اصلاح تمدن و معاشرہ
اصلاح تمدن و معاشرہ
حکما ء نے اصلاح تمدن کے لئے تناسخ کامسئلہ نکالا کہ جوشخص برے کام کرے ،مرنے کے بعد کسی ایسے جانور کے قالب میں اس کی روح جائے گی جو نہایت ذلیل ہو ۔ ان کامقصود اس سے یہی تھا کہ آدمی اس خوف کے مارے برے کام کا مرتکب نہ ہو ، یہ ان کی تراشی ہوئی بات تھی ،مگر اس کا یہ اثر ہوا کہ کروڑہا آدمی اس خیال سے مرنے کے بعد کسی برے جنم میں نہ جائیں برے کاموں سے بچنے لگے ۔
خالق عالم نے کارخانہ ء عالم کی بنیادی ہی ایسی ڈالی کہ اگر آدمی ذرابھی اس میں غو ر وفکر کرے تو برے کاموں کو چھوڑ دے ، چناچہ دوعالم پیدا کئے :ایک دارالعمل،دوسرا دارالجزاء جہاں جنت ودوزخ ہیں ۔ دارالعمل میں جیسے کام کریں گے دارالجزاء میں ویسا ہی بدلہ ملے گا ۔ اور پیغمبروں کو بھیج کر معلوم کروایا دیا کہ اچھے کام یہ ہیں اور برے کام یہ ،اور قرآن شریف میں جگہ جگہ خبردی کہ برے کاموں کی جزاء اس عالم میں دوزخ ہے ۔ اب اگر یہ باور کرا یا جائے کہ مسلمان جو چاہیں اکریں وہ دوزخ میں نہ جائیں گے بلکہ بمصد اق اس کے
نصیب ہست بہشت ایخد ا شناس برد ٭کہ مسحتقِ کرامت گناہ گار انند
عابدوں اور زاہدوں سے بھی جنت میں اس کے مرتبے بڑھے ہوئے رہیں گے ‘تو مسلمان کا تمدن ہندوئوں کے تمدن سے بدرجہا گھٹا ہوا رہے گا ۔ کیونکہ مسلمانوں کے پیشوا یعنی واعظین نے اپنے کا موںکی جزاء وسزاء بے فر بنا دیا تو اب ان کوکیا ضرورت کہ نفس کی مخالفت کرے دنیوی نعمتوں اور عیش وعشرت سے محروم رہیں ، جب جب بھی موقعہ ملے گا نا جائز ذرائع سے لوگوں کا مال حاصل کریں گے اور شہوت و نفسانی خواہشوں کے پورے کرنے میں ذرا بھی تامل نہ کریں گے ۔ اب کہئے کہ ایسے مسلمانوں سے تمدن کو نفع پہونچے گا یا نقصان ؟! پھر غیر اقوام کے مقابلہ میں جو کہا جاتا ہے کہ ’’اسلام اعلیٰ درجہ کا حامی تمدن ہے ‘‘تو وہ ایسے مسلمانوں کوپیش کردیں کہ جن کے ناشا ئستہ افعال سے معاشرہ وتمدن خراب ہو رہا ہے تو ان کا کیا جواب ؟اگر کہا جائے کہ یہ ان کی ذاتی خرابیوں کا اثر ہے ہمارا دین ان کوایسے امور کی ہدایت نہیں کرتا ، تو وہ واعظین کو پیش کردیں گے کہ ان کی ہدایتوں کا یہ اثر ہو رہا ہے کہ لوگ بے باک ہو رہے ہیں ، ان کویقین دلا یا جائے کہ کسیے ہی کسیے برے کام کریں جنت کے اعلیٰ مقا مات کے مستحق ہیں ۔ وہ ضرور کہیں گے کہ اگر دین میں یہ بات داخل نہیں تو یہ پیشوایان دین پھر کہاںسے ایسی باتیں بیان کر تے ہیں جس سے تمدن تباہ ہو ؟!اس سے معلوم ہوا کہ معاذ اللہ ہمارا دین اسلام کامل نہیں ۔ یہ سب خرابیاں اسی وجہ سے ہیںکہ واعظین قرآن و حدیث کے کل مضامین کو پیش نظر نہیں رکھتے ۔ قرآن شریف کو جہاں دیکھئے یہی ثابت ہوگا کہ وعدہ اور وعید برابر ہو رہے ہیں،جس آیت سے امید بڑھتی ہے تو اس کے ساتھ ہیں دوسری آیت سے خوف پیدا ہوتا ہے ۔ احادیث میں دیکھئے تو ان میں بھی یہی طریقہ مرعی ہے ۔
الحاصل جب تک ہمارے واعظین جو پیشوا یان قوم ہیں جس طرح آیات وا حادیث رجاء کے بیان کرتے ہیں خوف پیدا کرنے والے آیات و احادیث نہ بیان کریں تو مسلمانوں کے تمدن کی اصلاح ہر گز نہیں ہوسکتی ۔ ان حضرات کو اس آیت شریفہ میں غور کرنا چاہئے جو حق تعالیٰ فرماتا ہے
واتقواللہ حق تقاتہ یعنی اللہ تعالی سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔
ہر پڑہا لکھا آدمی جانتا ہے کہ اہل سنت و جماعت کا مذہب بین الخوف و الرجاء ہے نہ اس میں افراط ہے کہ گنہگا رقطعی دوزخ اور ہمیشہ دوزخ میں رہے گا جسیے کہ خوارج کہتے ہیں ۔اور نہ یہ کہ مسلمان کو گناہوں کی کچھ سزانہ ہوگی جسیا کہ مرجیہ کہتے ہیں۔ مسلمانوں کو خوف اس وجہ سے لگا رہتا ہے کہ کسی آیت و حدیث میں یہ وارد نہیںہے کہ کل امت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالکلیہ دوزخ سے نجات دلایں گے اور کوئی دوزخ میں نہ جائے گا بلکہ یہ وارد ہے کہ بہت سے مسلمان بغیر اطلاع آپ ؐ کے دوزخ میںڈال دیے جائیںگے اور مدتوں اسی میںپڑے رہیں گے پھر جب آپ ؐ کو اطلاع ہوگی تو آپ دوزح پر تشریف فرما ہو کر ان کو اس میں نکال لیں گے، اب یہ کیوکر یقین ہوکہ پہلی ہی شفاعت میں ہم ضرور شریک ہوں گے ؟ جب یہ اشتباہ ثابت ہوگیا تو ہر ایمان والے کو یہ فکر لگی رہنی چاہئے کہ معلوم نہیں ہم کس زمرہ میں ہوں گے ۔