اسلام
حرف سلب کے موضوع ومحمول کا جز بننے یا نہ بننے کے اعتبار سے قضیہ حملیہ کی تقسیم
اصل کے اعتبار سے حرف سلب نسبت ایجابی کی نفی کیلئے استعمال ہوتاہے لیکن کبھی کبھی حرف سلب اپنے اصلی معنی سے عدول کرکے موضوع یا محمول یا دونوں کاجز بن جاتاہے اورپورے قضیہ کی نفی نہیں کرتا، حرف سلب کے قضیہ کا جز بننے یا نہ بننے کے اعتبار سے قضیہ حملیہ کی دوقسمیں ہیں۔
۱۔ قضیہ حملیہ معدولہ ۲۔ قضیہ حملیہ غیر معدولہ
۱۔ قضیہ حملیہ معدولہ:
وہ قضیہ حملیہ جس میں حرف سلب موضوع یا محمول یا دونوں کا جز بن رہاہو۔ اگر حرف سلب موضوع کا جز بن رہا ہو تو اسے قضیۃ معدولۃالموضوع کہیں گے۔(جیسے الَّاحَیُّ جَمَادٌ (لاحی جَمَاد ہے)۔اگر حرف سلب محمول کا جز بن رہا ہو تو اسے قضیۃمعدولۃالمحمول کہیں گے جیسے زَیْدٌ لاَعَالِمٌ (زید لاعالم ہے) اور اگر حرف سلب موضوع ومحمول دونوں کا جز بن رہا ہو تو اس قضیہ کو معدولۃ الطرفین کہیں گے۔ جیسے اللَّاحَیُّ لاعَالِمٌ ( لاحی لاعالم ہے) ،مذکورہ بالا امثلہ قضایا موجبہ کی تھیں اب سالبہ کی مندرجہ ذیل ہیں:
اللاحی لیس بعالم، العالم لیس بلاحی، اللاحی لیس بلا جماد۔
۲۔ قضیہ حملیہ غیر معدولہ:
وہ قضیہ حملیہ جس میں حرف سلب طرفین (موضوع، محمول) میں سے کسی کا بھی جز نہ بنے ۔جیسے: زَیْدٌ قَائِمٌ، زَیْدٌ لَیْسَ بِقَائِمٍ۔ اگر قضیہ موجبہ میں حرف سلب طرفین میں سے کسی کا جز نہ بنے تو اس قضیہ کو محصلہ کہتے ہیں جیسے زَیْدٌ قَائِمٌ اوراگر قضیہ سالبہ میں جز نہ بنے تواس کو بسیطہ کہتے ہیں۔ جیسے: زَیْدٌ لَیْسَ بِقَائِم۔
٭٭٭٭٭
مشق
سوال نمبر1:۔ حرف سلب کے موضوع یامحمول کا جز بننے یا نہ بننے کے اعتبار سے قضیہ حملیہ کی اقسام بیان کریں۔
سوال نمبر2:۔معدولۃالموضوع اور معدولۃ الطرفین کسے کہتے ہیں؟
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*