اسلام
ومسح کل راسہ مرۃ مستوعیۃ
ومسح کل راسہ مرۃ مستوعیۃ
اعلی حضرت پیرسیدمقبول احمدشاہ قادری
پیوستہ بگذشتہ
سنت ہے پورے سرکامسح کرناایک بار( متون )زیادہ پاکی اس میں ہے کہ دونون ہتھیلیاں اورانگلیاں اپنے سر کے آگےحصہ پر رکھ کر پچھلے حصے کی طرف اس طرح لے جائے کہ سارے سرپر ہاتھ پھرجائے گا ۔پھر دونوں انگلیوں سے کانوں کامسح کرے اس طرح سے کہ پانی ان کامستعمل نہ ہو(تبین) صحیحین میں ہے ۔حضرت عبداللہ بن زید سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے سرمبارک کا مسح کیا دونوں ہاتھوں سے تودونوں ہاتھوں کو آگے پیچھے لے گئے اور پیچھے سے آگے کولائے۔
ایک باراور حضرت امام محمدبن حسن نے موطا میں عبداللہ بن زید بن عاصم سے حضورﷺ کے وضو کی حکایت میں مروی ہے حضورﷺ نے مسح کیا مقدمہ سرسے تاآنکہ ان دونوں ہاتھوں کوکفایت یعنی گدی تک لے گئے پھردونوں۔۔۔۔۔ہاتھوں کوپھیرلائے اس مکان تک جہاں سے مسح کرنا شروع کیا تھااورجوکیفیت مسح کی اس حدیث شریف میں مذکور ہے یہی مشہور اس کے سوا جوطریقہ مسح کرنے کے بیان ہوئے ہیں ۔توصاحب بحرالرائق نے ان سب کو ضعیف کہا ہے ۔ فَلَوْ تَرَكَهُ وَدَوَامَ عَلَيْهِ أَثِمَ یعنی اگر تمام سرکامسح ترک کیا سارے سرکے مسح نہ کرنے کی ہمیشگی کی توگناہگارہوگا۔اس واسطے سنت موکدہ بہ منزلہ واجب کے ہے ۔(وَأُذُنَيْهِ) مَعًا وَلَوْ (بِمَائِهِ)(درالمختار)اورسنت ہے دونوںکانوں کامسح کرنا ساتھ ہی سرکے مسح کے پانی کو آگے سے بھی مسح کرے پیچھے سے بھی مسح کرے(طحطاوی) اگر کانوں کے مسح کے واسطے نیاپانی لے ایسی حالت میں کہ پہلی تری بھی باقی تھی توبہترہوگا(بحرالرائق) کانوں کے اندر کی طرف سے انگشت شہادت کواندر کی طرف سے مسح کرے(سراج الوہاج) لَكِنْ لَوْ مَسَّ عِمَامَتَهُ فَلَا بُدَّ مِنْ مَاءٍ جَدِيدٍ لیکن اگر سرکے مسح کے بعد پگڑی کوہاتھ لگایا تواب نیا پانی کانوں کے مسح کے لیے لینا ضروری ہےترتیب المذکور فی النص(درالمختار)اورسنت ہے وتر جونص قرآنی میں مذکور ہے۔ یعنی اول چہرہ دھونا پھردونوں کوکہنیوں سمیت دھونا پھرسرکامسح پھردونوں پاؤں دھونا ٹخنوں سمیت ’’(وَالْوِلَاءُ) بِكَسْرِ الْوَاوِ:غَسْلُ الْمُتَأَخِّرِ أَوْ مَسْحِهِ قَبْلَ جَفَافِ الْأَوَّلِ بِلَا عُذْرٍ.حَتَّى لَوْ فَنِيَ مَاؤُهُ فَمَضَى لِطَلَبِهِ لَا بَأْسَ بِهِ،(درالمختار)یعنی پے درپے وضوکرناسنت ہے۔مراد یہ ہے کہ پہلے عضودھونے سے یامسح کرنے سےعضو اول کے خشک ہوجانے سے پہلے یامسح کرنے سے بلاعذریعنی عذر کے سوا اگر عذر سے خشک ہوجائے چنانچہ ہوا کی گرمی یاتیزی یابدن کی زیادہ گرمی سے تومضائقہ نہیں یہاں تک کہ پانی درمیان وضو ختم ہوااورپانی لانے گیا دھوگیا عضو خشک ہوگیا تو پے درپے دھونے کی بنسبت اس عذرسے فوت نہ ہوگی۔ووَمِثْلُهُ الْغُسْلُ وَالتَّيَمُّمُدرالمختار یعنی غسل میں بھی پے درپے اعضاکادھونا سنت ہے اور تیمم میں بھی اعضا کوپے درپے دھونا سنت ہے یعنی ایک عضوکے تیمم کرنے کے بعد دوسرے عجوکاپے درپے تیمم کرناسنت ہے۔ وَمِنْ السُّنَنِ: الدَّلْكُ، وَتَرْكُ الْإِسْرَافِ، وَتَرْكُ لَطْمِ الْوَجْهِ بِالْمَاءِ،(درالمختار) یعنی سنتوں میں سے ہے کہ اعضا کو دھوتے وقت ملنااورچھوڑنازیادہ پانی کاخرچ کرنا اور پانی منہ پرزورسے مارنا۔
Al Rashaad Vo 11