متوکلین کا حال:
متوکلین کا حال:
حضرت سیِّدُنا ابوعامر واعظ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک رات میں ایک پہاڑ میں چل رہا تھا کہ میں نے ایک زخمی دل والے کی چیخ وپکار سنی جو کہہ رہاتھا: ”اے بیابانوں میں حیرت زدوں کی رہنمائی فرمانے والے! اے خلوتوں میں وحشت محسوس کرنے والوں کی وحشت دور کرنے والے! جب بہادروں کو توانائی کی تلاش ہوتی ہے میں تجھ سے توانائی کا سوال کرتاہوں اور
سے ہدایت عطا فرما اور اے سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے! ان سب کو اپنے سایۂ عفو و کرم میں داخل فرما دے اور ان کو اپنی مغفرت سے نواز دے۔(آمین)
وَصَلَّی اللہ عَلٰی سیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ وَ سَلَّم
جب جاہل فخرو ناز کرتے ہیں تومیں تجھ سے فخر طلب کرتاہوں۔” آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں جلدی سے اس طرف بڑھا اوراس شخص کو جاکر سلام کیااس نے سلام کا جواب دیا اور پوچھا:”اس رات کی تاریکی میں آپ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جانا چاہتے ہیں؟” میں نے کہا:”سیدھی راہ سے بھٹکا ہوا ہوں،میں نے آپ سے ایسا کلام سنا ہے کہ جس نے میرے دل کے زخموں کوتازہ کردیاہے اور وجد و غم کو حرکت دے دی ہے۔” یہ سن کر اس نے ایک زوردار چیخ ماری اور بے ہوش ہوکرگرپڑا۔ ہوش آنے کے بعد رونے لگا۔میں نے اس سے رونے کاسبب پوچھا تو اس نے جواب دیا: ”میں تمناؤں اور فانی زندگی میں وقت ضائع کرنے کوناپسندکرتاہوں۔”پھر وہ منہ پھیر کرچل دیا۔میں بھی اس کے پیچھے ہولیا۔ ایک وادی میں جھک کر بیٹھنے کے بعد وہ دوبارہ رونے لگاتومیں نے کہا:”اللہ عزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے،مجھے بھی راستہ دکھایئے۔”تواس کی آہ وبُکامیں زیادتی ہو گئی اور کہنے لگا:”افسوس ہے تجھ پر! کہاں ہے راستہ؟کہاں ہیں دائیں طرف والے اور کہاں ہیں اعلیٰ علیین کے مراتب؟”پھراس نے میرے ہاتھ پر ضرب لگائی اور آگے لے گیاتو اچانک ہم ایک وادی کے کنارے پر پہنچ گئے۔
میں نے کہا:”فجرطلوع ہوگئی ہے اور ہمیں وضو کرنا ہے۔”تواس نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا جس سے میٹھے پانی کا ایک چشمہ پھوٹ پڑا اور مجھے کہا:”لیجئے، وضو کر کیجئے۔” ہم دونوں نے وضو کیاپھر اس نے اذان و اقامت کہی اور ہم نے نماز پڑھی،جب سلام پھیرا تو اس نے کہا: ”اے اللہ عزَّوَجَلَّ کے بندے! تم سلامت رہو،اب جدائی کا وقت آ گیا ہے۔” میں نے کہا:”اس ذات کی قسم جس نے آپ کے لئے اپنی بارگاہ تک رسائی آسان فرما دی ہے! میرے لئے دعا فرمائیں۔” پھر میں نے اپنے توشہ دان کی طرف اشارہ کیا تو اس نے پوچھا: ”کیا آپ بھوک سے ہیں؟’میں نے کہا:”جی ہاں۔” تو اس نے کہا: ”غذاطلب کرکے آپ نے اپنے دل کو کائنات میں غور و فکر سے غافل کر دیاہے،اگر آپ یقین کا ذائقہ چکھ لیتے اور متقین کے لئے اللہ عزَّوَجَلَّ کی تیار کی گئی نعمتیں ملاحظہ کر لیتے تو آپ کا خشوع ہمیشہ رہتااور آپ کی بھو ک ختم ہو جاتی۔”پھر اس نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا تویکایک گرم گرم روٹی برآمد ہوئی گویاکہ آگ سے نکلی ہواور اس نے مجھ سے کہا:”کھایئے ۔”میں نے حیران ہوکر اسے کھایا اور دل میں اس کے متعلق پوچھنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ وہ خود ہی کہنے لگا:”اے نوجوان! بے شک اللہ عزَّوَجَلَّ کے ایسے بندے بھی ہیں جنہوں نے سچے دل سے خواہشاتِ نفسانیہ کو ترک کیا تواب پوری کائنات زندگی و موت میں ان کی خدمت کرتی ہے۔” اس کے بعد اچانک وہ میرے پاس سے غائب ہو گیاپھر میں اس کونہ دیکھ سکا۔
سبحان اللہ عزَّوَجَلَّ !کیا خوب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے دل میں محبوبِ حقیقی کے علاوہ کسی کے لئے کوئی جگہ نہ چھوڑی۔ (اللہ عزَّوَجَلَّ کی اُن پر رحمت ہواور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ علیہ وسلم)