اسلام
آیت تیمم کا نزول
ابن عبدالبر و ابن سعد و ابن حبان وغیرہ محدثین و علماء سیرت کا قول ہے کہ تیمم کی آیت اسی غزوہ مریسیع میں نازل ہوئی مگر روضۃ الاحباب میں لکھا ہے کہ آیت تیمم کسی دوسرے غزوہ میں اتری ہے۔واﷲ تعالیٰ اعلم۔(3)(مدارج النبوۃ ج ۲ ص۱۵۷)
بخاری شریف میں آیت تیمم کی شان نزول جو مذکور ہے وہ یہ ہے کہ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ہم لوگ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے جب ہم لوگ مقام ”بیداء” یا مقام” ذات الجیش” میں پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گر گیا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور کچھ لوگ اس ہار کی تلاش میں وہاں ٹھہر گئے
اور وہاں پانی نہیں تھا توکچھ لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس آ کر شکایت کی کہ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کیا کیا؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو یہاں ٹھہرا لیا ہے حالانکہ یہاں پانی موجود نہیں ہے،یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میرے پاس آئے اور جو کچھ خدا نے چاہا انہوں نے مجھ کو (سخت وسست) کہااور پھر (غصہ میں) اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کونچا مارنے لگے اس وقت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میری ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر آرام فرما رہے تھے اس وجہ سے (مار کھانے کے باوجود) میں ہل نہیں سکتی تھی صبح کو جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو وہاں کہیں پانی موجود ہی نہیں تھاناگہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر تیمم کی آیت نازل ہو گئی چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور تمام اصحاب نے تیمم کیا اور نماز فجر ادا کی اس موقع پر حضرت اسید بن حضیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے (خوش ہو کر) کہا کہ اے ابوبکر کی آل! یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہے۔ پھر ہم لوگوں نے اونٹ کو اٹھایا تو اس کے نیچے ہم نے ہار کو پا لیا۔(1)(بخاری ج۱ ص۴۸ کتاب التیمم)
اس حدیث میں کسی غزوہ کانام نہیں ہے مگرشارح بخاری حضرت علامہ ابن حجرعلیہ الرحمۃنے فرمایاکہ یہ واقعہ غزوہ بنی المصطلق کاہے جس کادوسرانام غزوہ مریسیع بھی ہے جس میں قصہ افک واقع ہوا۔(2)(فتح الباری ج۱ص۳۶۵کتاب التیمم)
اس غزوہ میں حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اٹھائیس دن مدینہ سے باہررہے۔ (3)
(زُرقانی ج۲ ص۱۰۲)
3۔۔۔۔۔۔مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب پنجم ،ج۲،ص۱۵۷،۱۵۸
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب التیمم،باب التیمم،الحدیث:۳۳۴،ج۱،ص۱۳۳
2۔۔۔۔۔۔فتح الباری شرح صحیح البخاری،کتاب التیمم،باب۱،تحت الحدیث۳۳۴،ج۱،ص۳۸۶
3۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ المریسیع، ج۳،ص۱۷