اسلام
کاميا بی کا راز
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِفُرُوۡجِہِمْ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿۵﴾اِلَّا عَلٰۤی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیۡمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ﴿۶﴾
ترجمہ کنزالایمان: بیشک مراد کو پہنچے ايمان والے (۱)جو اپنی نماز میں گِڑگِڑاتے ہیں(۲)اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے (۳)اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں(۴) اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں(۵) مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں(۶) کہ ان پر کوئی ملامت نہیں ۔(پ۱۸، المؤمنون: ۱تا۶)
تفسير:
(۱) اس طر ح کہ جنت اور وہاں کی نعمتوں کے مستحق ہوئے ۔دیدار الہٰی کے حق دار بنے، یا دنیا میں مقبول الدعاء ہوئے اور ان کی زندگی کامیاب ہوئی۔ معلوم ہوا کہ ایمان اورتقویٰ دونوں جہان کی کامیابیوں کا ذریعہ ہے ۔اس سے دعائیں قبول ، آفات دور ،مرادیں حاصل ہوتی ہیں ۔ رب فرماتا ہے وَ مَنۡ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا ۙ﴿۲﴾
(۲) اس طر ح کہ نماز کی حالت میں ان کے دلوں میں رب کا خوف ، اعضاء میں سکون ہوتا ہے، نظر اپنے مقام پر قائم ہوتی ہے،نماز میں عبث کام نہیں کرتے ۔ دھیان نماز میں رہتا ہے ، نماز قائم کرنے کے یہ ہی معنیٰ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نصیب کرے ۔
(۳)یعنی ایساکام نہیں کرتے جس میں دینی یا دنیا وی نفع نہ ہو ، خیال رہے کہ مضر کام باطل ہے او ربے فائدہ کا م لغو ، تقویٰ کے لئے ان دونوں سے بچے ۔
(۴)یعنی ہمیشہ زکوٰۃ دیا کرتے ہیں ۔
(۵) اس طر ح کہ زنا اور لوازم زنا سے بچتے ہیں حتٰی کہ غیر کا ستر دیکھتے نہیں۔
(۶) اس سے معلوم ہوا کہ مؤمن اپنی شرعی لونڈی سے صحبت کرسکتا ہے۔ مگر مولاۃ عورت اپنے غلام سے صحبت نہیں کر اسکتی ۔