اسلام
غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تنبیہ
حضور پُر نور سیّد نا غوث اعظم مولائے اکرم حضرت شیخ محی الملّۃ والدّین ابو محمد عبد القادر جیلانی رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے اپنی کتاب مستطاب” فتوح الغیب شریف ”میں کیا کیا جگر شگاف مثالیں ایسے شخص کے لیے ارشاد فرمائی ہیں جوفرض چھوڑ کر نفل بجالائے۔ فرماتے ہیں: اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے کسی شخص کو بادشاہ اپنی خدمت کے لیے بلائے ، یہ وہاں تو حاضر نہ ہُوا اور اس کے غلام کی خدمتگاری میں موجود رہے۔ پھر حضرت امیرالمومنین مولی المسلمین سید نا مولیٰ علی مرتضیٰ کرم اﷲتعالیٰ وجہہ سے اس کی مثال نقل فرمائی کہ جناب ارشاد فرماتے ہیں : ایسے شخص کا حال اس عورت کی طرح ہے جسے حمل رہا جب بچّہ ہونے کے دن قریب آئے اِسقاط (یعنی بچہ ضائع)ہوگیا اب وہ نہ حا ملہ ہے نہ بچّہ والی۔ یعنی جب پُورے دنوں پر اگر اسقاط ہو تو محنت تو پُوری اٹھائی اور نتیجہ خاک نہیں کہ اگر بچہ ہوتا تو ثمرہ (یعنی پھل)خود موجود تھا حمل باقی رہتا تو آگے امید لگی تھی ، اب نہ حمل نہ بچّہ، نہ اُمید نہ ثمرہ
اور تکلیف وہی جھیلی جو بچّہ والی کو ہوتی۔ ایسے ہی اس نفل خیرات دینے والے کے پاس سے روپیہ تو اٹھا مگر جبکہ فرض چھوڑا یہ نفل بھی قبول نہ ہُوا تو خرچ کا خرچ ہوا اور حاصل کچھ نہیں۔ اسی کتاب مبارک میں حضور مولیٰ رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ: فان اشتغل بالسنن والنوافل قبل الفرائض لم یقبل منہ واھین یعنی فرض چھوڑ کر سنّت و نفل میں مشغول ہوگا یہ قبول نہ ہوں گے اور خوار کیا جائے گا۔
(شرح فتوح الغیب،ص۵۱۱تا۵۱۴)
حضرت شیخ الشیوخ امام شہاب الملّۃ والدّین سُہروردی قدس سرہ العزیز عوارف شریف کے باب الثامن والثلثین میں حضرت خواص رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے نقل فرماتے ہیں: بلغنا ان اﷲلایقبل نافلۃحتی یؤدی فریضۃ یقول اﷲتعالیٰ مثلکم کمثل العبد السوء بدء بالھدیۃ قبل قضاء الدین۔ یعنی ہمیں خبر پہنچی کہ اﷲعزّوجل کوئی نفل قبول نہیں فرماتا یہاں تک کہ فرض ادا کیا جائے، اﷲتعالیٰ ایسے لوگوں سے فرماتاہے کہاوت تمھاری بد بندہ کی مانند ہے جو قرض ادا کرنے سے پہلے تحفہ پیش کرے۔
(عوارف المعارف،ص۱۹۱)