اعمال

جماعت کے احکام و مسائل

جماعت کے احکام و مسائل

(۱)’’عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلاۃُ الْجَمَاعَۃِ تَفْضُلُ صَلاۃَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِینَ دَرَجَۃً‘‘۔ (1)
حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا نے کہا کہ رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا کہ نماز باجماعت کا ثواب تنہا پڑھنے کے مقابلے میں ستائیس درجہ زیادہ ہے ۔ (بخاری، مسلم)
(۲)’’ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ صَلاۃٌ أَثْقَل عَلَی الْمُنَافِقِینَ مِنَ الْفَجْرِ وَالْعِشَائِ وَلَوْ یَعْلَمُونَ مَا فِیہِمَا لَأَتَوْہُمَا وَلَوْ حَبْوًا‘‘۔ (2)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز وں سے زیادہ کوئی نماز بھاری نہیں۔ اگر لوگ جانتے کہ ان دونوں نمازوں میں کیا اجر و ثواب ہے تو گھسٹتے ہوئے چل کر ان میں شریک ہوتے ۔ (بخاری، مسلم)
(۳)’’ عَنْ عُثْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّی الْعِشَائَ فِی جَمَاعَۃٍ فَکَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّیْلِ وَمَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فِی جَمَاعَۃٍ فَکَأَنَّمَا صَلَّی اللَّیْلَ کُلَّہُ‘‘ ۔ (3)
حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ جس نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی تو گویا وہ آدھی رات تک عبادت میں کھڑا رہا اور جس نے فجر کی نماز جماعت سے ادا کی تو گویا اس نے ساری رات نماز پڑھی۔ (مسلم)
(۴)’’ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَقَدْ
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ قسم ہے اس
َمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاۃِ فَیُؤَذَّنَ لَہَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَی رِجَالٍ وَفِیْ رِوَایَۃٍ لَا یَشْہَدُونَ الصَّلاۃَ فَأُحَرِّقَ عَلَیْہِمْ بُیُوتَہُمْ‘‘۔ (1)
ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں جب لکڑیاں جمع ہوجائیں تو نماز کا حکم دوں کہ اس کی اذان دی جائے پھر کسی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے ، پھر میں ان لوگوں کی طرف جائوں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے یہاں تک کہ ان کے گھروں کو جلادوں۔ (بخاری، مسلم)
(۵)’’ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْلَا مَا فِی الْبُیُوتِ مِنَ النِّسَائِ وَالذُّرِّیَّۃِ أَقَمْتُ صَلاۃَ الْعِشَائِ وَأَمَرْتُ فِتْیَانِی یُحْرِقُونَ مَا فِی الْبُیُوتِ بِالنَّارِ‘‘ ۔ (2)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رو ایت ہے کہ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے تو میں عشاء کی نماز قائم کر تا اور اپنے جوانوں کو حکم دیتا کہ جو کچھ (بے نمازیوں کے ) گھروں میں ہے آگ سے جلادیں۔ (احمد)
(۶) ’’ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ ثَلاثَۃٍ فِی قَرْیَۃٍ وَلَا بَدْوٍ لَا تُقَامُ فِیہِمُ الصَّلَاۃُ إِلَّا قَدْ اسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمُ الشَّیْطَانُ فَعَلَیْکَ بِالْجَمَاعَۃِ‘‘۔ (3)
حضرت ابوالدرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ جس آبادی یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور ان میں نماز جماعت سے نہ قائم کی جائے تو شیطان ان پر غالب آجاتا ہے ۔ لہذا جماعت کو لازم جانو۔ (احمد، ابوداود)

انتباہ :

عاقل، بالغ قادر پر جماعت واجب ہے ، بلا عذر ایک بار بھی چھوڑنے والا گنہ گار مستحق سزا ہے اور کئی بار ترک کرے توفاسق ، مردود الشہادۃ ہے ۔ اس کو سخت سزا دی جائے گی۔ اگر پڑوسیوں نے سکوت کیا(یعنی جماعت میں شریک ہونے کی تاکید نہیں کی اور خاموش رہے ) وہ بھی گنہ گار ہوں گے ۔ (1) (بہار شریعت، جلد سوم ص ۳۳۷)
اور تنویر الابصار و درمختار میں ہے : قِیلَ وَاجِبَۃٌ وَعَلَیْہِ الْعَامَّۃُ أَيْ عَامَّۃُ مَشَایِخِنَا وَبِہِ جَزَمَ فِی التُّحْفَۃِ وَغَیْرِہَا قَالَ فِی الْبَحْرِ وَہُوَ الرَّاجِحُ عِنْدَ أَہْلِ الْمَذْہَبِ۔ (2)
اور طحطاوی، ص:۱۷۱ میں ہے : ’’فِی البدَائعِ عَامۃ المَشَایخ عَلَی الْوجُوبِ وَبِہِ جزمَ فِی التُّحْفَۃِ وَغَیرِھَا وَفِی جَامِع الْفقہِ أعدل الأَقْوَال وَأَقْوَاھَا الوُجُوب‘‘۔ (3)
اورفتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص:۷۷ میں ہے :’’وَفِی الْغَایَۃِ قَالَ عَامَّۃُ مَشَایِخِنَا إنَّہَا وَاجِبَۃٌ وَفِی الْمُفِیدِ وَتَسْمِیَتُہَا سُنَّۃً لِوُجُوبِہَا بِالسُّنَّۃِ‘‘۔ (4)
اور اشعۃ اللمعات جلد اول ص:۴۵۸میں ہے :
شیخ ابن ہمام نقل کر دہ کہ اکثر مشائخ ما برین اندکہ جماعت واجب ست وتسمیۂ او بسنت بجہت آن ست کہ ثبوت وجوب آن بہ سنت است۔ (5)
یعنی شیخ ابن ہمام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے نقل فرمایا کہ ہمارے کثیر مشائخ کا مذہب یہ ہے کہ جماعت واجب ہے اور اس کا نام سنت اس وجہ سے ہے کہ اس کا وجوب سنت سے ثابت ہے ۔
٭…٭…٭…٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!