اسلامواقعات

مکاّر سانپ

مکاّر سانپ

حضرت سیدنا محمدبن عیینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :” ایک مرتبہ حضرت سیدنا حمیری بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شکار کے لئے گئے۔ جب وہ ایک ویران جگہ پہنچے تو اچانک ان کی سواری کے سامنے ایک سانپ آگیا اور اپنی دم پرکھڑا ہوگیا اور بڑی لجاجت سے حضرت سیدنا حمیری بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے عرض گزار ہوا :” (خدا کے لئے)مجھے میرے دشمن سے پناہ دیجئے، اللہ رب العزت عز وجل آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوا پنے عرش عظیم کے سائے میں اس دن پناہ دے گا جس دن اس کے عرش کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، برائے کرم !مجھے میرے دشمن سے بچالیجئے ورنہ وہ میرے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔” حضرت سیدنا حمیری بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:”میں تجھے کہاں چھپاؤں ؟ ”وہ سانپ کہنے لگا :” اگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نیکی کرنا چاہتے ہيں تو مجھے اپنے پیٹ میں پناہ دے دیجئے۔”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:”آخر تو ہے کون اور مجھ سے پناہ کیوں چاہتا ہے ؟ ” سانپ نے کہا: ”میں مسلمان ہوں، مجھے مسلمان سمجھ کر پناہ دے دیجئے ۔”حضرت سیدنا حمیری بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کے لئے اپنا منہ کھول دیا اور اسے اپنے پیٹ میں جانے دیا۔کچھ دیر کے بعد ایک نوجوان آیا جس نے ایک تیز تلوار اپنے کندھے پر لٹکائی ہوئی

تھی۔ اس نے آتے ہی کہا:” اے شیخ! کیا تم نے ایک سانپ دیکھا ہے ،مجھے گمان ہے کہ شاید تم نے اسے اپنی چادر میں چھپارکھا ہے ؟” حضرت سیدنا حمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا:” میں نے کسی سانپ کو نہیں دیکھا ۔”نوجوان یہ بات سن کر وہاں سے چلاگیا ۔ اس نوجوان کے جاتے ہی سانپ نے اپنا منہ نکالااور پوچھا:”کیامیرا دشمن جاچکا؟” آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا: ”ہاں! وہ جا چکا ، اب تو بھی میرے جسم سے باہر آجا تا کہ مجھے تکلیف نہ ہو۔” تو وہ مکار سانپ کہنے لگا :”اب تو میں تیرے جسم سے باہر نہیں آؤں گا، اب تیرے لئے دو راستے ہیں یا تو میں تجھے زہر سے ہلاک کردو ں گا یا تیرے دل میں سوراخ کردوں گا۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے کہا :” تو مجھے کس دشمنی کی وجہ سے سزا دینا چاہتا ہے؟” سانپ نے کہا:” تُوبہت احمق ہے کہ تو نے مجھے نیکی کے لئے منتخب کیا،کیا تو مجھے نہیں جانتا کہ میں نے تیرے باپ آدم سے کس طر ح دشمنی کی آخر تو نے میرے ساتھ احسان کیوں کیا؟” آخر تجھے مجھ سے کیا لالچ تھا،نہ تو میرے پاس مال و دولت ہے اور نہ ہی کوئی سواری وغیرہ ہے کہ جسے بطور انعام تجھے دوں۔” آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا:”میں نے تو صرف رضائے الٰہی عزوجل کے لئے تیرے ساتھ نیکی کی تھی، اگر تو مجھے مارنا ہی چاہتا ہے تو مجھے پہاڑ پر جانے دے تا کہ میں وہیں رہ کر اپنی جان دے دو ں ۔” سانپ نے کہا:” ٹھیک ہے، تم پہاڑ پر چلے جاؤ۔” چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پہاڑ پر آئے اور موت کا انتظار کرنے لگے۔
جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پہاڑ پر پہنچے تواچانک وہاں ایک نوجوان نظر آیا جس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طر ح روشن تھا، اس نے کہا:” اے شیخ! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہیہاں زندگی سے مایوس ہو کر موت کا انتظار کیوں کر رہے ہیں؟” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سانپ والا سارا واقعہ بتایااور کہا:”اب سانپ میرے پیٹ میں موجود ہے، میں نے تواِسے دشمن سے بچانے کے لئے پناہ دی تھی مگریہ مجھے مارنا چاہتا ہے ۔”
اس نوجوان نے کہا:” میں اپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکی مدد کے لئے آیاہوں۔”پھر اس نے اپنی چادر سے ایک بُوٹی نکالی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو کھلائی۔ جیسے ہی آپ نے وہ بُوٹی کھائی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا چہرہ متغیر ہوگیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کپکپانے لگے پھر اس نوجوان نے دوبارہ وہی بُو ٹی کھلائی توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پیٹ میں شدید ہل چل ہوئی اور درد سا محسوس ہونے لگا ، پھر جب تیسری بار وہ بُوٹی کھلائی توسانپ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پیچھے کے مقام سے نکل گیا اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو سکون حاصل ہوا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس نوجوان سے پوچھا :”اے محسن! آپ یہ تو بتاؤ کہ آپ کون ہو؟آج آپ نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔”
وہ نوجوان کہنے لگا : ”کیا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے نہیں پہچا نا ؟ ارے میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نیک عمل ہوں۔جب
سانپ نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دھوکا دیا اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکی جان کے در پے ہوگیا تو تمام ملائکہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں عرض کی:” یااللہ عزوجل !اس کوسانپ کے شرسے محفوظ رکھ ۔”چنانچہ اللہ ربُّ العزَّت عزوجل نے مجھے حکم فرمایا: ” اے فلاں بندے کے نیک عمل! تو جاکر میرے بندے کی مدد کر اور اس سے کہہ کہ تو نے محض ہماری رضا کی خاطر نیکی کی، جا تیری اس نیکی کے بدلے ہم نے تجھے احسان کرنے والوں میں شامل کرلیا اور ہم تیرا انجام بھی محسنین کے ساتھ فرمائیں گے اور ہم تیرے دشمنوں سے تیری حفاظت کریں گے ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
وضاحت:یہ حکایت اس لئے پیش کی گئی ہے کہ گناہ ومعاصی سے انسان کو ہمیشہ دور رہنا چاہے ورنہ شیطان ہر طر ح انسان کو ورغلانے کی کوشش کرتاہے اور اس حکایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر انسان محض رضائے الٰہی عزوجل کے لئے نیکی کرے تو اللہ رب العزت جل جلالہ اس کی مدد فرماتا ہے ، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان انسا ن کا کھلا دشمن ہے وہ ہر صورت میں آکر ہرطر ح کی جھوٹی قسمیں کھاکر انسان کو ور غلاتا ہے لہٰذا سمجھ دار وہی ہے جو اپنے دشمن کی جانب سے ہر وقت چو کنا رہے ، اور اس کے ہر وار کو ناکام بنا دے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!