اسلام
حضرت سلیمان علیہ السلام اور ایک چیونٹی
حضرت سلیمان علیہ السلام اور ایک چیونٹی
حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ یہ اپنے مقدس باپ کے جانشین ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی نبوت اور سلطنت دونوں سعادتوں سے سرفراز فرما کر تمام روئے زمین کا بادشاہ بنادیا اور چالیس برس تک آپ تختِ سلطنت پر جلوہ گر ر ہے۔ جن و انسان و شیاطین اور چرندوں، پرندوں، درندوں سب پر آپ کی حکومت تھی سب کی زبانوں کا آپ کو علم عطا کیا گیا اور طرح طرح کی عجیب و غریب صنعتیں آپ کے زمانے میں بروئے کار آئیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:۔
وَوَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ وَ اُوۡتِیۡنَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ ؕ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیۡنُ ﴿16﴾ (پ19،النمل:16)
ترجمہ کنزالایمان:۔اور سلیمان داؤد کا جانشین ہوا اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی اور ہر چیز میں سے ہم کو عطا ہوا بیشک یہی ظاہر فضل ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہوا۔
وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ غُدُوُّہَا شَہۡرٌ وَّ رَوَاحُہَا شَہۡرٌ ۚ وَ اَسَلْنَا لَہٗ عَیۡنَ الْقِطْرِ ؕ وَ مِنَ الْجِنِّ مَنۡ یَّعْمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذْنِ رَبِّہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّزِغْ مِنْہُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیۡرِ ﴿12﴾یَعْمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ ؕ (پ22،سبا:12،13)
ترجمہ کنزالایمان:۔اور سلیمان کے بس میں ہوا کردی اس کی صبح کی منزل ایک مہینہ کی راہ اور شام کی منزل ایک مہینے کی راہ اور ہم نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا اور جنوں میں سے وہ جو اس کے آگے کام کرتے اس کے رب کے حکم سے اور جو ان میں ہمارے حکم سے پھرے ہم اسے بھڑکتی آگ کا عذاب چکھائیں گے اس کے لئے بناتے جو وہ چاہتا اونچے اونچے محل اور تصویریں اور بڑے حوضوں کے برابر لگن اور لنگر دار دیگیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام جن و انس وغیرہ اپنے تمام لشکروں کو لے کر طائف یا شام میں ”وادی نمل”سے گزرے جہاں چیونٹیاں بکثرت تھیں تو چیونٹیوں کی ملکہ جو مادہ اور لنگڑی تھی اس نے تمام چیونٹیوں سے کہا کہ اے چیونٹیو!تم سب اپنے گھروں میں چلی جاؤ ورنہ حضرت سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں بے خبری میں کچل ڈالے گا۔ چیونٹی کی اس تقریر کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین میل کی دوری سے سن لیا اور مسکرا کر ہنس دیئے۔ چنانچہ رب تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:۔
حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰی وَادِ النَّمْلِ ۙ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یّٰۤاَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوۡا مَسٰکِنَکُمْ ۚ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیۡمٰنُ وَ جُنُوۡدُہٗ ۙ وَ ہُمْ لَا یَشْعُرُوۡنَ ﴿18﴾فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنۡ قَوْلِہَا (پ19،النمل:18،19)
ترجمہ کنزالایمان:۔یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کے نالے پر آئے ایک چیونٹی بولی اے چیونٹیو!اپنے گھروں میں چلی جاؤتمہیں کچل نہ ڈالیں سلیمان اور ان کے لشکر بے خبری میں تو اس کی بات سے مسکرا کر ہنسا۔
درسِ ہدایت:۔اس قرآنی واقعہ سے چند اسباق ہدایات معلوم ہوئے۔
(۱) چیونٹی کی آواز کو تین میل کی دوری سے سن لینا یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا معجزہ ہے اور اس سے معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی بصارت و سماعت کو عام انسانوں کی بصارت و سماعت پر قیاس نہیں کرسکتے بلکہ حق یہ ہے کہ انبیاء کرام کا سننا اور دیکھنا اور دوسری طاقتیں عام انسانوں کی طاقتوں سے بڑھ چڑھ کر ہوا کرتی ہیں۔
(۲)چیونٹی کی تقریر سے معلوم ہوا کہ چیونٹیوں کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ کسی نبی کے صحابی جان بوجھ کر کسی پر ظلم نہیں کرسکتے کیونکہ چیونٹی نے ”وَھُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ ” کہا یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کی فوج اگر چیونٹیوں کو کچل ڈالیں گے تو بے خبری کے عالم میں لاشعوری طور پر ایسا کریں گے۔ ورنہ جان بوجھ کر ایک نبی کے صحابی ہوتے ہوئے وہ کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کریں گے۔ افسوس کہ چیونٹیاں تو یہ عقیدہ رکھتی ہیں کہ نبی کے صحابی جان بوجھ کر کسی پر ظلم نہیں کرسکتے۔ مگر رافضیوں کا گروہ ان چیونٹیوں سے بھی گیا گزرا ثابت ہوا کہ ان ظالموں نے حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس صحابہ پر تہمت لگائی کہ ان بزرگوں نے جان بوجھ کر حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اہل بیت پر ظلم کیا۔ (معاذاللہ)
(۳)یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا ہنسنا، تبسم اور مسکراہٹ ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ یہ حضرات کبھی قہقہہ مار کر نہیں ہنستے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(خزائن العرفان،ص۶۸۰ا،پ۱۹،النمل:۱۹)
لطیفہ:۔منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت قتادہ محدث رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو نہایت ہی بلند
پایہ عالم اور جامع العلوم علامہ تھے۔ بالخصوص علم حدیث اور تفسیر میں تو اپنا مثل نہیں رکھتے تھے۔ کوفہ تشریف لائے تو ان کی زیارت کے لئے ایک عظیم الشان مجمع جمع ہوگیا۔ آپ نے تقریر فرماتے ہوئے حاضرین سے کئی بار یہ فرمایا کہ ”سَلُوْا عَمَّا شِئْتُمْ” یعنی مجھ سے جو چاہو پوچھ لو۔ حاضرین پر آپ کی علمی جلالت کا ایسا سکہ بیٹھا ہوا تھا کہ سب لوگ دم بخود و ساکت و خاموش بیٹھے رہے مگر جب آپ نے بار بار للکارا تو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جو ابھی بہت کم عمر تھے خود تو کمال ادب سے کچھ نہ بولے مگر آپ نے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ حضرت قتادہ علیہ الرحمۃ سے یہ پوچھئے کہ وادیئ نمل میں جس چیونٹی کی تقریر سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام مسکرا کر ہنس پڑے تھے۔ وہ چیونٹی نر تھی یا مادہ!چنانچہ جب لوگوں نے یہ سوال کیا تو حضرت قتادہ علیہ الرحمۃ ایسے سٹپٹائے کہ بالکل لاجواب ہو کر خاموش ہو گئے پھر لوگوں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ ”وہ چیونٹی مادہ تھی” حضرت قتادہ علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ اس کا ثبوت؟ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس چیونٹی کیلئے قَالَتْ نَمْلَۃٌ مونث کا صیغہ ذکر کیا گیا ہے۔ اگر یہ چیونٹی نر ہوتی تو ”وَقَالَ نَمْلٌ” مذکر کا صیغہ ذکر کیا گیا ہوتا۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس دلیل کو تسلیم کرلیا اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی دانائی اور قرآن فہمی پر حیران رہ گئے اور اپنے بڑے بول پر نادم ہوئے۔