عہد پورا کرنے کا حکم ۔ حلال جانوروں کا بیان ۔ حالتِ احرام میں(خشکی کا)شکار کرنا حرام ہے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ-اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ(۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! تمام عہد پورے کیا کرو ۔ تمہارے لئے چوپائے جانور حلال کردیے گئے سوائے ان کے جو (آگے ) تمہارے سامنے بیان کئے جائیں گے لیکن احرام کی حالت میں شکار حلال نہ سمجھو ۔ بیشک الله جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے ۔ (المآئدة : ۱)
(اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- : تمام عہد پورے کرو ۔ ) عُقود کا معنیٰ عہد ہیں ، انہیں پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس سے مراد کون سے عہد ہیں اس بارے میں مفسرین کے چند اقوال ہیں :
(1) امام ابن جریج رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ یہاں اہلِ کتاب کو خطاب فرمایا گیا ہے اور معنیٰ یہ ہیں کہ اے اہلِ کتاب کے مومنو! میں نے گزشتہ کتابوں میں سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرنے کے متعلق جو تم سے عہد لئے ہیں وہ پورے کرو ۔
(2) بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں خطاب مؤمنین کو ہے ، انہیں اپنے عہد پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
(3) حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ان عقود یعنی عہدوں سے مراد ایمان اور وہ عہد ہیں جو حرام و حلال کے متعلق قرآنِ پاک میں لئے گئے ۔
(4)بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس میں مؤمنین کے باہمی معاہدے مراد ہیں ۔ (خازن، المائدة، تحت الاٰية : ۱، ۱ / ۴۵۸)
( اُحِلَّتْ لَكُمْ : تمہارے لئے حلال کردئیے گئے ۔)یہاں سے حلال جانوروں کابیان کیا گیا ہے ، چنانچہ فرمایا کہ جن کی حرمت شریعت میں بیان ہوئی ہے ان کے سوا تمام چوپائے تمہارے لئے حلال کئے گئے ۔ اس میں ان کفار کا رد ہے جو بتوں کے نام پر چھوڑے ہوئے جا نور بَحِیرہ، سائبہ وغیر ہ کو حرام سمجھتے تھے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حرام صرف وہ ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حرام فرما دیں ۔ حلال کے لئے خاص دلیل کی ضرورت نہیں ، کسی چیز کا حرام نہ ہو نا ہی حلا ل کی دلیل ہے جس طرح اس آیت میں واضح طور پر فرما دیا گیا ۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو مسلمانوں کے پاکیزہ کھانوں کو حیلے بہانوں سے حرام بلکہ شرک قرار دیتے رہتے ہیں ۔
( وَ اَنْتُمْ حُرُمٌؕ-: اور تم حالت ِ احرام میں ہو ۔ )احرام کی حالت میں خشکی کا شکار کر نا حرام ہے جبکہ دریا ئی شکار جائز ہے ۔
(بدائع الصنائع، کتاب الحج، فصل واما بیان انواعه، ۲ / ۴۲۷)
خیال رہے کہ مُحْرِمْ (یعنی احرام والے ) کا شکار کیا ہو ا نہ مُحْرِمْ کو حلال ہے نہ غیر کو، احرام خواہ حج کا ہو یا عمرہ کا ۔