اعمال

مصافحہ سنت ہے

مصافحہ سنت ہے

(۱)’’عَنْ الْبَرَاء بْنِ عَازِبٍ قَال قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا بَیْنَ مُسْلِمَیْنِ یَلْتَقِیَانِ فَیَتَصَافَحَانِ إِلَّا غُفِرَ لَہُمَا قَبْلَ أَنْ یَتَفَرَّقَا‘‘۔ (1)
حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے ان کو بخش دیا جاتا ہے ۔ (ترمذی)
(۲)’’عَنْ عَطَائِ الْخُرَاسَانِیِّ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ تَصَافَحُوا یَذْہَبُ الْغِلُّ‘‘۔ (2)
حضرت عطاء خراسانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ آپس میں مصافحہ کیا کرو اس سے کینہ دور ہوگا۔ (ترمذی)
(۳)’’عَنْ زَارِعٍ وَکَانَ فِی وَفْدِ عَبْدِ الْقَیْسِ قَالَ لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَوَاحِلِنَا فَنُقَبِّلُ یَدَ رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرِجْلَہُ‘‘۔ (3)
حضرت زارع جو ( وفد) عبدالقیس میں شامل تھے فرماتے ہیں کہ جب ہم مدینہ میں آئے تو ہم جلد جلد اپنی سواریوں سے اُتر پڑے اور ہم نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے دست ِ مبارک اور پائے مبارک کو بوسہ دیا۔ (ابو داود، مشکوۃ)

انتباہ :

(۱)…دینی پیشوا کا ہاتھ اور پائوں چومنا جائز ہے ۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اشعۃ اللمعات، جلد چہارم، ص: ۲۱ پر فرماتے ہیں کہ:
’’بوسہ دادن دست عالم متورّع را جائز
یعنی پرہیزگار عالم کا ہاتھ چومنا جائز ہے اور بعض
ست وبعضے گفتہ اند مستحب ست‘‘۔ (1)
علماء نے فرمایا کہ مستحب ہے ۔
اور وفد عبدالقیس کی حدیث کے تحت فرماتے ہیںکہ:
’’ازیں جا تجویز پائے بوس معلوم شد‘‘۔ (2)
یعنی اس حدیث شریف سے پائوں چومنے کا جواز ثابت ہوا۔
اور درمختار بحث مصافحہ میں ہے کہ:
’’ لَا بَأْسَ بِتَقْبِیلِ یَدِ الرَّجُلِ الْعَالِمِ وَالْمُتَوَرِّعِ عَلَی سَبِیلِ التَّبَرُّکِ‘‘۔ (3)
یعنی برکت کے لیے عالم اور پرہیزگار آدمی کا ہاتھ چومنا جائز ہے ۔
(۲)…ہر نماز باجماعت کے بعد بھی مصافحہ کرنا جائز ہے ۔ درمختار کتاب الحظر والا باحۃ باب الاستبراء میں ہے :
’’ تَجُوْزُ الْمَصَافَحَۃُ وَلَوْ بَعْدَ الْعَصْرِ وَقَوْلُہُمْ إنَّہُ بِدْعَۃٌ أَیْ مُبَاحَۃٌ حَسَنَۃٌ کَمَا أَفَادَہُ النَّوَوِیُّ فِی أَذْکَارِہِ ا ہـ ملخصاً ‘‘۔ (4)
یعنی بعد نماز عصر بھی مصافحہ کرنا جائز ہے اور فقہاء نے جو اُسے بدعت فرمایا تو وہ بدعت ِمباحہ حسنہ ہے ۔ جیسا کہ امام نووی نے اپنے اذکار میں فرمایا۔
اسی کے تحت رد المحتارمیں ہے :
’’ قَالَ اعْلَمْ أَنَّ الْمُصَافَحَۃَ مُسْتَحَبَّۃٌ عِنْدَ کُلِّ لِقَاء، وَأَمَّا مَا اعْتَادَہُ النَّاسُ مِنَ الْمُصَافَحَۃِ بَعْدَ صَلَاۃِ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ، فَلَا أَصْلَ لَہُ فِی الشَّرْعِ عَلَی ہَذَا الْوَجْہِ وَلَکِنْ لَا بَأْسَ بِہِ قَالَ الشَّیْخُ أَبُو الْحَسَنِ الْبِکْرِیُّ
یعنی امام نووی نے فرمایا کہ ہر ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا سنت ہے اور فجر و عصر کی نماز کے بعد جو مصافحہ کا رواج ہے اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں لیکن اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ شیخ ابوالحسن بکری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ صبح و عصر کی قید

وَتَقْیِیْدُہُ بِمَا بَعْدَ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ عَلَی عَادَۃٍ کَانَتْ فِی زَمَنِہِ، وَإِلَّا فَعَقِبَ الصَّلَوَاتِ کُلِّہَا کَذَلِکَ اہـ ملخصاً‘‘۔ (1)
فقط لوگوں کی عادت کی بنا پر ہے جو امام نووی کے زمانہ میں تھی ورنہ ہرنماز کے بعد مصافحہ کا یہی حکم ہے یعنی جائز ہے ۔ (شامی، جلد پنجم ص ۲۵۲)
(۳)…وہابی غیر مقلد دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنے کو ناجائز اور خلافِ حدیث بتاتے ہیں یہ ان کی جہالت ہے ۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اشعۃ اللمعات ترجمہ مشکوۃ، جلد چہارم ، ص۲۰ پر فرماتے ہیں:
’’مصافحہ سنت است نزد ملاقات وباید کہ بہر دو دست بود‘‘۔ (2)
یعنی ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا سنت ہے اور دونوں ہاتھ سے کرنا چاہیے ۔
اور احادیث کریمہ میں جو لفظ ’’ید‘‘ مستعمل ہے اس سے صرف ایک ہاتھ سے مصافحہ کا استدلال صحیح نہیں اس لیے کہ ایسی دو چیزیں جو ایک دوسرے کے ساتھ رہتی ہوں جیسے ہاتھ ، پائوں ، آنکھ ، موزہ ، جوتا اور دستانہ وغیرہ اس میں واحد کا لفظ بول کر دونوں مرا دلیے جاتے ہیں، مثلاً زید نے ہاتھ سے پکڑ ا یعنی دونوں ہاتھ سے ، اور پائوں سے چلا ، یعنی دونوں پائوں سے اور آنکھ سے دیکھا۔ یعنی دونوں آنکھ سے اور کہا جاتا ہے زید نے جوتا پہنا یعنی دونوں جوتے ۔ وَقِسْ عَلَی ھَذَا الْبَواقِی۔
یہ محاورہ ہند، ایران اور عرب میں سب جگہ مسلّم ہے ورنہ حدیث شریف’’ أَطْیَبُ الْکَسْبِ عَمَلُ الرَّجُلِ بِیَدِہِ‘‘کا یہ مطلب ہوجائے گا کہ صرف ایک ہاتھ کی کمائی بہتر ہے دونوں ہاتھ کی کمائی بہتر نہیں۔ اور مشہور حدیث ’’اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ‘‘کا یہ مطلب ماننا پڑے گا کہ کامل مسلمان وہ شخص ہے جس کے صرف ایک ہاتھ سے مسلمان امان میں رہیں اور دوسرے ہاتھ سے تکلیف میں۔
مَنْ (3) شَاء التَّفْصِیْلَ لِھَذِہِ الْمَسْئَلَۃِ فَلْیُطَالِعْ ’’صفَائِحُ اللُّجَیْن فِیْ کَوْنِ التَّصَافُحِ بِکفی الیَدَیْن‘‘ للإمام أحمد رضا رضی اللہ تعالی عنہ۔
٭…٭…٭…٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!