اسلام

زمانے کا بہترین شخص:

زمانے کا بہترین شخص:

حضرت سیِّدُنا عباس بن راشد علیہ رحمۃاللہ الواجد فرماتے ہیں: ”حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے اور جب واپس جانے لگے تو میرے آقا نے مجھے حکم فرمایا:”تم بھی ان کے ساتھ جاؤ۔”چنانچہ، میں بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جانے کے لئے سوار ہوا۔ جب ہمارا گزر ایک وادی سے ہوا تو اس میں راستے پر ایک مردہ سانپ پڑا ہوا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی سواری سے نیچے اُترے اور سانپ کو دفن کرکے پھر سوار ہوگئے اور ہم اپنی منزل کی طرف چل پڑے۔ اتنے میں ایک غیبی آواز آئی: ”یا خرقاء! یا خرقاء!”ہم آواز تو سن رہے تھے لیکن کوئی نظر نہ آرہا تھا ۔حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”اے غیبی آواز دینے والے! میں تجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا واسطہ دے کر پوچھتاہوں کہ اگر تم سامنے آ سکتے ہو تو آ کر ہمیں بتاؤکہ یہ خرقاء کیا ہے؟” اس نے جواب دیا:”خرقاء وہی سانپ ہے جس کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دفن کر دیا ہے۔ میں نے ایک دن حضورپُرنور، شافِعِ یومُ النشورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو اس سانپ سے یہ فرماتے سنا تھا، ”اے خرقاء! تم چٹیل زمین میں مرو گے اور زمانے کا سب سے بہترمؤمن تمہیں دفن کریگا۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ تم پر رحم فرمائے! یہ تو بتاؤ کہ تم کون ہو؟”اس نے بتایا، ”میں ان سات جِنَّات میں سے ہوں جنہوں نے اس وادی میں رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بیعت کی تھی ۔”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوبارہ پوچھا: ”کیا واقعی تم نے یہ بات اللہ کے رسول عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے سنی ہے؟” اس نے کہا: ”جی ہاں۔”یہ سننا تھاکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں سے سَیلِ اَشک رواں ہو گیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے چل دئیے۔”

(تاریخ دمشق لابن عساکر، الرقم۵۲۴۲،عمر بن عبد العزیز، ج۴۵، ص۱۴۵۔۱۴۶)
(حلیۃ الاولیاء، عمر بن عبد العزیز،الحدیث۷۴۶0، ج۵، ص۳۷۵)

حضرت سیِّدُنا مجاہد علیہ ر حمۃاللہ الواحد فرماتے ہیں: ”خلفائے راشدین اورہدایت یافتہ امام سات ہیں۔جن میں سے پانچ دُنیا سے رخصت ہوگئے اور دوباقی ہیں۔ حضرت سیِّدُناخارجہ ر حمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” ان پانچ کے نام یہ ہیں: ”(۱)۔۔۔۔۔۔امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ(۲)۔۔۔۔۔۔امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۳)۔۔۔۔۔۔امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۴)۔۔۔۔۔۔ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور (۵)۔۔۔۔۔۔امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔”

(سنن ابی داؤد،کتاب السنۃ،باب فی التفضیل، الحدیث۴۶۳۱، ص۱۵۶۳)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!