اسلاماعمالمسائل

قضانماز کے احکام و مسائل

قضانماز کا بیان

بلا عذر شرعی نماز قضا کردینا بہت سخت گناہ ہے اس پر فرض ہے کہ اُس کی قضا پڑھے اور سچے دل سے توبہ کرے، توبہ یا حج مقبول سے تاخیر کا گناہ معاف ہوجائے گا۔ (درمختار)
مسئلہ۱: ’’ توبہ ‘‘ جب ہی صحیح ہے کہ قضا پڑھ لے۔ جو ذمہ میں باقی ہیں اُس کو تو ادا نہ کرے، توبہ کیے جائے یہ توبہ نہیں ۔ اس لیے کہ جو اس کے ذمہ تھی اس کا پڑھنا تو اَب بھی ہے اور جب گناہ سے باز نہ آیا تو توبہ کہاں ہوئی۔ (ردالمحتار) حدیث میں فرمایا کہ گناہ پر قائم رہ کر استغفار کرنے والا اس کے مثل ہے جو اپنے رب سے ٹھٹھا کرتا ہے۔

قضا کی تعریف

مسئلہ۲: جس بات کا بندے کو حکم ہے اُسے وقت میں کرنے کو ادا کہتے ہیں اور وقت نکل جانے کے بعد کرنے کو قضا کہتے ہیں ۔
مسئلہ۳: وقت میں تحریمہ باندھ لیا (1 ) تو نماز قضا نہ ہوئی بلکہ ادا ہے مگر فجر اور جمعہ و عیدین کی نماز میں سلام سے پہلے اگر وقت نکل گیا تو نماز جاتی رہی۔ (درمختار و بہار)
مسئلہ۴: سوتے میں یا بھولے سے نماز قضا ہوگئی تو اُس کی قضا پڑھنی فرض ہے البتہ قضا کا گناہ اس پر نہیں لیکن جاگتے ہی اور یاد آنے پر اگر مکروہ وقت نہ ہو تو اُسی وقت پڑھ لے دیر کرنا مکروہ ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ۵: فرض کی قضا فرض ہے اور واجب کی قضا واجب ہے اور سنت کی قضا سنت یعنی وہ سنتیں جن کی قضا ہے جیسے فجر کی سنت جب کہ فرض بھی فوت ہوگیا ہو اور جیسے ظہر کی پہلی سنت جب کہ ظہر کا وقت باقی ہو۔ (عالمگیری،درمختار و ردالمحتار)

قضا کا وقت

مسئلہ۶: قضا کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں عمر میں جب پڑھے گا بریٔ الذمہ ہو جائے گا ( 2) لیکن اگر طلوع و غروب و زوال کے وقت پڑھی تو نہیں اس لیے کہ ان وقتوں میں نماز جائز نہیں ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۷: جو نماز جیسی فوت ہوئی اس کی قضا ویسی ہی پڑھی جائے گی۔ مثلاًسفر میں نماز قضا ہوئی تو چار رکعت والی دو ہی پڑھی جائے گی اگرچہ اِقامت کی حالت میں پڑھے اور جو اِقامت کی حالت میں فوت ہوئی تو چار رکعت والی کی قضا چار رکعت ہے اگرچہ سفر میں پڑھے البتہ قضا پڑھنے کے وقت کوئی عذر ہے تواُس کا اعتبار کیا جائے گا۔ مثلاً جس وقت فوت ہوئی اُس وقت کھڑا ہو کر پڑھ سکتا تھا اور اب کھڑا ہو کر نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر پڑھے یا اُس وقت اشارہ ہی سے پڑھ سکتا ہے تو اشارے سے پڑھے اور صحت کے بعد اِس کا اعادہ نہیں ۔ (1 ) (عالمگیری ، درمختار)

کس نماز کی قضا معاف ہے ؟

مسئلہ۸: ایسا مریض ( 2) کہ اشارے سے بھی نماز نہیں پڑھ سکتا اگر یہ حالت پورے چھ وقت تک رہی تو اس حالت میں جو نماز یں فوت ہوئیں اُن کی قضا واجب نہیں ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۹: مجنون کی حالت ِجنون میں جو نمازیں فوت ہوئیں اچھے ہونے کے بعد اُن کی قضا واجب نہیں جب کہ جنون نماز کے چھ وقت کا مل تک برابر رہا ہو۔ (عالمگیری)

قضا نمازوں میں ترتیب واجب ہونے کا بیان

مسئلہ۱۰: صاحب ترتیب یعنی جس کے ذمہ قضا نمازیں چھ سے کم ہیں اگر وہ قضا نماز کے یاد ہوتے ہوئے اور وقت میں گنجائش ہوتے ہوئے وقتی نماز پڑھے گا تو اس کی وقتی نماز نہ ہوگی۔ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نماز موقوف رہے گی اگر وقتی پڑھتا گیا اور قضا رہنے دی توجب دونوں مل کر چھ ہو جائیں گی یعنی چھٹی کا وقت ختم ہوجائے گا تو سب صحیح ہوجائیں گی اور اگر اس درمیان میں قضا پڑھ لی تو سب گئیں ، سب کو پھر سے پڑھے۔
مسئلہ۱۱: فوت نمازوں اور وقتی نماز میں ترتیب ضروری ہے جب کہ فوت نمازیں چھ سے کم ہوں یعنی پہلے قضا نمازیں پڑھ لے پھر وقتی پڑھے، جیسے آج کسی کی فجر و ظہر و عصر و مغرب قضا ہوگئیں تو وہ عشاء کی نماز نہیں پڑھ سکتا جب تک کہ ترتیب واراِن چاروں کی قضا نہ پڑھ لے۔

مسئلہ۱۲: اگر وقت میں اتنی گنجائش نہیں کہ وقتی اور سب قضائیں پڑھ لے تو وقتی نماز اور قضا نمازوں میں جس کی گنجائش ہو پڑھے، باقی میں ترتیب ساقط ہے۔ جیسے نماز عشاء اور وتر دونوں قضا ہوگئیں اور فجر کے وقت میں پانچ رکعت کی گنجائش ہے تو وِتر کی قضا پڑھ کے فجر کی پڑھ لے اور اگر چھ رکعت کی گنجائش ہے تو عشاء کی قضا پڑھ کر فجر پڑھے۔ (شرح وقایہ)
مسئلہ۱۳: اگر وقت میں اتنی گنجائش ہے کہ مختصر طور پر پڑھے تو دونوں پڑھ سکتا ہے اور عمدہ طریقے سے پڑھے تو دونوں نمازوں کی گنجائش نہیں تو اس صورت میں بھی ترتیب فرض ہے اور بمقدار ِجواز جہاں تک اختصار کرسکتا ہے کرلے۔ (1 ) (عالمگیری)
مسئلہ۱۴: چھ نمازیں جس کی قضا ہوگئیں کہ چھٹی کا وقت ختم ہوگیااس پر ترتیب فرض نہیں اب اگرچہ باوجود وقت کی گنجائش اور قضا کی یاد کے وقتی پڑھے گا۔ وقتی ہوجائے گی چاہے قضا نمازیں جو اس کے ذمہ ہیں سب ایک ساتھ قضا ہوئیں جیسے ایک دم سے چھ وقتوں کی نہ پڑھی یا سب ایک دم سے نہ ہوں بلکہ متفرق طور پر قضا ہوئیں جیسے چھ دن فجر نہ پڑھی اور باقی نمازیں پڑھتا رہا لیکن اِن کے پڑھتے وقت وہ فجر کی قضائیں بھولا رہا۔ ( ردالمحتار)
مسئلہ۱۵: جب چھ نمازیں قضا ہوگئیں کہ چھٹی کا وقت بھی جاتا رہا تو ترتیب فرض نہ رہی چاہے وہ سب پرانی ہوں یا بعض نئی بعض پرانی جیسے ایک مہینہ کی نماز نہ پڑھی پھر پڑھنی شروع کی پھر ایک وقت کی قضاہوگئی تو اس کے بعد کی نماز ہوجائے گی۔ اس لیے کہ اُس کے ذمہ

چھ نمازوں سے زیادہ ہیں جن کی وجہ سے ترتیب جاتی رہتی ہے۔ ( ردالمحتار)
مسئلہ۱۶: جب چھ نمازوں کے قضا ہونے کی وجہ سے ترتیب ساقط ہوگئی تو اب اگر ان قضاؤں میں سے بعض پڑھ لیں کہ قضا چھ سے کم رہ گئیں تو ابھی ترتیب والا نہ ہوگا، جب تک چھیئوں کی قضا نہ پڑھ لے جب سب کی قضا پڑھ لے گا تب پھر صاحب ترتیب ہو جائے گا۔ (شرح وقایہ، عالمگیری ، درمختار و ردالمحتار)
مسئلہ۱۷: چھ یا اس سے زیادہ قضا نمازیں جس طرح اس قضا و ادا میں ترتیب کو ساقط کردیتی ہیں اسی طرح قضاؤں میں بھی ترتیب کو ساقط کردیتی ہیں قضاؤں میں بھی آپس میں ترتیب نہیں رہتی آگے پیچھے پڑھی جاسکتی ہیں ، جیسے کسی نے ایک مہینہ تک نماز نہ پڑھی پھر اس مہینہ کی نمازوں کی قضا اس طرح پر پڑھی کہ پہلے تیس فجر کی قضا پڑھی پھر اس کے بعد تیس ظہر کی قضا پڑھی اسی طرح پانچوں وقت کی قضا پڑھی تو اس طرح قضا پڑھنا بھی صحیح ہے۔ (عالمگیری )
مسئلہ۱۸: جس کے ذمہ قضا نمازیں ہوں اگر چہ اُن کا پڑھنا جلد سے جلد واجب ہے مگر بال بچوں کے حقوق اور اپنی ضروریات کی وجہ سے تاخیر کرسکتا ہے لہٰذا کاروبار بھی کرے اور جو وقت فرصت کا ملے اس میں قضا پڑھتا رہے، یہاں تک کہ سب پوری ہوجائیں ۔ (درمختار)
مسئلہ۱۹: قضا نمازیں نوافل سے اہم ہیں یعنی جس وقت نفل پڑھتا ہے اُنہیں چھوڑ کر اُن کے بدلے قضائیں پڑھے تاکہ بری الذمہ ہوجائے البتہ تراویح اور بارہ رکعتیں سنت مؤکدہ کی نہ چھوڑے۔
مسئلہ۲۰: جس کے ذمہ برسوں کی نمازیں قضا ہوں اور ٹھیک یاد نہ ہو کہ کتنے دن سے کون
کون سی قضا ہوئی تو وہ یوں نیت کرکے پڑھے کہ سب سے پہلی فجر جو مجھ سے قضا ہوئی اس کو ادا کرتا ہوں یا سب میں پہلی ظہر، عصر جس کی قضا پڑھنا چاہے اس کی نیت کرے او راسی طرح سب نمازوں کی قضا پڑھ ڈالے یہاں تک کہ یقین ہوجائے کہ سب ادا ہوگئیں ۔

________________________________
1 – تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے نماز شروع کردی۔
2 – بری الذمہ ہوجائے گا: یعنی سر سے بوجھ اتر جائے گا، اس کے سراس کا پڑھنا باقی نہ رہے گا۔ (۱۲منہ)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!