اسلام

صوبۂ کرناٹک میں حضورشیخ الاسلام کی دعوتی وتبلیغی خدمات

صوبۂ کرناٹک میں حضورشیخ الاسلام کی دعوتی وتبلیغی خدمات

مولانا سیداحمدرضاسر قاضی
صدرادارۂ خدمت خلق ہبلی

سلسلۂ اشرفیہ اپنے دامن گہربہارمیں رشدوہدایت کے سوتے ، محبت وخلوص کےرنگارنگ پھول،امن واماں کے چشمے لئے ہوئے ۔سلسلۂ بہشتیہ کی یہ شاخ ہرلحاظ سے تمام سلاسلِ طریقت میں ممتازومنفرد ہے۔ دعوتی وتبلیغی خدمات کاایک لامتناہی سلسلہ یہاں نظرآتاہے ۔اس سلسلے کی بانی مبانی حضورمخدو م سید اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ نے پوری زندگی دعوت وتبلیغ کے لیے وقف کی۔ ممتاز محقق وعالم دین حضرت ڈاکٹر مولانا محمداشرف جیلانی (کراچی )اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے میں حضورمخدوم اشرف کی کرناٹک (گلبرگہ)میں آمدپریوں اپنی تحقیق بیان کرتے ہیں۔
سیداشرف جہانگیرسمنانی آپ (خواجہ بندہ نواز)سے ملاقات کے لیے دومرتبہ گلبرگہ شریف تشریف لائے اورآپ سے مختلف مسائل پرگفتگو کی اورچنداختلافی پر مسائل پرعلمی مباحثہ بھی کیا اورآپ سے بہت متاثرہوئے انہوں نے بڑی عزت واحترام سے آپ کاذکرکیاہے 
حضرت نظام یمنی علیہ الرحمہ ان دونوں حضرات کی ملاقات کاذکرکرتے ہوئے لطائف اشرفی میںلکھتے ہیں
’’حضرت قدوۃ الکبریٰ می فرزندفرمودندکہ چوںشرف ملازمت حضرت میرسیدمحمدگیسودراز مشرف شدیم آں مقدار حقائق ومعارف کہ ازخدمت دی بحصول پیوست ازہیچ مشائخ دیگر نبود،سبحان اللہ چہ جذبہ قومی داشتہ اندمدتی دروفایت دکن بقصبہ گلبرگہ اتفاق نزول افتادہ ومرتبہ درآں دیارگذررایات علائی شدہ۔
(ترجمہ)حضرت قدوۃ الکبریٰ فرماتے تھے جب ہم حضرت سیدمحمدگیسودرازکی ملازمت سے مشرف ہوئے ۔توحقائق ومعارف کی وہ مقدار جوآپ سے حاصل ہوئی دوسرے مشائخ سے نہیں حاصل ہوئی سبحان اللہ کیاقومی جذبہ رکھتے تھے ایک عرصہ تک دکن میں آپ سے ملاقات رہی اوردومرتبہ اس دیارمیں علائی قافلہ پہنچا‘‘( صفحہ 115)
ان دودوروں میں حضورمخدوم پاک نے گوگی شریف ودیگر شہروں کے بھی دورہ فرمائے،کئ لوگ آپ کے دستِ مبارک پربیعت کی سعادت حاصل کی اور مختلف صوفیاکوتاجِ خلافت عطافرمائے۔خلفامیں حضرت سیدچنداحسینی علیہ الرحمہ گوگی شریف ودیگر اصحاب یہ سعادت میسرآئی۔ایک جہاں کوسیراب کیا ،اسی دریائے تصوف سے فیض یافتگان میں خاندان سگرشریف، خانوادۂ گوگی شریف کے علاوہ کچھ مشہورصوفیاجنہوں نے کرناٹک بھرمیں دعوتی وتبلیغی خدمات کے لافانی نقوش مرتب کئے۔ 
دکن میں حضرت مخدوم اشرف سمنانی قدس سرہ العزیز کے برادرزادے حضرت نوربخشی عرف محمدعلیہ الرحمہ کی آمد حضرت نورالعین عبدالرزاق علیہ الرحمہ کے ایماپرہوئی۔ 
روضۃ الاولیا بیجاپور کے مؤلف رقمطراز ہیں کہ 
آپ (حضرت ابوالبرکات سیدشاہ حافظ حسینی بیجاپوری)سیداشرف سمنانی کے برادرزادے ہیں بیجاپوردکن میں ایسے زمانے میں تشریف لائے کہ اسلام کی غربت کی حالت میں تھاہرطرف ہنودکاتسلط۔ آپ کے ہمراہ چندفقرا تھے ،ہنودآپ کی ایذارسانی کی فکرکرتے تھے مگرعنایت الٰہی شامل حال تھی کچھ نہیں کرسکتے تھے ۔صحرامیں فروکش تھے ۔زمین کافرش آسمان کاسقف تھا،ایک روز شدت سے بارش ہونے لگی ۔آپ کے فرودگاہ کے اطراف ایک دائرہ نما خط کھینچ دیا دائرہ کے اطراف میں مینہ برستاتھااوردائرہ محفوظ تھا، سب فقرا آرام سے رہے کسی کوتکلیف نہ ہوئی ۔،ہنودآپ کی یہ  کرامت دیکھ کر متعقد ہوئے۔ حسن ارادت سے آپ کوشہرمیں جگہ دی ۔آپ نے سکونت اختیارکی اورہدایت ودعوت اسلام کاچراغ روشن کیا۔ سینکڑوں گمراہوں نے بیعت وتوبہ کی اورہنود بھی اسلام قبول کرنے لگے۔
حضرت نوربخشی علیہ الرحمہ کے آل سے ممتاز صوفیامیں سے کچھ نام یہ ہیں۔حضرت حمزہ حسینی (بیجاپور)حضرت عبدالرزاق ،(بیجاپور) حضرت شاہ قادری(ہلگور) حضرت علاؤالدین شاہ قادری (بنکاپور ) وغیرہ۔
مرشد شیخ الاسلام حضورسرکارکلاں مختاراشرف کادورہ دکن:
جلالۃ العلم والعمل علامہ سیدحبیب اللہ قادری رشیدپاشاہ علیہ الرحمہ میرمجلس انتظامی جامعہ نظامیہ وصدر المصححین دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد کی خصوصی تحریری دعوت پر 1982 میں عر س حضرت شیخ الاسلام علامہ انواراللہ فاروقی وسالانہ جلسہ تقسیم اسنادجامعہ نظامیہ حیدرآباد کے موقع پرحیدرآباددکن میں آمدہوئی۔ایک ہفتہ سے زائد عرصہ نظامیہ میں قیا م فرما رہے۔ ظن غالب  ہے کہ اس موقع پر حضرت خواجہ بندہ نواز کے آستانۂ عالیہ پر حاضری دی۔اس کے علاوہ حضورسرکارکلاں پونہ ودیگرمقامات کے بھی دورے فرمائے۔ 
حضورمحدث اعظم ہندکے دورہ دکن وہبلی: 
جہانِ علم وعمل کا آفتاب ،میدان خطابت کا شہسوارحضور محدث اعظم ہند نے بھی کرناٹک کے مختلف علاقوں کے دورہ فرمائے ۔ایک روایت کے مطابق بلہاری ،ہوسپیٹ، کرنول ، ادھونی، وغیرہ علاقوں میںہرسال تشریف لاتے مریدین کی اصلاح فرماتے۔
الحاج قاضی عبد الصمد اشرفی ہبلی کی اطلاع کے مطابق، شہرہبلی میںحضورمحدث اعظم ہند کی آمد ۱۱ربیع الاول ۱۳۸۱مطابق23اگست1961کو مولاناتقی الدین علیہ الرحمہ کی کوششوں سے ہوئی ۔حضور محدث اعظم ہندمولانا تقی الدین علیہ الرحمہ کے ایثار وخدمات کو دیکھ کربرجستہ فرمایا’’ مولاناتقی الدین یہ ایسی مشین ہے جو کبھی بند ہونے والی نہیں‘‘
ہبلی واطراف میں یہی پہلااورآخری سفررہا۔ ۱۲ربیع اول ہبلی ٹاؤن ہال میں ادائے مصطفیٰ ومیلاد رسولﷺ کے موضوع پرشاندارخطاب فرمائے، حاضرین وسامعین عش عش کراٹھے۔حضرت کا اندازتکلم ایسا تھاکہ مجمع عشق مصطفیٰ ﷺ میں سرشار نظرآرہاتھا۔۱۳ربیع الاول پنجار گلی میں قاضی اسداللہ مرحوم کی کوششوں سے کرایہ کے مکان میں دارالعلوم غوثیہ کاافتتاح فرمائے ۔ماقبل پنجارگلی ہی میں دارالعلوم دستگیریہ کے نام سےیہ ادارہ قائم تھااورکچھ وجوہات کے بناپرنذرزمانہ ہوگیاتھا۔پنجار گلی میںجناب مٹگیار صاحب کے مکان میں قیام پذیررہے۔حضور محدث اعظم نمازجمعہ کی امامت جامع مسجدپنجارگلی میںفرمائی۔ بہ سبب علالت ۱۴ ربیع الاول کو واپسی ہوئی۔حضور محدث اعظم کی واپسی کاسماں ایک روح پرور و درد گیں تھا۔ مریدین ومعتقدین آہ زاری میں تھے۔ اپنے مرشد کی مختصر سی صحبت ہی ان کے ایمان وعقیدے ،دین ودنیا کی کامیابی کے لئے کافی تھی۔ ۔اس موقع پر کئی افراد نے حضورمحدث اعظم کے دست حق پرست پر بیعت کر کے داخل سلسلۂ اشرفیہ ہوئے۔معلوم مریدان محدث اعظم ہبلی واطراف کے اسماء یہ ہیں
مرحومین :مرحوم اسد اللہ قاضی۔احمدقاضی،حافظ قاضی، یعقوب قاضی،منشی عبدالرحمٰن ،عبدالقادر پٹویگار(ہانگل)،عبدالقادر خطیب،سیدعبدالرحمٰن باندارخلیفہ شیخ الاسلام،پیرمحمدنداف، ندیم اللہ ،عبدالکریم لکونڈی قادریہ مسجد،عبدالرزق قاضی،عطار صاحب، بابن صاحب قاضی ہسور،ہبلی۔
باحیات:عبدالعزیزبوجگر(گنتگل)الحاج عبدالصمدقاضی(خلیفہ حضورشیخ الاسلام) بنکارپور حاجی صاحب (دھارواڑ)صاحبان۔
حضورشیخ الاسلام کا دورئہ کرناٹک:
 سرکارقدوۃ الکبری کے نور نظر ،حضرت سرکار کلاں کے چہیتے مریدوخلیفہ ، حضورمحدث اعظم ہند کےسچے جانشین حضور شیخ الاسلام کی شخصیت عالمی سطح پر عبقری شخصیت ہے۔ عرصۂ درازپر محیط آپ کی دعوتی وتبلیغی خدمات اور دین اسلام کی اشاعت کے حوالے سے عموماً عالمی پیمانے پر خصوصاً ریاست کرناٹک کے حوالے سے ان کی کوششیں ناقابل فراموش وانمٹ تصور کی جاسکتی ہیں انہوں نے دعوت وتبلیغ کواپنامقصدِ حیات بنایااوراس مقصدکے حصول کے لیے اپنی ساری حیات صرف کردی وہ مجاہد صفت داعی ومبلغ اسلام وسنیت ہیں۔حضورشیخ الاسلام عظیم داعی ومبلغ اورخطیب ومفکر ومدبرہیں جن کے خطابت کی گھن گھرج نے ایک عالم کومتاثرکیا ہے ان کی دعوتی وتبلیغی خدمات کے نقوش ایشیا سمیت تقریباً تمام براعظموں میں پائے جاتے ہیں جن کے کرداروعمل اور خلوص واخلاق نے بے شماربے دینوں کو کودیندار،  غیرمسلموں کومسلمان ،بدعملوں کوسنت رسول ﷺ کاعامل بنایاجن کے تفکروتدبر نے قوم مسلم کوجہاں گیری وجہاں بانی کاسلیقہ بخشا۔صرف داعی ہی نے نہیں بلکہ داعی گر بھی ہیں ۔جدید ومادی دورمیں دعوت وتبلیغ کے مسدود راہوں کواپنے فتاوی وملفوظات کے ذریعے حیاتِ نوعطافرمائے۔دوراندیشی کہیں فراست مومنہ کی ادا تھی کہ پیشتر جوخطوط دعوت دین متعین فرمائے ان خطوط کی ہمہ گیریت وگہرایت حاسدین کو آج ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
حضور شیخ الاسلام بیک وقت ایک کامیاب داعی اسلام بھی ہیں عالم باعمل صوفی باصفا بھی ہیں مفکربھی ہیں مدبر بھی ہیں رہبر بھی ہیں رہنما بھی ہیں مفسر قرآن بھی ہیں پیرکامل بھی ہیں اورخطیب بے مثال بھی ہیں اردوعربی فارسی ودیگر زبان وادب پرمہارت تامہ رکھتے ہیں۔حضورشیخ الاسلام کے خطبات عالیہ اردوئے معلی کے نمونے ہیں ۔جس سے ان کی تبحرعلمی ،ژراف نگاہی کا پتہ چلتاہے۔
سرزمین کرناٹک میں حضور شیخ الاسلام کی دعوتی وتبلیغی دوروں کی فہرست کافی طویل ہے۔ اس مضمون میں ریاست کرناٹک کے صرف بعض حصوں میں حضورشیخ الاسلام کی دعوتی وتبلیغی خدمات کاایک سرسری جائزہ لیں گے ،یوں تویہ موضوع نہایت وسیع ہے مگر آنے والے محققین و قلمکار حضرات کے لئے نشانِ خاطر پیشِ خدمت ہیں۔
ہبلی:
حضورمحدث اعظم ہند علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد تمام اکابرین علماء ومشائخین نے حضور شیخ الاسلام کی ذہانت وفطانت اور سرپرکرمِ رب کوسایہ فگن دیکھ رہے تھے۔ اسی لئے ہر اکابر نے آگے بڑھ کر حضورشیخ الاسلام کو ہاتھوں ہاتھ لئے۔چاہے خاندانِ برکاتِ با برکت ہو یا خانوادۂ رضویہ ہو۔یقینا حضور شیخ الاسلام خاندان برکات، خانوادۂ رضویہ ، سلسلۂ عالیہ چشتیہ بہشتیہ کا حسین سنگم ہیں۔ حضورسیدالعلما کافیض، حضورمفتی اعظم کاتقویٰ ، حضور محدث اعظم کے جانشین کانام سیدمحمدمدنی اشرفی جیلانی ہے۔
1962میں حضورسیدالعلماعلامہ آل مصطفیٰ مارہروی علیہ الرحمہ کے ہمراہ حضورشیخ الاسلام پہلی بارکرناٹک تشریف لائے۔حضورشیخ الاسلام کاقیام مرحوم سید عبدالرحمٰن باندار(خلیفۂ حضور شیخ الاسلام )کے یہاںبنکاپورچوک میں ہوا۔ایم جی مارکیٹ میں حضورسیدالعلما وشیخ الاسلام نے عوام سے خطاب فرمایا۔سر زمین ہبلی میںحضور شیخ الاسلام کا یہ پہلادورہ وپہلاخطاب تھا۔
شہرہبلی میں پانچ ایسی بڑی کانفرنسیس ہوئیں جن میں دیگر اکابر علماء و مشائخ کے علاوہ حضور شیخ الاسلام کی بھی تشریف آوری ہوئی۔
سنی کانفرنس:
دارلعلوم غوثیہ کی جانب سے1964ءمیں بمقام ٹاؤن ہال ہبلی میں آ ل انڈیاسنی کانفرنس منقعدہوئی ۔جس میں حضرت سیدالعلما حضورآل مصطفیٰ مارہروی، حضورمفتی اعظم،مفتی برہان الحق جبلپوری،مفتی احمدیارخاں،شارح بخاری مفتی شریف الحق علیہم الرحمۃ والرضوان ودیگر چوٹی کے علما و اکابرکی تشریف آوری ہوئی تھی۔اس کانفرنس سے سنیت کو خوب فروغ ملا۔وہابیت کے بڑھتے قدم کو روک لگی۔بے شمارلوگ بدکاریوںسے تائب ہوئے،سینکڑوں گمرہی وبدعقیدگی سے تائب ہوکر اہل سنت کے خیمے میں داخل ہوے۔
آل کرناٹک محدث اعظم کانفرنس:
1989میں محدث اعظم کانفرس25۔26 ڈسمبرکو یہ کانفرنس حضور شیخ الاسلام کی سرپرستی میںمنعقد ہوئی جس میں حضرت سید تنویراشرف اشرفی جیلانی،صوفی ملت حضرت سیدجہانگیراشرف،پروفیسر سید طارق سعید صاحب،  حضرت سیدحسن مثنی میاں، حضرت مولاناراشد مکی اشرفی ودیگرسادات ومشائخین کچھوچھہ کے علاوہ مشائخ دکن حضرت سید کاظم پاشاہ صاحب ،حضرت سید باشاہ پیراں علیہ الرحمہ شریک فرماہوئے ۔ہزاروں افراد داخل سلسلہ ہوئے۔ اس کانفرنس کی بدولت قرب وجوار کاساراعلاقہ اشرفی زار ہوگیا۔ہرطرف خوشبوئے سمنان مہکنی لگی۔
 آل کرناٹک سنی مشائخ کانفرنس
حیدرآباددکن اور کرناٹک کے پیشتر خانقاہیں شیعت آمیز ہوتی جارہی تھی اور اپنے اکابرین کے مسندنشینوں سے عوام اہل سنت کااعتبار مفقودہوتاجارہاتھا ، جانشینی کامقصد صرف اور صرف مریدوں کا سرمایہ بٹورناتصورکیاجارہاتھا اور خانقاہیں علم دین سے خالی اورروحِ تصوف سے عاری ہوتی جارہی تھیںاس کی بحالی وقت کی  اشدضرورت تھی مدبروقت حضور شیخ الاسلام نے اس بات کومحسوس کرتے ہوئے اپنےخلیفہ مفکراہل سنت مولانا قاضی سیدشمس الدین برکاتی قاضی ٔ شہر ہری ہر کو کچھ اہم ہدایات کے ساتھ اس دوروزہ کانفرنس کے انقعاد کاحکم عنایت فرمائے۔اس کانفرنس کامقصد عموماً مشائخین وسادات کرام میں اتحادواتفاق نیز سجادگانِ خانقاہ کو علم شریعت سے آراستہ وپیراستہ کرناتھااورشیعیت کے اثرکوزائل کرناتھا۔الحمد للہ اس کانفرنس کے دورس نتائج برآمدہوئے سجادگان وخانقاہوں میں اتحاد و اتفاق قائم ہوا اور خانقاہیںایک دوسرےسے قریب ہوئے ۔اس کانفرنس کی کامیابی میں حضرت پٹن والے پیراں اور نورالمشائخ حضرت سیدباشاہ پیراں نوراللہ مرقدہ کی نمایاں خدمات رہیں۔ ریاست بھر کے خانقاہوں سے 500سے زائد مشائخین نے شرکت کی جس میں حضور شیخ الاسلام  اور حضور غازیٔ ملت سیدمحمدہاشمی میاں اوربارگاہِ بندہ نواز کے سجادہ حضرت سیدمحمدالحسینی علیہ الرحمہ ، بارگاہِ ہاشم پیر کے سجادہ حضرت سید عبداللہ حسینی علیہ الرحمہ ، بارگاہِ نورِ دریا علیہ الرحمہ رائچور سے ڈاکٹر سیدتاج نورقادری صاحب حضرت مولانا سید کاظم باشاہ موسوی حیدرآباد وغیرہا زینت محفل رہے۔مدنی میاں عربک کالج کے میدان میںہزاروں کاٹھاٹھیں مارتاہوا سمندرتھا ۔جس نے پہلی بارایک ہی اسٹیج پر اتنے خانقاہوں کے سجادگان کو دیکھا۔
غوث وخواجہ کانفرنس
آل کرناٹک سنی مشائخ کانفرنس کی کامیابی کےبعد اسی طرز ومنہج ، عالمی سطح پر اس کانفرنس کاانقعاد عمل میں آیا۔ اس کانفرنس کا مقصد عالمی طورپر مشائخین میں دینی بیداری ،آپسی روابط وتعلقات پرمشتمل تھا سن 2000؁ میں یہ دوروزہ کانفرنس مدنی میاں عربک کالج کے گراؤنڈ میں منعقدہوئی۔ جس میں سینکڑوں خانقاہوں سے نمائندوں کے ساتھ ساتھ ہندالولی خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمہ کے سجادہ حضرت سیدمہدی میاں، بارگاہِ غوثیت مآب سرکارعبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کے سجادہ نشین حضرت نقیب الاشرف سیدظفر احمدالگیلانی صاحب قبلہ، حضور شیخ الاسلام اور غازیٔ ملت ودیگر خانوادۂ اشرفیہ کے سجادگان بھی شریک بھی رونق محفل رہے۔ اس کانفرنس میں ہزاروں کی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔
رحمتِ عالم کانفرنس
یہ دوروزہ کانفرنس 2007میں منقعد ہوئی جس میں حسب سابق خانقاہوں کےکئ نمائندے شریک محفل رہے ۔ہزاروں افراد کے حال وقال کی اصلاح ہوئی ۔ بے شمار لوگ تائب ہو کر داخلہ سلسلہ ہوئے۔اگرمنصفانہ جائزہ لیا جائے تو یہ کانفرنس پہلے کانفرنس کی طرح دوررس نتائج مرتب نہ کرسکی۔ اس کانفرنس میں بھی دیگر 
ہبلی کے علاوہ دھارواڑمیںحضورشیخ الاسلام کاپہلادورہ 1964؁ء میں ہوا۔1969 ، 1987، 1989، 1995، 1998، 2005 میں بالترتیب سات دورے فرمائے ۔حضرت دوباراپنے مخصوص لب ولہجہ میں خطاب بھی فرمائے۔ 1987؁ کے کسی ماہ ودن میں حضرت کاخطاب اکیّ پیٹ علاقہ میں ہوا۔ اور دوسراخطاب 1998؁ء میں جناب جیلانی سوداگر اشرفی کی بہن کی شادی موقع پر ہوا۔ان دوروں نے شہردھارواڑکی سنی عوام میں ایک نئی جان پھونکی۔عوام پروانہ وارحضرت کی محفل میں رہتے۔ 
اسکےعلاوہ حضورشیخ الاسلام کی دینی،علمی و روحانی دورے کرناٹک بھر کےمختلف مقامات،تڑس،شیگاؤں،بلگام،ہاسپیٹ،گلبرگہ،بلاری،ڈانڈیلی،داونگیرہ،ہریہر،یلاپور،کاروار،
انکولا،سرسی ،بھاگیواڑی،گدگ، بیجاپور،بنگلور، میسور ،اپونی، وغیرہ  میں ہوتے رہے،غرض یہ کہ کرناٹک کا کوئی ایسا ضلع باقی نہیں جہاں حضور شیخ الاسلام کا دورہ نہ ہوا ہو۔
مدنی میاں عربک کالج کاقیام
مریدین ومتوسلین حضورشیخ الاسلام کی بارگاہ عالیہ جمالیہ میں ہرباراصرار کرتے کہ ایک ادارہ جس کےذریعے فروغ سنیت ہو نونہالان اسلام دینی تعلیم وتربیت سے آراستہ ہوں۔حضورشیخ الاسلام ہمیشہ یہ کہہ کرٹال جاتے کہ ہبلی میں والد بزرگوارکاقائم کردہ ادارہ پہلے ہی سے ہے تواب مزید کسی ادارہ کی ضرورت نہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ اصرار بھی بڑھتاگیا اورمصلح وقت ،داعی سنیت حضور شیخ الاسلام نے جب ادارہ کی ضرورت محسوس کی تو اجازت مرحمت فرمادی1983 ؁میں مدنی میاں عربک کالج کے نام سے ایک دینی ادارہ تڑس میں قائم ہوا۔ابتدائی تین سالوں ہی میں یہ ادارہ زمانے کے سردگرم حالات سے گزرتاہوا 1986 میں یلاپورہبلی منتقل ہوا جہاں کامیابی وکامرانی کےساتھ 4سال سےکچھ زائد عرصہ تک پورے علاقہ کو اپنی آب وتاب سے چمکانے کے بعد1991میں کندگول کراس میںموجودہ اراضی پرمنتقل ہوا۔
واقعات:
۱)کافر مسلمان ہوگیا
اس واقعے کے راوی مولاناقاضی سیدشمس الدین صاحب قبلہ ہیں:
ایک مرتبہ نورِ عینِ مخدوم حضورشیخ الاسلام کولار تشریف لے جارہے تھے ۔سفر ٹرین کاتھا ٹی ٹی مسافرین کے ٹکٹ چیک کرتے ہوئے حضورشیخ الاسلام کی بوگی میں آیا ۔چہرۂ حضورشیخ الاسلام کو دیکھ کر اس کے دل کی بند آنکھیں کھل گئیں۔ کفر وضلالت کی تاریکیاں چھٹتی نظر آنے لگیں ۔ مشامِ جاں خوشبوئے آل نبی سے معطر ہونے لگا۔ سیدھے حضور شیخ الاسلام کے قدموں میں گرگیا اور عرض کیا حضور اب مزید تاریکیوں میں نہیں بھٹک سکتا ، آپ کے چہرۂ زیبانے اسلام کی حقانیت سے آشنا کرا دیا ۔ مجھے کلمہ پڑھا کر داخل اسلام کرلیں۔ حضورشیخ الاسلام نے کلمہ پڑھایا اور وہ آپ کے دست مبارک پر تائب ہوکر مسلمان ہوگیا۔
سادگی کاپیکر
 ایک مرتبہ حضور شیخ الاسلام کا سفر ہوسپیٹ سے ہبلی کاتھا ۔ جس ٹرین سے حضرت کی تشریف آوری ہو رہی تھی اس کا معمول تھا کہ کبھی وقت پر نہیں آتی اور تاخیر سے آتی ۔اتفاق سے اس روز وہ گاڑی وقت سے پندرہ منٹ پہلے آ گئی اور مریدین و متوسلین اس خیال سے اسٹیشن پہنچنے میں تاخیر ہوی کہ گاڑی تو لیٹ آئے گی۔اتفاق سے وہ گاڑی وقت پر آگئی اورحضورشیخ الاسلام ٹرین سے اتر گئے۔باہر دیکھا تو کوئی نظر نہیں آیا۔ حضرت آٹو سے خانقاہ آگئے او ر ادھرمریدین اسٹیشن پہنچے۔مریدین میں سراسیمگی و بے چینی پیدا ہو گئی ۔ اور ہر ایک ندامت سے سر جھکائے حضور شیخ الاسلام کے روبرو مجرموں کی طرح کھڑا ہے۔ حضرت نے دائمی تبسم فرمایا اور کوئی گلا شکوہ نہ فرمایا اور نہ ناراض ہوے۔ 
موجودوہ دور کے داعیان اسلام و مبلغین اہل سنت میں حضورشیخ الاسلام جیساداعی ومبلغ کہیں نہیں۔
جو کچھ کہا تیرا حسن ہوگیا محدود 

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!