اہلِ سنت پر کرمِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ کی برسات
حکایت نمبر 397: اہلِ سنت پر کرمِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ کی برسات
حضرتِ سیِّدُنا ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ بن عَمْرَوَیْہ صَفَّار علیہ رحمۃ اللہ الغفار جو کہ اِبْنِ عَلَم کے نام سے جانے جاتے ہیں، کا بیان ہے کہ میں نے حضرت محمد بن نَصْرصَایِغ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ فرماتے سنا: ” میرے والد ِ محترم نمازِ جنازہ پڑھنے کے بہت دِلدادہ (یعنی شوقین) تھے۔ جاننے والے ہوں یا انجان سب کے جنازوں میں شریک ہوتے۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا:” اے میرے لختِ جگر! ایک مرتبہ میں کچھ ضروری سامان خریدنے بازار گیا تو ایک جنازہ دیکھا جس کے ساتھ بہت ہجوم تھا ۔ میں بھی لوگوں کے ساتھ شامل ہوگیا ، ان میں سے کوئی بھی میرا جاننے والا نہ تھا، سب اجنبی معلوم ہورہے تھے ۔ نمازِ جنازہ ادا کرنے کے
بعدہم قبرستان گئے ۔ جب میت کو قبر میں اتارا جارہا تھا تو میں نے دوآدمیوں کو قبر میں اُترتے دیکھا ایک تو باہر نکل آیا مگر دوسرا قبر ہی میں رہ گیا۔ لوگ جب واپس جانے لگے تو میں نے پکار کر کہا: ” اے میرے بھائیو! میت کے ساتھ ایک زندہ شخص بھی دفنادیا گیا ہے۔” لوگوں نے کہا: ”یہ تمہارا وَہم ہے ورنہ ایسی کوئی بات نہیں ۔” میں نے بھی اسے اپنا وہم سمجھا اور واپس پلٹ آیا۔ پھر سوچا کہ میں نے اپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے خود دو آدمی قبر میں اترتے دیکھے جن میں سے ایک تو نکل آیا مگر دوسرا قبر ہی میں موجود ہے۔اب میں قبر کے پاس ہی موجود رہوں گا یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ یہ راز منکشف فرمادے۔ چنانچہ، میں دوبارہ قبر کے پاس آیا۔ دس، دس مرتبہ سورۂ یٰسین اور سورۂ مُلک کی تلاوت کی ، پھربارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور روتے ہوئے یوں التجا کی:
” اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! جو کچھ میں نے دیکھا اس کا راز مجھ پر منکشف فرما۔ بے شک! میں اپنے دِین اور عقل کے زائل ہونے سے خوفزدہ ہوں،اے پروردْگار ِ عالَم عَزَّوَجَلَّ! مجھ پر یہ راز منکشف فرمادے ۔”ابھی میں مصروف ِ اِلتجا ہی تھا کہ اچانک قبر شق ہوئی ا ور اس میں سے ایک شخص نکل کر ایک جانب چل دیا۔ میں اس کے پیچھے دوڑااور کہا:” اے شخص! تجھے تیرے معبود کا واسطہ! رُک جا اور میرے سوال کا جواب دے۔” لیکن اس نے میری طرف توجہ نہ دی اور مسلسل چلتا ہی رہا، دوسری اور تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا میں نے پھر پکار کر کہا: ” اے شخص! میں تیری رفتار کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، تجھے تیرے معبود کی قسم!رُک کر میرے سوال کا جواب دے۔” اس مرتبہ وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہا:”کیا تم ہی نَصْرصَایِغ ہو ؟” میں نے کہا:”جی ہاں! میں ہی نَصْرصَایِغ ہوں۔” کہا :”کیا تم مجھے نہیں پہچانتے ؟” میں نے کہا :” نہیں۔” کہا: ”ہم رحمت کے فرشتے ہیں۔ہمارے ذمے یہ کام ہے کہ اہلِ سنّت میں سے جب بھی کوئی فوت ہوتا ہے اور اسے قبر میں رکھا جاتا ہے تو ہم اس کی قبر میں اُترکر اسے حجت (یعنی دلیل) کی تلقین کرتے ہیں۔” اتنا کہہ کر وہ شخص غائب ہوگیا۔
؎ جو سینے کو مدینہ اُن کی یادوں سے بناتے ہیں
وہی تو زندگانی کا حقیقی لُطف اُٹھاتے ہیں
جو اپنی زندگی میں سنتیں اُن کی سجاتے ہیں
انہیں محبوب میٹھے مصطفی صلي اللہ عليہ وسلم اپنا بناتے ہیں
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)