اسلام
تقليد آئمہ ضروری ہے
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَمَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الْمُؤْمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَسَآءَتْ مَصِیۡرًا ﴿۱۱۵﴾
ترجمہ کنزالایمان: اور جو رسول کا خلاف کرے بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا(۱) اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے(۲) ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ ديں گے اور اسے دوزخ ميں داخل کريں گے اور کيا ہی بری جگہ پلٹنے کی۔(پ۵ ، النسآء:۱۱۵ )
تفسير:
(۱)اس سے معلوم ہوا کہ جس کو اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو اس پر احکام شرعيہ لازم نہيں، صرف عقيدہ توحيد کافی ہے کيونکہ اس نے رسول علیہ السلام کی مخالفت نہ کی نيز جو بے علمی ميں گناہ کر بیٹھے اس پر مخالفت رسول کا گناہ نہ ہو گا۔ مخالفت رسول جب ہے کہ ديدہ دانستہ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کی نافرمانی کرے۔ يہ بھی خيا ل رہے کہ مخالفت رسول فی العقيدہ کفر ہے اور فی العمل فسق۔
(۲)معلوم ہواکہ تقليد ضروری ہے کہ يہ عام مسلمانوں کا راستہ ہے۔ اسی طرح ختم فاتحہ، محفل ميلاد، عرس ِبزرگان عامۃ المسلمين کے عمل ہيں اور مسلمان انہيں اچھا سمجھ کر کرتے ہيں۔ لہٰذا يہ بہتر ہے۔ رب فرماتا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ اور حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمايا : اَنْتُمْ شُھَدَاءُ اللہِ فِی الْاَرْضِ اور فرمايا : مَارَاٰہُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَسَناً فَھُوَ عِنْدَاللہِ حَسَنٌ۔ جسے مسلمان اچھا سمجھيں وہ اللہ کے نزديک بھی اچھا ہے۔(تفسير نورالعرفان)