اہل حَمص کی چارشکایات
حضرت سید نا خالد بن معدان علیہ رحمۃ اللہ المنَّا ن فرماتے ہیں:”حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدناسعید بن عامر بن حذیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحمص کا عامل مقرر فرمایاپھر جب حضرت سید ناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حمص تشریف لے گئے تو آپ نے اہل حمص سے دریافت فرمایا:”تم نے اپنے عامل کو کیسا پایا؟”تو انہوں نے حضرت سید نا سعید بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف شکایات کیں۔ (گورنروں اور عاملوں کی بکثرت شکایات کرنے کی وجہ سے حمص کو ”کوفہ صغرٰی’ ‘کہاجاتاہے) انہوں نے حضرت سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی: ”ہمیں اپنے امیرسے چار شکایات ہیں :
(۱) یہ ہمارے پاس دن چڑھے بہت دیر سے تشریف لاتے ہیں :
(۲) یہ رات کو کسی کی بات نہیں سنتے۔
(۳)مہینے میں ایک دن ایسا بھی آتاہے کہ اس دن یہ ہمارے پاس تشریف ہی نہیں لاتے ۔
(۴) کبھی کبھی ان پر بہت زیادہ رنج و غم کی کیفیت طا ر ی ہو جاتی ہے اور یہ بے ہوش ہو جاتے ہیں ۔
حضرت سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سید ناسعید بن عامر بن حذیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایااور تمام لوگوں کو جمع کیا،پھر دعافرمائی : ” اے میرے پروردگار عزوجل !آج اس معاملے میں میرے فیصلے کوکمزور نہ کرنا(یعنی مجھے صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطافرمانا)۔”پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا:”تمہیں ان کے بارے میں کیاشکایات ہیں ؟” لوگوں نے عرض کی: ”یہ ہمارے پاس دن چڑ ھے بہت دیر سے تشریف لاتے ہیں۔” حضرت سید ناسعید بن حذیم رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے جب یہ شکایت سنی توارشاد فرمایا:”مجھے یہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ میں کیوں دیر سے آتا ہوں، خدا عزوجل کی قسم! میرے پاس کوئی خادم نہیں،میں خود آٹاپیستاہوں،پھر اسے گوندھ کر روٹی پکاتاہوں، اس کے بعد وضوکر کے ان کے پاس آجاتاہوں۔ میرے دیر سے آنے کی یہی وجہ ہے۔”
حضرت سید ناعمرِ فاروق رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے لوگوں سے پوچھا :”اور کیا شکایت ہے ؟”کہنے لگے:” یہ رات کو ہمارے
مسائل نہیں سنتے ۔”حضرت سید ناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:” اے سعید! تمہارے پاس اس شکایت کا کیاجواب ہے؟” انہوں نے کہا :”میں نے دن مخلوق کے لئے خاص کررکھاہے اور رات کواپنے رب عزوجل کی عبادت میں مصروف ہوتاہوں۔”پھر انہوں نے تیسری شکایت کرتے ہوئے کہا:” ہر مہینے ایک دن ایسابھی ہو تاہے کہ یہ ہمارے پاس تشریف ہی نہیں لاتے ۔” حضرت سیدنا
عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”اے سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ! تم کیاکہتے ہو؟” عرض کی:” حضور! میرے پاس کوئی خادم نہیں، مہینے میں ایک مرتبہ میں اپنے کپڑے دھوتاہوں۔میرے پاس کوئی دوسرالباس نہیں ہوتا جسے پہن کر ان کے پاس آؤں۔ پھر جب و ہ کپڑے سوکھ جاتے ہیں تو انہیں پہن کر ان کے پا س آجاتاہوں۔”چوتھی شکایت کرتے ہوئے وہ لوگ کہنے لگے:”انہیں کبھی کبھی شدید دورہ پڑتاہے او ر یہ بیہوش ہو جاتے ہیں۔
حضرت سید ناعمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے فرمایا:”اے سعیدرضی اللہ تعا لیٰ عنہ !اس شکایت کاجواب دو۔”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:”اسلام کی دولت حاصل ہونے سے پہلے میں نے حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ایک صحابی حضرت سیدنا خبیب الانصاری رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کوایک میدان میں دیکھا تھا جنہیں کفارِ قریش نے کھجور کے درخت سے باندھ رکھا تھا اور تیروں سے ان کاجسم چھلنی کر رہے تھے،میں بھی ان لوگوں میں موجود تھا۔ پھر قریش ان سے پوچھنے لگے :”کیاتوا س بات کو پسند کرتاہے کہ تیری جگہ محمد( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کویہ سزا دی جائے ؟”یہ سن کر ان صحابی رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:”خدا عزوجل کی قسم! میں تو اس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ میں گھر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہوں اور میر ے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو کوئی کانٹابھی چبھے، میرے آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر میری ہزاروں جانیں قربان:
؎ ترے نام پر سر کو قربان کر کے ترے سر سے صدقے اتارا کروں میں
یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں ترے نام پر سب کو وارا کروں میں (سامانِ بخشش)
اس کے بعد اس صحابی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں استغاثہ پیش کیا،اوریامحمد(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) یامحمد (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) کی صدائیں بلندکیں ۔ افسوس !وہا ں ہوتے ہوئے بھی میں ان کی کچھ مدد نہ کر سکا (کیونکہ آپ اس وقت مسلمان نہ تھے)شاید میرا یہ گناہ کبھی بھی معاف نہ کیاجائے۔ بس یہ خیال آتے ہی میری حالت خراب ہوجاتی ہے،اور مجھ پر غشی طاری ہو جاتی ہے۔” حضر ت سید نا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:”اللہ عزوجل کاشکر ہے کہ اس نے میری فراست کو ضائع نہیں کیا اور مجھے ایسی عظیم ہستیاں عطافرمائیں۔پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدنا سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک ہزار دینار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:”ان کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرلینا ۔”جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دینار دیکھے، توکہنے لگی :”اللہ عزوجل کاشکر ہے کہ اس نے ہمیں غنی کر دیا۔” یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:”ہمارے لئے زیادہ بہتری اسی میں ہے کہ ہم یہ تمام دولت ان لوگوں کودے دیں جوہم سے زیادہ محتاج ہیں، کیاتو اس بات پر راضی ہے ؟”وہ صبر وشکر کی پیکر بولی :” میں راضی ہوں۔”
پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام دینار تھیلیوں میں بھرے اور اپنے گھر کے سب سے امین شخص کو بلایااور فرمایا:” یہ تھیلی فلاں خاندان کی بیواؤں کودے دو،یہ فلاں خاندان کے یتیم کو،یہ فلاں خاندان کے مسکین کو اور یہ فلاں خاندان کے حاجت مند کودے دو۔” اس طرح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساری رقم تقسیم فرمادی صرف کچھ دینارباقی بچے۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھرتشریف لائے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا نے پوچھا:”کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ مار ے لئے غلام نہیں خریدیں گے ؟جو مال بچاہے اس سے غلام خرید لیناچاہے۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”اگر ہم سے زیادہ کوئی محتاج آگیاتوہم یہ مال اس کو دے دیں گے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ تعالی عليہ وسلم)