اسلام
ولایت کا بیان
ولایت دربار خداوندی میں ایک خاص قرب کا نام ہے جو اﷲتعالےٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے خاص بندوں کو عطا فرماتا ہے۔
عقیدہ :۱تمام امتوں کے اولیاء میں ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی امت کے اولیاء سب سے افضل ہیں۔ اور اس امت کے اولیاء میں سب سے افضل و اعلیٰ حضرات خلفائے راشدین یعنی حضرت ابو بکر صدیق و حضرت عمر فاروق و حضرت عثمان و حضرت علی
مرتضیٰ رضی اﷲتعالی عنہم ہیں اور ان میں جو خلافت کی ترتیب ہے وہی افضلیت کی بھی ترتیب ہے۔ یعنی سب سے افضل حضرت صدیق اکبر ہیں۔ پھر فاروق اعظم۔ پھر عثمان غنی۔ پھر علی مرتضی!(رضی اﷲتعالیٰ عنہم)
(شرح العقائد النسفی، مبحث افضل البشر بعد نبیناصلی اللہ علیہ وسلم،ص۱۴۹۔۱۵۰)
عقیدہ :۲اولیائے کرام حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے سچے نائب ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے اولیائے کرام کو بہت بڑی طاقت اور عالم میں ان کو تصرفات کے اختیارات عطافرمائے ہیں۔ اور بہت سے غیب کے علوم ان پر منکشف ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اولیاء کو اﷲتعالیٰ لوح محفوظ کے علوم پر بھی مطلع فرما دیتا ہے۔ لیکن اولیاء کو یہ سارے کمالات حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے واسطہ سے حاصل ہوتے ہیں۔
عقیدہ :۳اولیاء کی کرامت حق ہے۔ اس کا منکر گمراہ ہے۔ کرامت کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً مُردوں کو زندہ کرنا۔ اندھوں اور کوڑھیوں کو شفاء دینا’ لمبی مسافتوں کو منٹ دو منٹ میں طے کرلینا۔ پانی پر چلنا۔ ہواؤں میں اڑنا۔ دور دور کی چیزوں کو دیکھ لینا۔ مفصل بیان کے لئے پڑھو ہماری کتاب ”کرامات صحابہ” علیھم الرضوان
(شرح العقائدالنسفی، مبحث کرامات الاولیاء حق ،ص۱۴۵۔۱۴۷)
عقیدہ :۴اولیائے کرام کو دورو نزدیک سے پکارنا جائز اور سلف صالحین کا طریقہ ہے۔
عقیدہ :۵اولیائے کرام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور ان کا علم اور ان کا دیکھنا ان کا سننا دنیاوی زندگی سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔
عقیدہ :۶اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری مسلمانوں کے لئے باعث سعادت و برکت ہے اور ان کی نیاز وفاتحہ اور ایصال ثواب مستحب اور خیر و برکت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اولیائے کرام کا عرس کرنا یعنی لوگوں کا ان کے مزاروں پر جمع ہو کر قرآن خوانی
و فاتحہ خوانی و نعت خوانی و وعظ و ایصال ثواب یہ سب اچھے اور ثواب کے کام ہیں۔ ہاں البتہ عرسوں میں جو خلاف شریعت کام ہونے لگے ہیں۔ مثلاً قبروں کو سجدہ کرنا’ عورتوں کا بے پردہ ہو کر مردوں کے مجمع میں گھومتے پھرنا’ عورتوں کاننگے سر مزاروں کے پاس جھومنا’ چلانا اور سر پٹک پٹک کر کھیلنا کودنا۔ اور مردوں کا تماشا دیکھنا’ باجا بجانا’ ناچ کرانا یہ سب خرافات ہر حالت میں مذموم و ممنوع ہیں۔ اور ہر جگہ ممنوع ہیں اور بزرگوں کے مزاروں کے پاس اور زیادہ مذموم ہیں لیکن ان خرافات و ممنوعات کی وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بزرگوں کا عرس حرام ہے جو حرام اور ممنوع کام ہیں ان کو روکنا لازم ہے۔ ناک پر اگر مکھی بیٹھ گئی ہے تو مکھی کو اڑا دینا چاہیے ناک کاٹ کر نہیں پھینک دینا چاہیے۔ اسی طرح اگر جاہلوں اور فاسقوں نے عرس میں کچھ حرام کام اور ممنوع کاموں کو شامل کردیا ہے تو ان حرام و ممنوع کاموں کو روکا جائے عرس ہی کو حرام نہیں کہہ دیا جائے گا۔