اچھا کون اور بُرا کون؟
اچھا کون اور بُرا کون؟
ایک مرتبہ رسولِ اکرم ،نُورِ مُجَسَّم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضوَان سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں اچھے بُروں کی خبر نہ دوں ؟ سب خاموش رہے ، تین بار یہی اِستفسار فرمایا تو ایک شخص نے عرض کی: جی ہاں یارسول َاللّٰہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! ہمیں ہمارے بُرے بَھلوں کی خبر دیجئے ! فرمایا : تمہارا بھلا وہ شخص ہے جس سے خیرکی اُمید کی جائے اور اس کے شَر سے اَمْن ہو ، اور تمہارا بُرا وہ شخص ہے جس سے خیر کی اُمید نہ کی جائے اور اس کے شر سے امن نہ ہو ۔
(ترمذی ، کتاب الفتن ، باب (ت : ۷۶) ، ۴/ ۱۱۶ ، حدیث : ۲۲۷۰)
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان حدیثِ پاک کے اس حصے کہ ’’جس سے خیرکی اُمید کی جائے اور اس کے شر سے امن ہو‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : یعنی قدرتی طور پر لوگوں کے دلوں میں اس کی طرف سے اِطمینان ہو کہ یہ شخص کسی کو تکلیف نہیں دیتا ، ہو سکتا ہے تو خیر ہی کرتا ہے ۔ ’’جس سے خیر کی اُمید نہ کی جائے اور اس کے شر سے امن نہ ہو‘‘ کے تحت مفتی صاحب فرماتے ہیں : یعنی قدرتی طور پر لوگ اس سے ڈرتے ہوں کہ یہ شخص خطرناک ہے اس سے بچو ، اس سے خیر نہ پہنچے گی شر (یعنی بُرائی)ہی پہنچے گی ۔ (مراٰۃ المناجیح ، ۶/۵۷۹)
حضرتِ سیِّدُنا علامہ عبد الرء وف مَناوی علیہ رحمۃُ اللّٰہِ الہادی نقل فرماتے ہیں : اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ساتھیوں کے ساتھ عَدْل کرنا واجب ہے اور عدل تین
چیزوں کے ذریعے ہوسکتا ہے : ۔ (1) زیادتی نہ کرنا (2) ذلیل کرنے سے بچنا (3) تکلیف نہ دینا ۔ کیونکہ زیادتی نہ کرنے سے محبت بڑھتی ہے ، ذلیل کرنے سے بچنا سب سے بڑی مہربانی ہے اور تکلیف نہ دینا سب سے بڑا اِنصاف ہے ۔ اگر یہ تین چیزیں نہ چھوڑی جائیں تو آپس میں دشمنیاں جنم لینے لگتی ہیں اور فساد برپا ہوجاتا ہے۔
(فیض القدیر،حرف الہمزۃ،۳/ ۱۳۲،تحت الحدیث:۲۸۵۷)