واقعات

بزرگوں کی نگاہ میں عہدۂ قضاکی حیثیت

حکایت نمبر211: بزرگوں کی نگاہ میں عہدۂ قضاکی حیثیت

حضرتِ سیِّدُناحَمَّادبن سَلَمَہ اور حَمَّادبن زَیْدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہماسے روایت ہے کہ” حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ گندم کی تجارت کیا کرتے تھے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمایا کرتے :” اگر پانچ بزرگ نہ ہوتے تو میں تجارت نہ کرتا ۔” پوچھا گیا کہ وہ پانچ بزرگ کون سے ہیں جن کی خاطر آپ تجارت کرتے ہیں ؟ ”فرمایا: ”حضرتِ سیِّدُنا سفیان ثوری، حضرتِ سیِّدُنا سفیان بن عُیَیْنَہ ،حضرتِ سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیَاض ،حضرتِ سیِّدُنا محمد بن سمّاک ، اورحضرتِ سیِّدُنا ابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔ ”
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تجارت کی غرض سے خُرَاسَان کی طرف جاتے ، جو نفع حاصل ہوتا اس سے اہل وعیال کاخرچہ اور حج کے لئے زادِ راہ وغیرہ نکال کر بقیہ ساری رقم ان پانچ دوستوں کی طرف بھجوادیتے۔ ایک سال آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خبر ملی کہ ابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عہدۂ قضاء قبول کرلیا ہے۔ اس اطلاع کے بعدآپ نہ توابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ملنے گئے اور نہ ہی انہیں رقم بھجوائی ۔ جب ابن عُلَیَّہ کو خبر ملی کہ حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہمارے شہر میں آئے ہو ئے ہیں تو فوراً آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ تو ان کی طرف دیکھا نہ ہی کلام فرمایا۔چنانچہ حضرت سیِّدُناابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ واپس چلے گئے ، اور دوسرے دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ایک رقعہ لکھا جس کی عبارت کچھ اس طر ح تھی:

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

”اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ہمیشہ اپنی اطاعت وفرمانبرداری میں رکھے اور سعادت مند ی عطا فرمائے ، میں تو آپ کے احسان اور صلہ رحمی کا کب سے منتظر تھا ، کل میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو الیکن آپ نے مجھ سے کلام تک نہ فرمایا۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ شاید آپ مجھ سے خَفا ہیں ۔میں آپ کی عنایتوں سے محروم ہورہا ہوں ۔خدارا! مجھے بتائیے کہ میری کونسی بات آپ کو ناپسند ہے تا کہ میں اپنی اصلاح کروں اور آپ سے معافی مانگو ں۔ ”
جب حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ابن عُلَیَّہ کا رقعہ ملا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواباََ چنداشعار لکھ کر بھیجے۔ جن کا ترجمہ یہ ہے: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اے دین کو باز بنا کر مساکین کا مال شکار کرنے والے ! تونے فانی دنیا اور اس کی لذتوں کو ایسے حیلے کے ذریعے اپنے لیے جائز قرار دیا جس کی وجہ سے دین چلا گیا۔، تُو تو بے وقوفوں کا علاج کرنے والا تھا لیکن اب خود مجنون ہوگیا ۔ کہا ں گئیں تیری وہ روایتوں کی لڑیاں جو ابنِ عون اور ابنِ سیرین کے بارے میں تھیں ؟ کہاں ہیں تیری وہ روایتیں اور باتیں جو سلاطینِ دنیا کے دروازوں کو چھوڑ نے کے بارے میں تھیں ؟ اگر تو یہ کہے کہ مجھے تو مجبور اََقاضی بنا یاگیا ہے تو یہ باطل ہے۔ ”

ابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ رُقعہ ملا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجلسِ قضاء سے اُٹھ کرہارون الرشید کے پاس آئے او رکہا: ”اے امیر المؤمنین! میرے بڑھاپے پر رحم فرمائیں ، اب میں عہدۂ قضاء کی ذمہ داری نہیں نبھا سکتا ، برائے کرم مجھ سے یہ ذمہ داری واپس لے لیں ۔” خلیفہ ہارون الرشید نے کہا :” شاید اس دیوانے (حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ) نے تجھے اس بات پر اُبھاراہے اور تیرے دل میں کھلبلی مچادی ہے ۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :” خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! انہوں نے مجھے بچا لیا ، انہوں نے مجھے بچالیا ،اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو بھی ہر مصیبت سے نجات عطا فرمائے۔ آپ مجھے اس عہدے سے بَر طرف کردیں۔” چنانچہ خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اِسْتِعْفٰی قبول کرلیا۔جب حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس واقعہ کا علم ہو ا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کووہ رقم بھجوادی جو ہر سال بھجوایا کرتے تھے ، ابن عُلَیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نام اسماعیل بن ابراہیم بن اَسَدِی تھا، آپ بصرہ کے رہنے والے تھے۔
ایک روایت یہ ہے کہ شریک بن عبداللہ نَخَعِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مشورہ طلب کیا کہ کیا میں قضاء کا عہد ہ قبول کرلوں ؟ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سختی سے منع فرمادیا ،جب حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان کے پاس سے واپس چلے گئے تو انہوں نے قاضی کا عہدہ قبول کرلیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خط لکھا کہ مجھے زبردستی قاضی بنایا گیا ہے ، شریک بن عبداللہ نَخَعِیّ علیہ رحمۃ اللہ القوی کا یہ خط پڑھ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مذکورہ اشعار لکھ کر بھیجے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!