رہن اور بیع سلم کے مسائل
رہن اور بیع سلم کے مسائل
(۱)’’ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ وَہُمْ یُسْلِفُونَ فِی الثِّمَارِ السَّنَۃَ وَالسَّنَتَیْنِ وَالثَّلاثَ فَقَالَ مَنْ أَسْلَفَ فِی شَیْئٍ فَلْیُسْلِفْ فِی کَیْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَی أَجَلٍ مَعْلُومٍ‘‘۔ (1)
حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم انے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم مدینہ طیبہ میں تشریف لائے مدینہ کے لوگ پھلوں میں سال دو سال اور تین سال کی ( پیشگی) بیع کیا کرتے تھے ۔ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جو شخص اس طرح کی بیع کرے اسے چاہیے کہ معین پیما نہ معین وزن اور معین مدت کے ساتھ کرے ۔ (بخاری، مسلم)
(۲)’’ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا یَغْلَقُ الرَّہْنُ الرَّھْنَ مِنْ صَاحِبِہِ الَّذِیْ رَھَنَہُ لَہُ غُنْمُہُ وَعَلَیْہِ غُرْمُہُ ‘‘۔ (2)
حضرت سعید بن المسیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ کسی چیز کو رہن کردینے سے رہن کرنے والے کی ملکیت ختم نہیں ہوجاتی اس کے منافع کا حق دار راہن(3) ہے اور ( چیز ضائع ہوجائے تو) مرتہن (4) تاوان کا ذمہ دار ہے ۔ (مشکوۃ)
انتباہ :
(۱)… بیع سلم یعنی ایسی خرید و فروخت کہ جس میں قیمت نقد اورمال ادھار ہو جائز ہے ۔ مثلاً زید نے
فصل تیار ہونے سے پہلے بکر سے کہا کہ آپ سو روپیہ ہمیں دے دیجئے ہم فی روپیہ چار کلو گیہوں آپ کو فلاں تاریخ میں دے دیں گے ۔ تو خواہ اس وقت یا ادائیگی کے وقت بازار کا بھائو فی روپیہ تین کلو ہو زید پر فی روپیہ چار کلو گیہوں دینا واجب ہوگا اس لیے کہ یہ بیع شرعاً جائز ہے بہ شرطیکہ مسلم فیہ(1) کی جنس بیان کردی جائے کہ گیہوں دے گا یا جَو۔ اور اس کی نوع بیان کردی جائے کہ فلاں نام کا گیہوں دے گا اور یہ بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ وہ گیہوں اعلیٰ ہوگا یا اوسط یا ادنیٰ ۔ نیز یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ گیہوں کتنا دے گا؟ کس تاریخ میں دے گا اور کس جگہ دے گا اور بھی کچھ شرطیں ہیں جن کی تفصیلات بہارِ شریعت وغیرہ سے معلوم کریں۔
(۲)…کھیت رہن رکھنے کا جو عام رواج ہے کہ کسی شخص کو کچھ روپیہ دے کر اس کا کھیت اس شرط پر رہن رکھتے ہیں کہ ہم کھیت سے نفع حاصل کرتے رہیں گے اور گورنمنٹی لگان دیتے رہیں گے ۔ پھر جب تم روپیہ ادا کرو گے تو ہم کھیت واپس کردیں گے یہ ناجائز ہے ۔ اس لیے کہ قرض دے کر نفع حاصل کرنا سود ہے حرام ہے ۔
حدیث شریف میں ہے :
’’کُلُّ قَرْضٍ جَرّ نَفْعًا فَھُوَ رِبًا‘‘۔ یعنی قرض سے جو نفع حاصل ہو وہ سود ہے ۔
البتہ کافر حربی کا کھیت اس طرح لے سکتا ہے اس لیے کہ عقود فاسد ہ کے ذریعہ ان کا مال لینا جائز ہے ۔
(۳)…بعض لوگ کھیت اس طرح رہن رکھتے ہیں کہ مرتہن کھیت کو جوتے بوئے فائدہ حاصل کرے ۔ اور کھیت کا دس پانچ روپیہ سال کرایہ مقرر کردیتے ہیں اور طے یہ پاتا ہے کہ وہ رقم زرِ قرض سے مجرا ہوتی رہے گی جب کل رقم ادا ہوجائے گی تو کھیت واپس ہوجائے گا۔ اس صورت میں بظاہر کوئی قباحت نہیں معلوم ہوتی اگرچہ کرایہ واجبی اجرت سے کم طے پایا ہو اس لیے کہ یہ صورت اجارہ میں داخل ہے یعنی اتنے زمانہ کے لیے کھیت کرایہ پر دیا اور کرایہ پیشگی لے لیا۔ (2) (بہار شریعت، جلد ہفدہم ص ۳۹)
٭…٭…٭…٭