معاملے کی تحقیق کرنے سے متعلق مسلمانوں کو نصیحت
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَتَبَیَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَیْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًاۚ-تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا٘-فَعِنْدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِیْرَةٌؕ-كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰهُ
عَلَیْكُمْ فَتَبَیَّنُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا(۹۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! جب تم الله کے راستے میں چلو تو خوب تحقیق کرلیا کرو اور جو تمہیں سلام کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ۔ تم دنیوی زندگی کا سامان چاہتے ہو پس الله کے پاس بہت سے غنیمت کے مال ہیں ۔ پہلے تم بھی ایسے ہی تھے تو الله نے تم پر احسان کیا تو خوب تحقیق کرلو بیشک الله تمام اعمال سے خبردار ہے ۔ (النسآء : ۹۴)
(اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَتَبَیَّنُوْا : جب تم الله کے راستے میں چلو تو خوب تحقیق کرلیا کرو ۔ )اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ مِرْدَاس بن َنہِیْک جو فدک کے رہنے والے تھے اور اُن کے سوا اُن کی قوم کاکوئی شخص اسلام نہ لایا تھا، اس قوم کو خبر ملی کہ لشکرِ اسلام ان کی طرف آرہا ہے تو قوم کے سب لوگ بھاگ گئے مگر مِرْدَاس ٹھہرے رہے ۔ جب انہوں نے دور سے لشکر کو دیکھا تواس خیال سے کہ کہیں کوئی غیر مسلم جماعت نہ ہو یہ پہاڑ کی چوٹی پر اپنی بکریاں لے کر چڑھ گئے ۔ جب لشکر آیا اور انہوں نے اَللہُ اَکْبَر کے نعروں کی آوازیں سنیں تو یہ خود بھی تکبیر پڑھتے ہوئے اتر آئے اور کہنے لگے : لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ، السّلام علیکم ۔ مسلمانوں نے خیال کیا کہ اہلِ فدک تو سب کافر ہیں یہ شخص دھوکہ دینے کے لیے ایمان کا اظہار کررہا ہے ۔ اس خیال سے حضرت اُسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان کو قتل کردیا اور بکریاں لے آئے ۔ جب تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حضور میں حاضر ہوکر تمام ماجرا عرض کیا تو حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہایت رنج ہوا اور فرمایا تم نے اس کے سامان کے سبب اس کو قتل کردیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا کہ مقتول کی بکریاں اس کے اہلِ خانہ کو واپس کردو ۔ (خازن، النساء، تحت الاٰية : ۹۴، ۱ / ۴۱۷)
یہ روایت الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ بخاری اور دیگر کتبِ حدیث میں بھی موجود ہے ۔ یہاں اسی کے متعلق فرمایا جارہا ہے کہ اے ایمان والو! جب تم اللہ تعالیٰ کے راستے میں چلو تو خوب تحقیق کرلیا کرو اور جو تمہیں سلام کرے یا جس میں اسلام کی علامت و نشانی پاؤ تواس سے ہاتھ روک لو اور جب تک اس کا کفر ثابت نہ ہو جائے اس پر ہاتھ نہ ڈالو اور اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ۔ ابوداؤد اور تر مذی شریف کی حدیث میں ہے کہ نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب کوئی لشکر روانہ فرماتے توحکم دیتے کہ اگرتم کوئی مسجد دیکھو یا اذان سنو تو قتل نہ کرنا ۔
(ابو داؤد، کتاب الجهاد، باب فی دعاء المشرکین، ۳ / ۶۰، الحدیث : ۲۶۳۵، ترمذی، کتاب السیر، ۲-باب، ۳ / ۱۹۴، الحدیث : ۱۵۵۴)
( كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ : پہلے تم بھی ایسے ہی تھے ۔ )مسلمانوں کو سمجھانے کیلئے مزید فرمایا کہ پہلے تم بھی ایسے ہی تھے یعنی جب تم اسلام میں داخل ہوئے تھے تو تمہاری زبان سے کلمہ شہادت سن کر تمہارے جان و مال محفوظ کر دیئے گئے تھے اور تمہارا اظہارِ ایمان بے اعتبار نہ قرار دیا گیا تھا ایسا ہی اسلام میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تمہیں بھی سلوک کرنا چاہئے اور یہ تم پر الله تعالیٰ کا احسان ہے کہ تمہیں اِسلام پر اِستِقامت بخشی اور تمہارا مؤمن ہونا مشہور کیا، لہٰذا خوب تحقیق کرلیا کرو کہ کہیں تمہارے ہاتھوں کوئی ایمان دار قتل نہ ہو ۔ معلوم ہوا کہ جو مسلمان کافروں میں رہتا ہو اور اس کے ایمان کی مسلمانوں کو خبر نہ ہو تو اس کے قتل سے نہ کفارہ واجب ہو گا اورنہ دیت ۔ یاد رہے کہ پچھلی آیت میں وہ صورت مذکور ہوئی جہاں مسلمان کا اسلام سب کو معلوم ہو مگر اندھیرے وغیرہ کی وجہ سے پتہ نہ لگے اور مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا جائے اور اس آیت میں وہ صورت بیان ہوئی ہے جس
میں مسلمان کا ایمان کسی کو معلوم نہیں ۔ لہٰذا ان دونوں آیات میں تَعارُض نہیں ۔