اسلام
بیعۃ الرضوان
مقام حدیبیہ میں پہنچ کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ دیکھا کہ کفار قریش کا ایک عظیم لشکر جنگ کے لئے آمادہ ہے اور ادھر یہ حال ہے کہ سب لوگ احرام باندھے ہوئے ہیں اس حالت میں جوئیں بھی نہیں مار سکتے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ کفارمکہ سے مصالحت کی گفتگو کرنے کے لئے کسی کو مکہ بھیج دیا جائے۔ چنانچہ اس کام کے لئے آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منتخب فرمایا۔ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کفارقریش میرے بہت ہی سخت دشمن ہیں اور مکہ میں میرے قبیلہ کا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو مجھ کو ان کافروں سے بچا سکے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ بھیجا۔ انہوں نے مکہ پہنچ کر کفارقریش کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف سے صلح کا پیغام پہنچایا۔ حضرت عثمان
رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی مالداری اور اپنے قبیلہ والوں کی حمایت و پاسداری کی وجہ سے کفار قریش کی نگاہوں میں بہت زیادہ معزز تھے۔ اس لئے کفارقریش ان پر کوئی درازدستی نہیں کرسکے۔ بلکہ ان سے یہ کہا کہ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ آپ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرکے اپنا عمرہ ادا کرلیں مگر ہم محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو کبھی ہرگز ہرگز کعبہ کے قریب نہ آنے دیں گے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کردیا اور کہا کہ میں بغیر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ساتھ لئے کبھی ہرگز ہرگز اکیلے اپنا عمرہ نہیں ادا کرسکتا۔ اس پر بات بڑھ گئی اور کفار نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ میں روک لیا۔ مگر حدیبیہ کے میدان میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ کفار قریش نے ان کو شہید کردیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کا بدلہ لینا فرض ہے۔ یہ فرماکر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ایک ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ تم سب لوگ میرے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کرو کہ آخری دم تک تم لوگ میرے وفادار اور جاں نثارر ہوگے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہایت ہی ولولہ انگیز جوش و خروش کے ساتھ جاں نثاری کا عہد کرتے ہوئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کرلی۔ یہی وہ بیعت ہے جس کا نام تاریخ اسلام میں ”بیعۃ الرضوان” ہے۔ حضرت حق جل مجدہ نے اس بیعت اور اس درخت کا تذکرہ قرآن مجید کی سورهٔ فتح میں اس طرح فرمایا ہے کہ
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللہَ ؕ یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیۡدِیۡہِمْ ۚ (1)
یقینا جو لوگ (اے رسول) تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔
اسی سورہ فتح میں دوسری جگہ ان بیعت کرنے والوں کی فضیلت اور ان کے اجروثواب کا قرآن مجید میں اس طرح خطبہ پڑھا کہ
لَقَدْ رَضِیَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیۡنَ اِذْ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمْ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمْ وَ اَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸﴾ (1)
بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ درخت کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جوان کے دلوں میں ہے پھر ان پر اطمینان اتار دیا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔
لیکن ”بیعۃ الرضوان” ہوجانے کے بعد پتا چلا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر غلط تھی۔ وہ باعزت طورپر مکہ میں زندہ و سلامت تھے اور پھر وہ بخیروعافیت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر بھی ہوگئے۔(2)
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب امر الحدیبیۃ، ج۳، ص۲۲۲۔۲۲۶