں نے کبھی نہیں دیکھا مگر سننے سے ان کے وجود کا ایسا یقین ہے جیسے حیدرآباد کے وجود کا۔ (مقاصد الاسلام: ۲۔۶۷)
(۸۹)فرمایا
کیا سوائے اہل سنت والجماعت کے کوئی مذہب وملت والا یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ ایسے اشخاص کے ذریعہ ہمارا مذہب و دین ہم تک پہنچا ہے کہ جن کے حالات میں صدہا کتابیں لکھی گئیں اور ان کی حفاظت میں وہ اہتمام کیا گیا جو دینی کتابوں کی حفاظت میں ہوتا ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۲۔۶۹)
(۹۰)فرمایا
یہ تو تعجب ہے کہ فلسفی مسلمان قیامت کو تسلیم کریں جو زیادہ عجب ہے اور معجزے کے منکر ہوں۔ (مقاصدالاسلام: ۲۔۷۳)
(۹۱)فرمایا
سائنسدانوں نے چوںکہ انوکھے موجودات کو ابھی ابھی دیکھا ہے اس لئے نہ وہ ان کے نام جانتے ہیں نہ حقیقت اور حق تعالیٰ نے پہلے ہی سے ان کے نام اور حقیقت بتلادی ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۲۔۹۶)
(۹۲)فرمایا
خوارق عادت سے عقلی دنیا میں عجیب سناٹا ہے جدھر دیکھئے جوق در جوق دانتوں میں انگلی دبائے نقش بدیوار (بدحواس یا مبہوت) نظر آتے ہیں۔ (مقاصدالاسلام: ۲۔۹۹)
(۹۳)فرمایا
امکان کذب کا مسئلہ فی زماننا ایک مہتمم بالشان قضیہ ہو رہا ہے، خدا کا فضل ہے کہ دیگر علمائے اہل سنت اس کے قائل نہیں ہوئے۔ (مقاصد الاسلام: ۲۔۱۰۳)
(۹۴)فرمایا
قرآن مجید کا ہر فقرہ باعتبار فصاحت و بلاغت کلامِ الٰہی ہونے کی نشانی ہے جس کی وجہ سے لفظ ’’آیت‘‘ ہر فقرے کا لقب ہی ٹھہر گیا۔ (مقاصدالاسلام: ۲۔۱۲۰)
(۹۵)فرمایا
سبحان اللہ معجزات و کرامات کے مسئلہ میں تو اس قدر احتیاط کہ اگر وہ مانے جائیں تو شرک فی الصفات ہوگا اور ثابت کیا جارہا ہے کہ علل اسباب پر عالم کا کام چل رہا ہے۔
(مقاصد الاسلام: ۲۔۱۴۵)
(۹۶)فرمایا
سائنس دانوں کی دوڑ دھوپ صرف مادیات ہی تک محدود تھی، سید (احمد) صاحب نے بھی اسی بناء پر مسلمانوں کو اولڈ فیشن قرار دے کر ملائکہ اور جنات وغیرہ اشیائے غیر محسوسہ کا انکار ہی کردیا۔ (مقاصد الاسلام: ۲۔۱۵۸)
(۹۷)فرمایا
غیرت کا مقام ہے کہ اسلام سے بیگانے تو معجزات کو سن کر ایمان لائیں اور اس زمانے کے موروثی مسلمان معجزات کا انکار کرکے مسلمانوں سے علیحدہ ہوجائیں۔ (مقاصد الاسلام: ۲۔۱۶۹)
(۹۸)فرمایا
شیر کے مزاج کا اعتدال خرگوش کے مزاج کا اعتدال نہیں ہوسکتا، اگر شیر کی حرارت خرگوش میں آجائے تو عجب نہیں کہ ہلاک ہوجائے۔ (مقاصد ا لاسلام: ۷۔۱۱)
(۹۹)فرمایا
قدرت اسے کہتے ہیں کہ کسی کے مقتضائے طبع اور لوازم ذاتی کو چلنے نہ دے جس کو دیکھئے اس کے آگے سر بسجود ہے ہر ایک کی صورت نوعیہ زبان حال سے کہہ رہی ہے کہ سوائے امتثال امر (حکم ماننے) کے مجھ سے کچھ نہ بن پڑتا۔ (مقاصدالاسلام: ۷۔۱۳)
(۱۰۰)فرمایا
ہر چیز کا کمال وہی ہے کہ اپنے اقتضاء فطرت کو عمدگی سے انجام دے۔ (مقاصدالاسلام: ۷۔۴۹)
(۱۰۱)فرمایا
جہل (جہالت) بری بلا ہے اسی سے اقسام کے فساد برپا ہوتے۔ (مقاصدالاسلام: ۷۔۸۳)
(۱۰۲)فرمایا
یہ خفیہ پولیس (اعضائے جسمانی) ہمارے ساتھ لگادی گئی ہے جو دیکھنے کو تو تابع ہے مگر اس کو مقرر کرنے والے نے مخبری کے لئے مقرر کیا ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۷۔۸۵۔۸۶)
(۱۰۳)فرمایا
زاہد اسے کہتے ہیں جو متاع دنیا اور اس کی لذتوں سے منہ پھیرتا ہے، عابد اسے کہتے ہیں جو نماز روزہ وغیرہ عبادات پر مواظبت (پابندی) کرتا ہے، عارف اسے کہتے ہیں جو اپنی فکر سے عالم قدس جبروت کی طرف منہ کرے اور ہمیشہ اپنے سرِّ باطن میں نورِ حق سے روشنی لیتا رہے۔ (مقاصدالاسلام: ۷۔۱۳۴)
(۱۰۴)فرمایا
بارگاہ الٰہی ایسی نہیں کہ ہر شخص کا وہاں گزر ہو یا ہر شخص اس پر مطلع ہو سکے، اسی وجہ سے اس فن کے مسائل پر نادان اور غبی لوگ تمسخر (مذاق اڑاتے) کرتے ہیں اور محصلین اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ (مقاصد الاسلام: ۷۔۱۵۰)
(۱۰۵)فرمایا
اب ضرورت اس کی ہے کہ حیرت انگیز معجزات و کرامات عام جلسوں اور مجمعوں میں بیان کیا کریں جس سے دو فائدے متصور ہیں ایک اہل اسلام کے عقائد میں اپنے دین کی حقانیت راسخ اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ محبت زیادہ ہوگی جو باعث نجات و فلاح دارین ہے، نیز اکابر اسلام اور اولیاء کرام کے ساتھ محبت پیدا ہوگی جس کے فیوض و برکات بے انتہا ہیں۔ (مقاصد الاسلام: ۷۔۱۷۶)
(۱۰۶)فرمایا
واعظوں کا فرض ہے کہ پہلے ایمان کو قوی کرنے کی فکر کریں اور اس کی تدبیر یہی ہے کہ بزرگان دین کے حالات بیان کئے جائیں تاکہ ان کے کمالات کے مقابلے میں اپنے نقص پر نظر پڑے اور دلوں میں ولولے پیدا ہوں۔ (مقاصدالاسلام: ۷۔۱۸۱)
(۱۰۷)فرمایا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور ان کے جوابات میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص شان کرتے ہوں اشعار لکھنا جہاد لسانی ہے جو تیر کا کام کرتا ہے۔ (انوار احمدی: ۳)
(۱۰۸)فرمایا
ہر بات پر صحاح ستہ کی حدیث طلب کرنا تکلیف ما لا یطاق ہے بلکہ یہ الزام در حقیقت امام بخاریؒ وغیرہ اکابر محدثین پر عائد ہوگا کیوں کہ باوجود یکہ لاکھوں حدیثیں صحیح یاد رکھتے تھے کیوں جمع نہ کیں؟ (نواراحمدی: ۴)
(۱۰۹)فرمایا
آج کل جو غل مچ رہا ہے کہ’’ لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکْ‘‘ حدیث موضوع ہے، یہ تسلیم بھی کیا جائے تو اہل جرح کو اس سے کیا فائدہ، زمین، دریا، جنت، دوزخ، ثواب عقاب، جملہ آدمیوں کے جد بزرگوار بلکہ ساری دنیا جب بدولت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہوئی تو افلاک کیا چیز ہیں۔ (انوار احمدی: ۳۶)
(۱۱۰)فرمایا
وصف خاتم النبیین خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے جو دوسرے پر صادق نہیں آسکتا اور موضوع لہ، اس لقب کا ذات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ عند الاطلاق کوئی دوسرا اس مفہوم میں شریک نہیں ہوسکتا۔ (انوار احمدی: ۴۴)
(۱۱۱)فرمایا
اب ہم ان صاحبوں سے پوچھتے ہیں کہ اب وہ خیالات کہاں ہیں جو (کل بدعۃ ضلالۃ) میں پڑھ پڑھ کر ایک عالم کو دوزخ میں َْ َْلے جا رہے ہیں کیا اس قسم کی بحث فلسفی بھی قرآن و حدیث میں وارد ہے۔ (حمدی: ۵۲)
(۱۱۲)فرمایا
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو احسان امتیوں پر ہیں اظہر من الشمس ہیں، اگر فکر ہے تو ہماری بخشائش کا ہے، اگر دعا ہے تو ہماری بخشائش کی ہے، ہمیشہ ہماری بھلائی کی ہی فکر میں گزاری۔ (انوار احمدی: ۵۹)
(۱۱۳)فرمایا
اگر ہم لوگ درود شریف پڑھا کریں تو ہمارا ذکر خیر عالم ملکوت میں ہونے لگے، فرشتے ہمارے حق میں دعائے خیر کیا کریں، خود رب العالمین لفظ آمین ارشاد فرمائے اور موردِ عطوفت فخر المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ہوجائیں اور یہ سب حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طفیل ہے ورنہ ہم کہاں اور یہ مدارج کہاں۔ (انوار احمدی: ۷۱۔۷۲)
(۱۱۴)فرمایا
جس کے نزدیک درود شریف کی عظمت نہ ہوتو سمجھ سکتے ہیں کہ اس میں اس خطاب (یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) کی قابلیت ہی نہیں۔ (انوار احمدی: ۱۲۴)
(۱۱۵)فرمایا
صرف ایک دو بار درود شریف اسقاط فرضیت کے خیال سے پڑھ لینا اور ایسی تقریریں بنانا کہ جس سے مسلمانوں کی رغبت کم ہوجائے خلاف مسلک اہل سنت و جماعت کے ہے اور خلاف مرضی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ خلاف مرضی حق تعالیٰ کے بھی ہے۔ ’’اعاذ نا اللہ تعالیٰ من ذالک ‘‘ (انوار احمدی: ۱۴۸)
(۱۱۶)فرمایا
جب کسی وقت خاص میں سلام کرے تو چاہئے کہ کمال ادب کے ساتھ کھڑا ہو اور دست بستہ (ہاتھ باندھ کر) ہو کر ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدِنَا سَیِّدِ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ‘‘ وغیرہ صیغہ جن میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت معلوم ہو عرض کرے۔ (انوار احمدی: ۱۷۵)
(۱۱۷)فرمایا
کسی بزرگ نے ہم لوگوں کے اعتقاد کی شرح ایک چھوٹے سے جملے میں نہایت مبسوط کی ہے کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔ (انوار احمدی: ۲۰۲)
(۱۱۸)فرمایا
نعت بھی ایک مقصود اصل اور مستقل برأسہ ہے ورنہ مثل اور انبیاء علیہم السلام کے نام مبارک کے ساتھ ندا فرماتا پھر جب تمامی قرآن شریف میں یہ التزام کیا گیا تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ حق تعالیٰ کو کس قدر نعت شریف کا اہتمام منظور ہے۔ (انواراحمدی: ۲۲۱)
(۱۱۹)فرمایا
ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جس لفظ میں کنایۃً بھی توہین مراد نہ تھی بلکہ صرف دوسری زبان کے لحاظ سے استعمال اس کا ناجائز ٹھہرا تو وہ الفاظ ناشائستہ جس میں صراحۃً کسر شان ہو کیوں کر جائز ہوں گے۔ (انوار احمدی: ۲۲۳)
(۱۲۰)فرمایا
اب غور کرنا چاہئے کہ جو الفاظ خاص توہین کے محل میں مستعمل ہوتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت استعمال کرنا خواہ صراحۃً ہو یا کنایۃً یہ کس درجہ قبیح ہوگا، اگر صحابہ کے روبرو جن کے نزدیک ’’رَاعِنَا‘‘ (ہمارا چرواہا) کہنے والا مُستَوجب قتل تھا کوئی اس قسم کے الفاظ کہتا تو کیا اس کے قتل میں کچھ تامل (سوچ و بچار)ہوتا یا یہ تاویلات باردہ مفید ہوسکتیں؟ (انواراحمدی: ۲۲۳)
(۱۲۱)فرمایا
کیوں کر ہوسکے کہ چودھویں صدی ولا خوش اعتقادی میں خیر القرون والے صحابیوں سے بڑھ جائے۔ (انواراحمدی: ۲۵۷)
(۱۲۲)فرمایا
نام مبارک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جب لیا جائے خواہ درود شریف میں یا سوائے اس کے لفظ سیدنا کہنا چاہئے خصوصاً حرمین شریفین کے علماء و مشائخین کو تو اس میں نہایت اہتمام ہے۔ (انوار احمدی: ۲۶۹)
(۱۲۳)فرمایا
بطفیل حضرت ﷺ کے اس شخص کی تعظیم کی ضرورت ہے، جس کا نام محمد ہو۔ (انوار احمدی: ۲۷۷)
(۱۲۴)فرمایا
اب کیسی ہی نا شائستہ بات کیوں نہ ہو (شیطان) اس لباس میں آراستہ کرکے احمقوں (بے وقوف) کے فہم میں ڈال دیتا ہے اور کچھ ایسا بے وقوف بنادیتا ہے کہ راست گوئی کی دھن میں نہ ان کی کسی بزرگ کی حرمت و توقیر کا خیال رہتا ہے نہ اپنے انجام کا اندیشہ۔ (انوار احمدی: ۲۸۸)
(۱۲۵)فرمایا
ہمارے حضرات زیادتی کرکے ادنیٰ احتمال پر کسی کو بھی وہابی کہہ دیتے ہیں جو قطع نظر فتنہ و فساد کے شرعاً جائز بھی نہ ہوگا۔ (انوار احمدی: ۳۳۰)
(۱۲۶)فرمایا
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ نے اس طور پر تمدن کی اصلاح فرمائی کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تمام بندگان خدا ہر شہر و قریہ میں نہایت آسائش سے زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ (مقاصدالاسلام: ۱۔۱)
(۱۲۷)فرمایا
حاجتوں نے انسان کو اس قدر مجبور کردیا کہ ہر ایک شخص دوسرے سے بزبان حال کہہ رہا ہے کہ خدا کے لئے مجھے بچا لو ورنہ میں ہلاک ہوا جاتا ہوں۔ (مقاصدالاسلام: ۱۔۵)
(۱۲۸)فرمایا
آدمی کی فطرت علم دوست اور تحقیق پسند واقع ہوئی ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۱۔۱۹)
(۱۲۹)فرمایا
تمام حمد جب اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں جن کا مطلب یہ ہوا کہ سب حامد ہیں اور حق تعالیٰ محمود ہے تو اللہ تعالیٰ کے محمد یعنی حمد کردہ شدہ ہونے میں کیا تامل، باوجود اس کے یہ پیارا لقب حق تعالیٰ نے ازل (شروع) سے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص فرمایا۔ (مقاصد الاسلام: ۱۔۳۹)
(۱۳۰)فرمایا
جس طرح میلاد شریف کا غم کمال شقاوت کی دلیل ہے اس کی مسرت کمال سعادت کی دلیل ہوگی۔ (مقاصد الاسلام: ۱۔۴۱)
(۱۳۱)فرمایا
تخیل (سوچنا) اور تصور آثار کا مرتب ہونا فطرت انسانی میں داخل ہے، جیسے کسی خوشی کے واقعہ کے خیال کرنے پر آثار بشاشت (خوشی) چہرے سے نمایاں ہوتے ہیں اور غم کا واقعہ یاد کرنے سے آنسو ٹپک پڑتے ہیں۔ (مقاصد الاسلام: ۱۔۵۰)
(۱۳۲)فرمایا
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معنی تو صرف اسی قدر ہیں کہ اس عالم سے دوسرے عالم کو تشریف لے گئے ورنہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کیا شک۔(مقاصدالاسلام: ۱۔۵۸)
(۱۳۳)فرمایا
باوجود یکہ خانہ کعبہ اور منبر شریف کا غلاف ہمیشہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے پیش نظر رہا کرتا تھا مگر کسی سے یہ اعتراض مروی نہیں کہ بے ضرر کپڑا اڑایا جاتا ہے کیا ان لکڑیوں اور گھر کو سردی ہوتی ہے جیسے ہمارے زمانے کے بعض حضرات غلافوں کو دیکھ کر کہتے ہیں۔ (مقاصد الاسلام: ۱۔۶۱)
(۱۳۴)فرمایا
کاملوں کے حالات ہم ناقصوں کی سمجھ میں کیوں کر آسکیں اگر حق تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی وہ حالات عطاء فرمائے تو ممکن ہے کہ اس کی حقیقت معلوم کرسکیں۔
(مقاصدالاسلام: ۱۔۱۱۲)
(۱۳۵)فرمایا
عالمین میں کفار بھی داخل ہیں مگر ہمیں اس جگہ جھگڑے سے کیا کام کہ ان کو اس رحمت عامہ سے حصہ ملے گا یا نہ ملے گا دشمنان خدا و رسول جہنم میں جائیں ہمیں اپنی مشت خاک بخشوانے کی پڑی ہے اگر ہماری بخشش بطفیل محبت رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہوگئی تو ہم جیسا کوئی خوش نصیب نہیں۔ (مقاصد الاسلام: ۱۔۱۱۶)
(۱۳۶)فرمایا
دعا کریں کہ الٰہی ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی محبت عطا فرما کہ آپ کی اطاعت ہم پر آسان ہوجائے اور اس کے مقابلے میں ہم سے نہ اپنے نفس کی اطاعت ہو سکے نہ اور کسی محبوب کی۔ (مقاصد الاسلام: ۱۔۱۱۲)
(۱۳۷)فرمایا
اس زمانے میں مسلمانوں کو اس قدر ضرور ہے کہ نہ ایسی تفسیریں دیکھیں نہ اس قسم کی تفسیریں سنیں جس سے شک پیدا ہو۔ (مقاصد الاسلام: ۱۔۱۴۰)
(۱۳۸)فرمایا
اگر چہ نوخیز مشائخین و علماء کا دل گوارا نہیں کرتا کہ اپنا آبائی لباس اور وضع ترک کریں مگر اس ڈر کے مارے کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ پرانی فیشن والے ہیں مجبوراً لباس بدل دیتے ہیں اور صرف لباس ہی نہیں بلکہ داڑھی کو بھی خیرباد کہہ دیتے ہیں اور اگر کسی ضرورت کے لحاظ سے داڑھی رکھ بھی لی تو خاص قسم کی قطع و برید کرکے تاکہ پرانے لوگ سمجھ جائیں کہ کسی طرح منہ پر داڑھی تو ہے اور اسی پر قناعت کرلیں اور نئی روشنی کے لوگ بھی چوں و چرا نہ کرسکیں اس لئے کہ وہ فرنچ فیشن ہے جس کی تقلید بھی روشن خیال سمجھی جاتی ہے۔
(مقاصدالاسلام: ۱۔۱۴۳)
(۱۳۹)فرمایا
دراصل علم باطن وہ علم ہے جو سینہ بہ سینہ چلا آتا ہے، ہر پیر اپنے جانشین کو علاوہ اتباع ظاہر شریعت کے خاص خاص باتوں کی وصیت کرتا ہے جو علمائے ظاہر کے مسلک کے مخالف ہیں مگر اہل طریقت ان وصایا پر عمل کو نہایت ضروری سمجھتے ہیں کیوں کہ دراصل وہ قرآن و حدیث کے لب لباب ہیں۔ (مقاصدالاسلام: ۶۔۳۳)
(۱۴۰)فرمایا
اولیاء اللہ کا دستور ٹھہرا ہوا ہے کہ بغیر اہلیت کے خلافت کسی کو نہیں دیتے اگرچہ اپنا لڑکا ہی کیوں نہ ہو اس لئے کہ ہرکس و ناکس کو اسرار پر مطلع کرنا دین کو تباہ کرنا ہے۔
(مقاصدالاسلام: ۶۔۳۳)
(۱۴۱)فرمایا
بعض متصوفہ (صوفی بننے والا) کا حال دیکھا جاتا ہے کہ تصوف سے استدلال کرکے نماز و روزہ وغیرہ اوامر و نواہی (امر کی جمع اور نہی کی جمع) کو معاذ اللہ فضول بتاتے ہیں اور شریعت کی توہین کرتے ہیں جو یقینا کفر ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۶۔۴۹)
(۱۴۲)فرمایا
شیخ محی الدین ابن عربیؒ وغیرہ اکابر محققین نے تصریح کردی ہے کہ ہر کوئی ہماری کتابیں دیکھنے کی اہلیت نہیں رکھتا اس لئے ایسے لوگوں پر ان کتابوں کا دیکھنا حرام ہے۔
(مقاصدالاسلام: ۶۔۵۰)
(۱۴۳)فرمایا
تقیہ سے مراد ان علمی اسرار کو چھپانا ہے جو علماء باللہ پر منکشف (ظاہر) ہوتے ہیں۔
(مقاصد الاسلام: ۶۔۵۳)
(۱۴۴)فرمایا
مسلمان کو کافر کہنا خود کو کافر بننا ہے، بہر حال نہ ان کو منافق کہہ سکتے ہیں نہ کافر، تو یہی کہنا پڑے گا کہ وہ مسلمان ہیں۔ (مقاصد الاسلام: ۶۔۲۰)
(۱۴۵)فرمایا
عام مسلمان تو اکابرین کے عیوب تلاش کرتے ہیں بلکہ فضائل کو عیوب کی شکل میں ظاہر کرتے ہیں۔ (مقاصد الاسلام: ۶۔۶۱)
(۱۴۶)فرمایا
دوسرے ادیان (دین کی جمع) میں افراط (زیادتی کرنا) و تفریط (کمی کرنا) ہے اور ہمارا دین متوسط ہے، کیوں نہ ہو حق تعالیٰ فرماتا ہے ’’وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا‘‘ سورۃ البقرۃ:۱۴۳ (اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک ایسی امت بنایا ہے جو (ہر لحاظ سے) اعتدال پر ہے) پھر جس طرح سہارا دین متوسط ہے اسی طرح اہل سنت کا مذہب بھی متوسط اور افراط و تفریط سے دور ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۶۔۱۴۲)
(۱۴۷)فرمایا
اہل اسلام کے اکثر طبقات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات عقیدت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، مگر بعض حضرات اس میں اقسام کے توجیہات (دلیلیں) اور شکوک میں موشگافیاں کرتے ہیں جس سے بے علم او ر کم فہم لوگ بدعقیدت ہوکر جو بڑا ذخیرہ ان کے سعادت حاصل کرنے کا منجانب اللہ ان تک پہونچا ہے اس سے محروم ہوجاتے ہیں۔
(مقاصدالاسلام: ۹۔۱)
(۱۴۸)فرمایا
یہ کمال درجہ کی ہٹ دھرمی ہے کہ آدمی اپنے معلومات پر اعتماد کرکے دوسروں کے معلومات نظر انداز کردے۔ (مقاصدالاسلام: ۹۔۷)
(۱۴۹)فرمایا
مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن امور کی خبردی ہے، ان کو بالکل صحیح و قابل وُثُوق (بھروسہ) جانیں اور شیطانی وسوسے جو بے علمی کی وجہ سے دل میں حضور کرتے ہیں لاحول پڑھ کر ان کو دور کردیا کریں۔ (مقاصدالاسلام: ۹۔۸)
(۱۵۰)فرمایا
اسباب ظاہری پر جن لوگوں کو گھمنڈ ہوتا ہے ان کو اس واقعے سے سبق لینا چاہئے کہ مُسَبِّبّ الْاَسْبَابِ کے مقابلہ میں کوئی سبب کارگر نہیں ہوتا اور ایک ادنیٰ سبب ایسا ہوجاتا ہے کہ ہمارے اسباب کو نیست و نابود کرڈالتا ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۹۔۴۹)
(۱۵۱)فرمایا
سبحان اللہ، اسلام اسے کہتے ہیں ریشمی لباس کا ناجائز ہونا معلوم ہوتے ہی پھاڑ کر پھینک دیا، بخلاف ہم لوگوں کے جانتے تو ہیں سب کچھ مگر عمل ندارد(عمل نہیں کرتے)۔
(مقاصدالاسلام: ۹۔۹۹)
(۱۵۲)فرمایا
ہمارے زمانے کے بعض مسلمان بھی سائنس ہی کا کلمہ پڑھتے ہیں اور ان کی نظروں میں تبرکات تو کیا خود آنحضرت ﷺ کی بھی معاذ اللہ کچھ وقعت (عظمت) نہیں جس طرح اس زمانے کے کفار کہتے تھے کہ حضرت بھی نعوذ باللہ ہمارے جیسے ایک آدمی ہیں یہ بھی وہی کہتے ہیں۔ (مقاصدالاسلام: ۹۔۱۰۳)
(۱۵۳)فرمایا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور وقعت دل میں ہوتو آپ کے کلام کی وقعت اگر تبرکات سے زائد نہیں تو برابر تو ہونی چاہئے مگر دیکھا جاتا ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے ان کو کچھ تعلق نہیں۔ (مقاصدالاسلام: ۹۔۱۰۴)
(۱۵۴)فرمایا
صحابہ رضی اللہ عنہم حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کے قائل تھے اور بجائے ’’اَللّٰہُ اَعْلَمُ ‘‘کے ’’اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ‘‘ کہنے میں ان کو کچھ تامل ہوتا چنانچہ اکثر صحابہ کا دستور تھا کہ ایسے موقع میں ’’اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ‘ ‘‘کہا کرتے تھے۔ (مقاصدالاسلام: ۹۔۱۳۶)
(۱۵۵)فرمایا
جب تک پیر کامل پر اتنا اعتماد نہ ہو کہ جو کچھ وہ حکم کرے گا خالی از مصلحت و حکمت نہ ہوگا اس کو شیخ کامل سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ (مقاصدالاسلام: ۹۔۲۱۸)
(۱۵۶)فرمایا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باعث ایجاد عالم ہیں، تمام عالم کو آپ کا مسخر اور ممنون ہونا ضرور تھا اسی وجہ سے آپ کے تصرفات (مٹی، پانی، ہوا، آگ، آسمان، ستارے) اور ارواح میں برابر جاری تھے۔ (مقاصدالاسلام: ۹۔۲۲۶)
(۱۵۷)فرمایا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کے ساتھ کوئی ہمسری نہیں کرسکتا اور کیوں کرکر سکے، حضرت کا جسم مبارک ظاہراً جسم تھا اور در حقیقت نور تھا۔ (مقاصدالاسلام: ۹۔۲۲۶)
(۱۵۸)فرمایا
جب ہمیں معلوم ہوگیا کہ دنیا میں آنحضرت ﷺ کے ہزارہا بلکہ لکھوکھا موئے مبارک موجود ہیں تو اب یہ خیال کرنے کی ضرورت ہی کیا کہ وہ کسی اور کا بال ہے۔
(مقاصدالاسلام: ۹۔۲۷۳)
(۱۵۹)فرمایا
اگر کوئی شخص کمال حاصل کرنا چاہے تو اس کو لازمی ہوگا کہ اپنی سابقہ حالت کے لوازم و آثار کو دور کردے، مثلاً طالب علم اگر عالم بننا چاہے تو جتنے لوازم و آثار جہالت کے ہیں جیسے تضیع اوقات، سستی، کاہلی، خود پسندی وغیرہ جب تک ترک نہ کردے عالم نہیں بن سکتا جس طرح تقول کا (ت) جو الوازم مضارع سے ہے جب تک دور نہ کیا جائے وہ امر نہیں بن سکتا اسی پر ہر قسم کی ترقیات کو قیاس کر لیجئے۔ (مقاصدالاسلام: ۸۔۶)
(۱۶۰)فرمایا
کلام الٰہی کی شان یہ ہے کہ جو بات ہو اس پر بندوں کی ہدایت اور بہبود میں دارین رکھی ہو، اس سے یہ ماننا پڑے گا کہ جتنے قصے قرآن شریف میں مذکور ہیں سب سے مقصود یہی ہے کہ اس قسم کے کام اگر ہم بھی کریں تو ہمارا انجام بھی وہی ہوگا جو ان کا ہوا اس سمجھ کا نام عبرت ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۸۔۱۰)
(۱۶۱)فرمایا
ہمارے زمانے کے بعض واعظین حضرات پہلے تو شیطان کا نام ہی نہیں لیتے اگر لیتے ہیں تو ایسے مواقع کے ضمن میں شیطان کے وہاں پَر جلتے تھے بزرگان دین کی حکایات کے ضمن میں کہ شیطان کو انھوں نے ذلیل و خوار کردیا تھا اور ایسی حکایات اور واقعات بیان کئے جاتے ہیں کہ شیطان بالکل بے وقعت ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سننے والے بالکل بے خوف ہوجاتے تھے۔ (مقاصدالاسلام: ۸۔۲۰)
(۱۶۲)فرمایا
جب تک ہمارے واعظین جو پیشوایان (ائمہ)قوم ہیں جس طرح آیات و احادیث، رجاء کے بیان کرتے ہیں خوف پیدا کرنے والی آیات و احادیث نہ بیان کریں تو مسلمانوں کے تمدن کی اصلاح ہرگز نہیں ہوسکتی۔ (مقاصدالاسلام: ۸۔۲۹)
(۱۶۳)فرمایا
مرشد کامل جو جار الی اللہ ہے یعنی خدائے تعالیٰ کی طرف مرید کو کشاں کشاں لے جاتا ہے اور مرید اس طرف کھنچ جاتا ہے جس پر لفظ مجرور پورے طور پر صادق آتا ہے اور مرید کو ایسی قربت حاصل ہوتی ہے کہ درمیانی اسباب و سائط اس کی نظروں سے ساقط ہوجاتے ہیں۔
(مقاصدالاسلام: ۸۔۴۶)
(۱۶۴)فرمایا
ضروری اور پہلا کام مرشد کا یہ ہوتا ہے کہ افعال الہٰیہ و صفات الہٰیہ سے اس (مرید) کو متعلق اور مربوط کردے تاکہ جملہ افعال و حرکات و سکنات عالم کو افعال الٰہی سمجھے۔
(مقاصدالاسلام: ۸۔۴۶)
(۱۶۵)فرمایا
جس بندہ کے دل میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل محبت ہو اور ہمیشہ اس کا خیال ان سے وابسطہ رہے تو اس کے فیوض و برکات اعلیٰ درجے کے ہوں گے، اسی وجہ سے جب بندہ ترقی کرتا ہے تو حق تعالیٰ اس سے وہ کام لیتا ہے جو خاصہ جناب کبریا ہے یعنی خوارق عادات اس سے صادر ہونے لگتے ہیں۔ (مقاصدالاسلام: ۸۔۶۹)
(۱۶۶)فرمایا
یورپ میں اکثر یہود و نصاریٰ علوم عربیہ میں ماہر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے فاضل کہلاتے ہیں مگر دین اسلام کی رو سے ان کو علماء نہیں کہہ سکتے، اسی طرح اہل اسلام بھی اگر تحصیل کرلیں اور ان میں خوف خدا نہ ہوتو اس آیت شریفہ کی رو سے ان کو عالم کہنا درست نہ ہوگا، دراصل علم اس کیفیت قلبیہ کا نام ہے جو ظن (گمان) سے متجاوز (آگے بڑھنا) ہوکر حدِّ یقین میں داخل ہوتی ہو۔ (مقاصد الاسلام: ۸۔۱۰۳)
(۱۶۷)فرمایا
اذکار و اشغال نوافل میں داخل ہیں اور گناہوں سے توبہ کرنا فرض ہے کیوں کہ باربار خدائے تعالیٰ نے اس کا حکم فرمایا ہے اور ظاہر ہے فرض کو چھوڑ کر نوافل کا ادا کرنا مفید نہیں ہوسکتا کیوں کہ نوافل کو ترک کرنے سے مواخذہ (پکڑ) نہیں اور فرض کو ترک کرنے پر سوال اور مواخذہ ہوگا۔ (مقاصدالاسلام: ۸۔۱۲۶)
(۱۶۸)فرمایا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے افعال پر مطلع (با خبر) ہوتے ہیں اور بحسب اعتقاد اہل سنت ہمیں دیکھتے بھی ہیں جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صورتوں کو مخالفین اسلام کی طرح بے داڑھی دیکھتے ہوں گے تو کس قدر رنج ہوتا ہوگا کہ اپنی امت کے لوگ مخالفین میں شمار کئے جائیں اور قیامت میں حضرت کو کیا منہ بتائیں گے؟ (مقاصدالاسلام: ۸۔۱۶۱)
(۱۶۹)فرمایا
حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ کو اس وقت بھی وہی سلطنت حاصل ہے جو زندگی میں تھی۔ (مقاصدالاسلام: ۸۔۱۷۵)
(۱۷۰)فرمایا
آدمی کو چاہئے کہ صلحا (نیک لوگوں) کی صحبت اختیار کرے تا کہ ان کی صحبت کی برکت سے نفس کے خیالات درست ہوجائیں اور اچھے وسوسے ڈالنے لگے۔ (مقاصد الاسلام: ۸۔۱۹۸)
(۱۷۱)فرمایا
مذہب سے اصل غرض یہ ہے کہ آدمی اس کا پابند ہونے کی وجہ سے مرنے کے بعد ہمیشہ راحت و آسائش میں رہے اتنی بڑی دولت مفت میں حاصل نہیں ہوسکتی اس کے لئے بڑی کوشش درکار ہے جب تک آدمی وساوس شیاطین جن و انس سے احتراز (بچنا) نہ کرے یہ دولت حاصل نہیں ہوسکتی۔ (مقاصدالاسلام: ۸۔۱۹۸)
(۱۷۲)فرمایا
جس طرح خداوند تعالیٰ کا وجود کسی کا محتاج نہیں خود بخود اس کا وجود ہے اس طرح وہ اپنے افعال میں بھی کسی کا محتاج نہیں ہے، اس کو نہ مادہ کی ضرورت ہے نہ آلات و اوزار سے مدد لینے کی، اگر ایسا نہ ہوتو پھر بندہ اور خالق میں فرق ہی کیا ہوا؟ (مقاصدالاسلام: ۸۔۲۳۰)
(۱۷۳)فرمایا
یوں تو ہر مذہب والے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم صحابہ کے پیرو (اطاعت کرنا) ہیں اور احادیث ہمارے ہاں بھی موجود ہیں مگر تحقیق سے معلوم ہوسکتا ہے کہ سوائے اہل سنت و جماعت کے یہ بات کسی کو حاصل نہیں۔ (افادۃ الافہام: ۱۔۳)
(۱۷۴)فرمایا
آدمی جب کج بحثی پر آجائے تو کیسی ہی روشن بلکہ اظہر من الشمس بات کیوں نہ ہو اس پر بھی وہم اور شک کی ظلمت ڈال سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جولوگ خدائے تعالیٰ ہی کے منکر (انکار) ہیں برابر اہل حق کا مقابلہ کئے جاتے ہیں اور کوئی اثر براہین قاطعہ کا ان کے دلوں پر نہیں پڑتا۔ (افادۃ الافہام: ۱۔۱۰۷)
(۱۷۵)فرمایا
اس زمانے میں نبوت تو کیا اگر کوئی خدائی کا بھی دعویٰ کرے تو کوئی نہیں پوچھتا، مگر چوں کہ ہمارے نبی کریم ﷺ ارشادات میں وہ تصرف (اُلٹ پلٹ) کر رہے ہیں اس لئے ہم پر حق ہے کہ جہاں تک ہو سکے ان کی حفاظت کریں اور اپنے ہم مشربوں کو ان کا اصل مطلب معلوم کرادیں اس پر بھی اگر کوئی نہ مانے تو ہمارا کوئی نقصان نہیں ہم کو اپنا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ (انوارالحق۔ ۲۰)
(۱۷۶)فرمایا
علماء شکر اللہ سعیہم نے یہ کام اپنے ذمہ لیا کہ مختلف آیات و احادیث و اقوال صحابہ وغیرہم سے تحقیق کرکے ہر ایک مسئلہ مختصر الفاظ میں بیان کردیا کہ اس میں یہ کرنا چاہئے، چنانچہ ایک مدت کی کوشش میں انھوں نے ہر ایک جزئی مسئلہ کا حکم قرآن و حدیث سے نکال کر ایک علم ہی مستقل مدوّن (ترتیب دینا) کردیا جس کا نام فقہ ہے یہ ہے حقیقت فقہ۔ (حقیقۃ الفقہ : ۱۔۳)
(۱۷۷)فرمایا
یہ بات ظاہر ہے کہ غیر مذہب والوںں کی مصاحبت اور مکالمت اور ادیان باطلہ کی کتابوں کے مطالعہ سے اعتقاد پر برا اثر پڑتا ہے گو آدمی دیندار اور فاضل ہو۔ (حقیقۃ الفقہ: ۱۔۳۸)
(۱۷۸)فرمایا
اسلام میں قدیم سے جو مذہب قرناً بعد قرن چلا آرہا ہے وہ مذہب اہل سنت وجماعت ہے اور اس کے سوا جتنے مذاہب ہیں سب حادث ہیں جن کا موجد ایک ہی ایک شخص ہوا کیا۔ (حقیقۃ الفقہ: ۱۔۴۴)
(۱۷۹)فرمایا
جتنے نامی گرامی محدثین ہیں سب کو اعلیٰ درجہ کا حافظہ عنایت ہوا تھا، اسی وجہ سے ان کا لقب حافظ ہوا کرتا تھا چنانچہ امام ذہبیؒ نے خاص ان حضرات کے حالات میں ایک کتاب چار جلدوں میں لکھ کر اس کا نام ہی ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ رکھا۔ (حقیقۃ الفقہ: ۱۔۵۵)
(۱۸۰)فرمایا
ہر ذی علم (علم والا) اس بات کو جانتا ہے کہ قرآن و حدیث میں اکثر مقامات ایسے ہیں کہ ہر شخص ان کو کما حقہ، سمجھ نہیں سکتا، اسی وجہ سے فقہاء کی ضرورت ہوئی جن میں عمر بھر کی محنت اور جانفشانی کے بعد توضیح مشکلات اور توفیق اختلافات کی صلاحیت پیدا ہوئی اب اگر کوئی اجنبی بمجرد اس کے کہ کوئی حدیث سمجھ میں نہ آئے اور اختلافات میں توفیق نہ دے سکے اور اس کو موضوع قرار دیدے تو اس کا قول قابل التفات نہیں ہوسکتا۔ (حقیقۃالفقہ: ۱۔۱۱۴)
(۱۸۱)فرمایا
آج کل کی اصطلاح میں جس کا نام’’ علم‘‘ رکھا گیا ہے چند کتابیں ادبیات وغیرہ کی پڑھ لیں اور’’ مولوی عالم‘‘ اور’’ مولوی فاضل‘‘ ہوگئے خواہ مسلمان ہوں یا ہندو وغیرہ سو ایسے علم پر آثار مرتب نہیں ہوسکتے اور نہ وہ درحقیقت علم ہے اس کو’’ تخیل‘‘ یا’’ ظن‘‘ کہنا چاہئے۔ (حقیقۃ الفقہ: ۱۔۲۷۵)
(۱۸۲)فرمایا
مسلمانو مرزا صاحب نے تمہارے نبی افضل الانبیاء علیہ علیہم الصلوٰۃ والسلام کو موسٰی کا مثیل (جیسا) قرار دیا، کیا اب بھی کسی اور مثیل (جیسا) سننے کا انتظار ہے؟ کیا تمہارے اور تمہارے اسلاف (ماضی) کے کان ایسے نا ملائم الفاظ کے آشنا تھے؟ کب تک مرزا صاحب کی ایسی باتیں سنا کروگے توبہ کرو اگر نجات چاہتے ہو تو ان کی ایک نہ سنو اور اپنے اسلاف (ماضی) کی اتباع کرو۔ (افادۃ الافہام: ۲۔۴۷)
(۱۸۳)فرمایا
معراج کا مسئلہ اسلام میں ایسا عظیم الشان ہے جس سے امتیوں کو کمال درجہ کا افتخار (فخر)حاصل ہے کہ سوائے ہمارے نبیﷺ کے کسی نبی کو یہ فضیلت حاصل نہیں ہوئی۔
(افادۃ الافہام: ۲۔۱۹۴)
(۱۸۴)فرمایا
اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم جن کا جسم مبارک ہماری جان سے بھی زیادہ تر لطیف تھا (اللہ تعالیٰ) ان کو تھوڑے عرصہ میں آسمانوں کی سیر کرالائے تو کونسی بڑی بات ہوگئی کیا ان مسلمانوں کے نزدیک خدا کی اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی اتنی بھی وقعت نہ ہونی چاہئے جو اہل یورپ کی بات آج کل ہو رہی ہے۔ (افادۃ الافہام: ۲۔۱۹۷)
(۱۸۵)فرمایا
معراج جسمانی کی تصدیق کی وجہ سے حق تعالیٰ نے ابوبکرؓ کو لقب صدیق عطا فرمایا، اگر یہ واقعہ خواب ہی ہوتا تو کفار کو بھی اس میں کلام نہ ہوتا کیوں کہ خواب میں اکثر دور دور کے شہروں کی سیر کیا ہی کرتے ہیں۔ (افادۃ الافہام: ۲-۲۰۰)
(۱۸۶)فرمایا
کیسے کیسے عجائبات اور قدرت کی نشانیاں اس آخری زمانے میں ظاہر ہوتی جارہی ہیں ہر چند موجد اِن کے عقلاء ہیں مگر وہ سب تعلیم الٰہی کا اثر ہے کیوں کہ ارشاد ہے ’’وَعَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمُ‘‘ سورۃ الفلق:۵ (اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں وہ نہیں جانتا تھا) یعنی اے لوگو حق تعالیٰ تم کو وہ امور سکھلائے گا جن کو تم اب تک نہیں جانا کرتے تھے۔
(مقاصدالاسلام: ۲۔۸۵)
(۱۸۷)فرمایا
قلم کو حرکت ہوتی ہے اور اس سے روشنائی کو، اس کے بعد کاغذ پر وہ صورت پیدا ہوتی ہے جس کو لکھنے کا ارادہ کیا اور جس کا تصور خیال میں آیا تھا کیوں کہ جب تک خیال میں صورت نہ آئے اس کے مطابق کاغذ پر وجود میں نہیں آسکتی۔ (مقاصدالاسلام: ۳۔۱۳)
(۱۸۸)فرمایا
شیطان کا مقصود اصلی یہی ہے کہ خلاف شرع (شریعت کے خلاف) لوگوں سے کام کرائے اور بیچارہ عابد کو عبادت میں اتنی فرصت کہاں کہ معانی نصوص اور مواقع اجتہاد میں غور و فکر کرکے آپ ایسا حکم دے کہ خداو رسول کی مرضی کے مطابق ہو۔ (حقیقۃ الفقہ: ۱۔۹)
(۱۸۹)فرمایا
آج کل جو دیکھا جاتا ہے کہ ہر طرف سے علماء پر ناحق اعتراضوں کی بوچھار ہے جس کی جی میں جو کچھ آتا ہے کہہ دیتا ہے، چنانچہ کوئی کہتا ہے کہ قوم کو انہی لوگوں نے تباہ کیا، اس لئے کہ ان کے فائدے کے مسئلے (مثلاً ربو خواری (سود خوری) کی علت، عورتوں کو اجنبی مردوں کے ساتھ میل جول کی اجازت وغیرہ امور) ان کو یہ لوگ نہیں بتلاتے حالاں کہ دنیوی ترقی اور آسائش ان امور سے متعلق ہے۔ (حقیقۃ الفقہ: ۱۔۱۲)
(۱۹۰)فرمایا
منافقوں کو صرف جھگڑے کرنا اور اسلام میں رخنے ڈالنا منظور ہوتا ہے اس لئے وہ فقط قرآن ہی کی طرف متوجہ ہوکر اس کو سیکھ لیتے ہیں اور علماء کے ساتھ مجادلے (جھگڑے) اور رسالہ بازیاں کرتے ہیں۔ (حقیقۃ الفقہ: ۱۔۶۳)
(۱۹۱)فرمایا
جبریل علیہ السلام جب وحی لائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی عقلی ثبوت ان سے نہیں طلب کیا اور یہ نہیں فرمایا کہ کیوں کر معلوم ہو کہ تم فرشتے ہو اور خدائے تعالیٰ نے اپنا کلام تمہارے ساتھ بھیجا ہے۔ (حقیقۃ الفقہ: ۱۔۷۱)
(۱۹۲)فرمایا
شیاطین کی تخلیق اس واسطے ہے کہ اسباب شقاوت و ضلالت قائم کریں اسی لئے وہ کبھی اس کام سے تھکتے نہیں جس طرح فرشتوں کی تخلیق عبادت کے واسطے ہے جس کی وجہ وہ تھکتے نہیں۔ (حقیقۃ الفقہ: ۱۔۱۲۱)
(۱۹۳)فرمایا
وسوسہ خفی آواز کو کہتے ہیں جو ہوا کی سنی جاتی ہے اور زیور کی آواز کو بھی کہتے ہیں اور باتوں کا تعلق آواز سے ہے اس لئے دل کی باتوں پر وسوسہ کا اطلاق کیا گیا ہے، اکثر استعمال اس لفظ کا بری باتوں میں ہوتا ہے جو دل میں آتی ہیں چنانچہ وسوسۂ شیطانی کہا جاتا ہے۔
(حقیقۃ الفقہ: ۱۔۱۲۰)
(۱۹۴)فرمایا
شیطان جس طرح بت پرستی پر لگاتا ہے ہوا پرستی (خواہش پرستی) پر بھی لگاتا ہے جو بت پرستی سے بھی بدتر ہے۔ (حقیقۃ الفقہ: ۱۔۱۲۲)
(۱۹۵)فرمایا
محسن صرف واسطہ ہے جس کے ذریعہ خدائے تعالیٰ کی نعمت پہنچتی ہے اگر وسائط (واسطے) بالکلیہ ساقط کردی جائیں تو خدائے تعالیٰ نے جو عالم اسباب میں مصلحتیں رکھی ہیں وہ فوت ہوجائیں گی اور ان کا فوت ہونا خدائے تعالیٰ کو منظور نہیں۔ (حقیقۃ الفقہ: ۱۔۱۲۴)
(۱۹۶)فرمایا
مروی ہے کہ شیطان نے بارگاہ کبریائی میں عرض کی کہ مجھ سے جو معصیت (نافرمانی) ہوئی وہ بحسب تقدیر تھی تو پھر یہ لعنت کیوں کی گئی، ارشاد ہوا کہ تو نے جس وقت نافرمانی کیا جانتا تھا کہ وہ تقدیر میں ہے؟ کہا نہیں، ارشاد ہوا کہ اسی کی سزا ہے جو ملعون ہوا۔
(حقیقۃ الفقہ: ۱۔۱۲۶)
(۱۹۷)فرمایا
جس کسی کو صفت قہاریت اور اس کے آثار کا علم ہوگا ممکن نہیں کہ وہ بے خوف ہو البتہ مدارج علم مُتفاوِت ہوتے ہیں اس لئے خوف کے مدارج بھی متفاوت ہوں گے جس کو کمال درجہ کا علم و یقین ہوگا اس کو خوف بھی اسی درجہ کا ہوگا۔ (حقیقۃ الفقہ: ۱۔۱۲۹)
(۱۹۸)فرمایا
بارگاہِ بانی میں جمال کو ترجیح ہے نہ جلال کو چوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر شان جمالی تھے اس وجہ سے آپ کو کمال درجہ کی تشویش تھی کہ کہیں شان جلالی کا ظہور نہ ہوجائے اور یہ تشویش یہاں تک بڑھی کے گویا بیخودی کی حالت طاری کردی… صدیق اکبرؓ، مقام رجاء میں تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مقام خوف میں۔ (حقیقۃ الفقہ: ۱۔۱۳۲)
(۱۹۹)فرمایا
حق تعالیٰ نے موسٰی علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ اے موسٰی میرا ایسا شکر کرو جو شکر کرنے کا حق ہے، انھوں نے عرض کی یا اللہ کس کو یہ طاقت ہے کہ ایسا شکر ادا کرسکے، ارشاد ہوا اے موسٰی جب تم سمجھ لوگے نعمت میری طرف سے ہے تو یہی اعلیٰ درجہ کا شکر ہوجائے گا۔
(حقیقۃ الفقہ: ۱۔۱۳۸)
(۲۰۰)فرمایا
قیّم یعنی امیر کی مثال ایسی ہے جیسے موتیوں کی لڑی کی گرہ کہ اگر وہ کھل جائے تو سب دانے متفرق (جدا) ہوجاتے ہیں جن کا پھر جمع ہونا مشکل ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۵۔۱۷۳)
(۲۰۱)فرمایا
تقریباً کل سلاسل اولیاء حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے واسطہ سے حضرتﷺ تک پہنچتے ہیں اس لئے ضروری تھا کہ تعلیم روحانی خاص طور پر آپ کو ہوتی چوں کہ خلافت کبریٰ کے لوازم بھی اسی سے متعلق ہیں اس لئے وقت خاص میں اس کا حال بھی آپ کو ضرور معلوم کرایا گیا ہوگا۔ (مقاصدالاسلام: ۵۔۱۰۹)
(۲۰۲)فرمایا
دین اسلام صرف تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے اور اس میں خاص کر نماز سب سے زیادہ باعث تقرب ہے کیوں کہ وہ معراج المومنین ہونے کی وجہ سے اس میں مناجات اور رازداری حق تعالیٰ سے نصیب ہوتی ہے ایسے امر میں ان (حضرت ابوبکر صدیقؓ) کو حضرتﷺ نے اپنا قائم مقام بنایا تو دوسرے امور میں تو بطریق اولیٰ وہ جانشین ہوں گے۔ (مقاصدالاسلام: ۶۔۴۴)
(۲۰۳)فرمایا
اس زمانے میں ساٹھ ستر ہزار مسلمانوں کو ایسی مدد ہوئی کہ روئے زمین کی بڑی بڑی سلطنتوں کو فتح کرلیا اور اس وقت باوجود یکہ کروڑوں مسلمان موجود ہیں مگر ممالک مقبوضۂ سابقہ کا سنبھالنا بھی دشوار ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۶۔۱۴۹)
(۲۰۴)فرمایا
دیکھئے اس زمانے کے اہلِ اسلام نے اسلام کو ترقی دی اور کافروں کو رسوا کیا پھر ایسے لوگوں سے بدگمانی کیوں کر جائز ہوگی، حسب ِارشاد حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدگمانی جائز نہ ہوتو سب و شتم (گالی) کس قدر آپ کے خلاف مرضی ہوگا۔ (مقاصدالاسلام: ۶۔۸۱)
(۲۰۵)فرمایا
ہر چیز کے پیدا کرنے سے متعدد مصالح اور اغراض متعلق ہیں، جن سے اب تک تمام دنیا کے لوگ غافل تھے، اب گر دنیا کے پیدا کرنے میں دو مقصود پیش نظر ہوں، یعنی معرفت و عبادت الٰہی و معرفت رسالت پناہی تو اس سے کونسی قباحت لازم آجائے گی۔
(مقاصدالاسلام: ۱۱۔۳۰)
(۲۰۶)فرمایا
مسلمانوں کا عقیدہ کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے کے بعد شک نہیں کرنا چاہئے کہ فی الواقع حضرت ہی تھے یا اور کوئی شخص۔ (مقاصدالاسلام: ۱۱۔۸۲)
(۲۰۷)فرمایا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے اعمال پر علاوہ اس طریقہ سے جو ہفتہ میں پیش ہوتے ہیں، وقت عمل بھی مطلع ہیں، اس لئے ہم کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے برے کاموں سے احتراز کیا کریں تاکہ کوئی کام ہم سے ایسا نہ ہو حضرت کے عتاب کا باعث ہو، حق تعالیٰ ہماری غفلت کو دوسرے اور ہمیں شرم عطا فرمائے۔ (مقاصدالاسلام: ۱۱۔۸۳)
(۲۰۸)فرمایا
خدائے تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو میلاد مبارک کی راتوں کو عید قرار دے، جس کے سبب سے جو لوگ اس کام کو برا سمجھتے ہیں وہ خوب جلیں۔ (مقاصدالاسلام: ۱۱۔۸۸)
(۲۰۹)فرمایا
باپ کے ساتھ صرف جسمانی تعلق ہے اور نبی کے ساتھ روحانی تعلق ہے اور ظاہر ہے کہ باپ صرف جسم کے وجود کا سبب ہوتا ہے جو چند سال میں فنا ہوجاتا ہے اور جوروحانیت کہ نبی کے وجود سے امتیوں میں پیدا ہوتی ہے، کبھی فنا نہیں ہوتی بلکہ ابدالآباد (ہمیشہ) کے لئے ان کو سعید (نیک بخت) بنادیتی ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۱۱۔۹۱)
(۲۱۰)فرمایا
اس وقت استاذ کی قدر و منزلت معلوم ہوتی تھی کہ جو مضمون گھنٹوں میں حل نہ ہو سکا تھا استاذ نے ذرا سی دیر میں حل کردیا اور فرط مسرت سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا کہیں سے بیش قیمت خزانہ مل گیا۔ (مطلع الانوار: ۱۴)
(۲۱۱)فرمایا
جب میں اجلاس پر بیٹھتا ہوں یا فیصلہ لکھنا شروع کرتا ہوں تو پہلے حضرت سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پاک کی طرف متوجہ ہوکر عرض کرتا ہوں کہ ’’میں ایک ذرّئہ بے مقدار ہوں میرا معاملہ آپ کے حوالہ ہے جب تک آپ مدد نہ فرمائیں راہ راست نہیں مل سکتی‘‘ اس کے بعد فیصلہ لکھنے کے لئے قلم اٹھاتا ہوں۔ (مطلع الانوار: ۳۷)
(۲۱۲)فرمایا
عبادت سے محض تقربِ الٰہی مقصود اور بعد ادائی فرض کے افضل عبادت تحصیل علمِ دین اور اس کی اشاعت ہے اگر کوئی شخص اس میں مصروف ہوتو اس کے مدارج روز اوفزوں ترقی کرتے ہیں گویا اس کو اس کا علم نہ ہو اور خدا و رسول کی خوشنودی اور قربت حاصل ہوجاتی ہے۔ (مطلع الانوار: ۷۸)
(۲۱۳)فرمایا
خرچ کو ہمیشہ آمد سے زائد رکھنا چاہئے تا کہ احتیاج الی اللہ باقی رہے۔ (مطلع الانوار: ۷۹)
(۲۱۴)فرمایا
جس طرح میں نے مدرسہ (جامعہ نظامیہ) کو توکل پر چلایا ہے اسی طرح آپ بھی عمل فرمائیں، آپ حضرات کو معلوم ہے کہ نہ میں نے کبھی طلبہ کی تعداد مقرر کی نہ ان کے اخراجات کا کوئی اندازہ کیا، یہی وجہ ہے کہ اب تک برابر طلبہ کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے اور اضافہ طلبہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آمدنی بھی بڑھادی۔ (مطلع الانورا: ۸۰)
(۲۱۵)فرمایا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائے تعالیٰ کی قدرت مستقل اور دوسروں کی عطائی یا ظل ہونا بارہا بیان فرمادیا تو اب اس کی ضرورت نہ رہی کہ ہر وقت دعا کرکے مسلمانوں کو معلوم کرائیں کہ ہماری قدرت مستقل نہیں۔ (مقاصدالاسلام: ۹۔۲۰)
(۲۱۶)فرمایا
دینی معاملات میں خود سری اور ننگ و عار کوئی چیز نہیں، خدا و رسول جس بات کو پسند کریں اسی کی اطاعت ضروری ہے خواہ وہ نفس کے موافق ہو یا مخالف اور خواہ اس میں ذلت ہو یاعزت۔ (مقاصدالاسلام: ۹۔۷۵)
(۲۱۷)فرمایا
آخری زمانے کے مسلمانوں کی گستاخیاں جن کے سننے کی تاب کوئی مسلمان نہیں لاسکتا، خدائے تعالیٰ کے نزدیک وہ کیسا رنگ لائے گی خدائے تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو توفیق ادب عطا فرمائے۔ (مقاصدالاسلام: ۹۔۸۲)
(۲۱۸)فرمایا
ہمارا دین اس بات کا محتاج نہیں کہ نام کے مسلمانوں سے بھیڑ بھاڑ بڑھے، جن لوگوں کے ذہن میں دین قومیت کا نام ہے البتہ ان کی غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ تعداد مسلمانوں کی جس قدر بڑھے گی سرکار سے قومی حقوق کے حاصل کرنے میں سہولت ہوگی ایک حد تک ان کا خیال درست ہے مگر دنیوی لحاظ سے، دین سے اس کو کوئی تعلق نہیں دین کے لحاظ سے تو ایسے لوگوں کا علیحدہ ہوجانا خس کم جہاں پاک کا مصداق ہے۔
(مقاصدالاسلام: ۹۔۸۳)
(۲۱۹)فرمایا
جو لوگ خدائے تعالیٰ کی قدرت ہی کو نہیں مانتے ہمیں ان سے کوئی بحث نہیں، کیوں کہ یہ رسالہ (مقاصدالاسلام) مناظرہ کا نہیں ہے بلکہ خاص وہ لوگ اس کے مخاطب ہیں جن کو خدائے تعالیٰ کی قدرت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۹۔۱۰۱)
(۲۲۰)فرمایا
ہم دیکھتے ہیں کہ بعض جانور جیسے: کتے، گھوڑے وغیرہ اپنے مالک کو پہچانتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں، تو اگر انسان باوجود کمال عقل کے اس باب میں ان سے بھی پیچھے رہے تو اس کو انسان کہنے میں ہی تامل ہے۔ (مقاصدالاسلام: ۳۔۱۶)
(۲۲۱)فرمایا
قیامت کے روز توکل لذائذ اور تعلقات جسمانی منقطع ہوجائیں گے، اس لئے کہ اس پچاس ہزار برس کے دن میں نہ کھانا ہوگا نہ پانی، نفس ناطقہ کو بدل ما یتحلل پہنچانے کی فکر۔ (مقاصدالاسلام: ۳۔۳۴)
(۲۲۲)فرمایا
تصوف ہمارے دین میں اعلیٰ درجے کا’’علم‘‘ ہے جس پر اولیاء اللہ کا عمل رہا ہے، اگر وہ فلسفہ کا ہم خیال ثابت ہوجائے تو شریعت سے اس کا کچھ تعلق نہ رہا۔ حالاں کہ اولیاء اللہ شریعت کے نہایت پابند رہتے ہیں۔ اس فکر میں تھا کہ وہ مقولہ یاد آگیا کہ ’’کچا صوفی پکا ملحد‘‘
(مقاصدالاسلام: ۳۔۱۰۴)

یادداشت

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!