جرأت مندچیف جسٹس
جرأت مندچیف جسٹس
حضرت سیدنا ن میر مدنی علیہ رحمۃ اللہ الولی سے مروی ہے، خلیفہ منصور جب مدینہ منورہ میں ایا تو اس وقت حضرت سیدنا محمد بن عمران طلحی علیہ رحمۃ اللہ القوی مدینہ منورہ میں عہدہ قضاء پر فائز تھے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت عادل و جرأت مند قاضی تھے۔ حق دار کو اس کا حق دلواتے اگر چہ مدِمقابل کتنا ہی اثر و رُسوخ والا ہو آپ اس معاملے میں بالکل رعایت نہ کرتے۔
میں ان کا کا تب تھا۔جب خلیفہ منصور مدینہ منورہ میں حاضر ہو ا توکچھ لوگو ں نے خلیفہ کے خلاف قاضی کی عدالت میں دعوی کیا: ”ہمارے اونٹ ناجائز طریقے سے خلیفہ نے چھین لئے ہیں لہٰذا ہمیں انصاف دلایا جائے ۔” ان غریب لوگوں کی فریاد سن کر حضرت سیدنا محمد بن عمران طلحی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے مجھے حکم فرمایا: اے نمیر(علیہ رحمۃ اللہ القدیر)! فوراََخلیفہ کی جانب پیغام لکھو: ”چند لوگوں نے آپ کے خلاف دعوی کیا ہے اور وہ انصاف چاہتے ہیں لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ فورا ًتشریف لائیں تا کہ فریقین کی موجود گی میں شرعی فیصلہ کیا جاسکے ۔”
حضرت سیدنا ن میر علیہ رحمۃاللہ القدیر فرماتے ہیں کہ میں نے قاضی صاحب سے عرض کی:” حضور! مجھے اس معاملہ سے دور ہی رکھیں، خلیفہ میری لکھائی کو پہچا نتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کسی مشکل میں پھنس جاؤں۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ”اے نمیر(علیہ رحمۃ اللہ القدیر)!یہ پیغام تم ہی لکھو گے اور تم ہی اسے لے کر خلیفہ کے پاس جاؤ گے ، جلدی کر و اور پیغام لکھو۔” میں نے جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ با ت سنی تو پیغام لکھا اس پر مہر لگائی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ”اب جلدی سے یہ خط لے کر خلیفہ کے پاس جاؤ۔” چنانچہ مجھے مجبوراًجاناہی پڑا۔ میں سیدھا خلیفہ منصور کے مشیر خاص ربیع کے پاس گیااور اسے صورتحال سے آگاہ کرنے کے بعد کہا: ”آپ یہ پیغام خلیفہ تک پہنچا دیں ،مجھ میں اتنی ہمت نہیں۔” ربیع نے کہا :” تم خود ہی جاکر خلیفہ کو قاضی کا خط دو ۔”
لہٰذا چار وناچارمجھے ہی خلیفہ کے پاس جاناپڑامیں نے جا کر اسے قاضی صاحب کا خط دے دیا اور فوراََ واپس چلا آیا۔ حضرت سیدنا محمد بن عمران طلحی علیہ رحمۃاللہ القوی عدالت میں بیٹھے تھے اور لوگو ں کے مسائل حل فرما رہے تھے ۔وہاں مدینہ منورہ کے بڑے بڑے علماء کرا م ر حمہم اللہ تعالیٰ ،اُمراء اور دیگر لوگ کافی تعدا د میں موجود تھے ۔ اتنی ہی دیر میں خلیفہ منصور کا مشیر خاص ربیع کمرہ عدالت میں آیا اور اس نے خلیفہ منصور کا پیغام سنایا:
اے لوگو! خلیفہ نے آپ سب کو سلام بھیجا ہے او رکہا ہے کہ مجھے بطورِ مدعا علیہ (یعنی جس پر دعوی کیا جائے) عدالت میں طلب کیا گیاہے لہٰذا مجھ پرعدالت میں حاضر ہونالازم ہے۔ تمام لوگو ں کو تا کید ہے کہ جب میں آؤں تو کوئی بھی میری تعظیم کے لئے کھڑا نہ ہو اور نہ ہی کو ئی سلام کرنے کے لئے میری طرف بڑھے ۔
لوگوں کو خلیفہ کا پیغام سنانے کے بعدربیع وہاں سے چلاگیا،میں بھی ساتھ تھا۔ کچھ ہی دیر بعد خلیفہ منصور ، ربیع اور مسیب کے ساتھ آیا۔میں بھی اس کے پیچھے تھا۔ خلیفہ کو دیکھ کر مجلس سے کوئی شخص بھی تعظیم کے لئے کھڑا نہ ہوا اور نہ ہی کسی نے سلام میں پہل کی بلکہ خود خلیفہ نے آتے ہی لوگو ں کوسلام کیا پھر وہ رسول کریم،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی قبرِ اَنور پر حاضر ہوا، صلوٰۃوسلام پیش کرنے کے بعد ربیع سے کہا :” اگر آج قاضی محمد بن عمران طلحی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے میرے ساتھ نرمی کا بر تا ؤ کیا اور میرے منصب کی وجہ سے کوئی غلط فیصلہ کیا تو میں اسے فورا ً معزول کردو ں گا ۔”
پھر خلیفہ منصور ،قاضی کی عدالت میں آیا اس وقت اس کے جسم پر چادر تھی اور ایک تہبند تھا۔ جب حضرت سیدنا محمد بن عمران طلحی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے خلیفہ کو دیکھا تو ذرہ برابر بھی مرعوب نہ ہوئے اور اپنی نششت پربیٹھے رہے ۔خلیفہ منصور کی چادر اس کے کندھے سے گر گئی تو کسی نے بھی اسے چادر اٹھا کر نہ دی بلکہ اس نے خود ہی اپنی چادر اٹھائی۔
قاضی محمد بن عمران علیہ رحمۃ اللہ المنان نے مقدمہ کی کاروائی شر وع کرتے ہوئے دونوں فریقوں کو اپنے سامنے بلایا۔ پھر مدعیین (یعنی دعوی کرنے والوں) سے پوچھا :”تمہارا خلیفہ پر کیا دعوی ہے؟” انہوں نے کہا:” ہمارے اُونٹوں کو جبراً چھینا گیا ہے۔” چنانچہ قاضی صاحب نے خلیفہ وقت کے خلاف ان لوگو ں کے حق میں فیصلہ کردیا اور بالکل رُورعایت سے کام نہ لیا اور خلیفہ سے کہا: ”ان غریبوں کوان کا پورا پورا حق دیا جائے ۔” چنانچہ انہیں خلیفہ کی طر ف سے ان کے اُونٹ واپس کردیئے گئے ۔
اس فیصلہ کے بعد خلیفہ منصور اپنی قیام گاہ کی طرف روانہ ہوگیا ۔ قاضی صاحب لوگو ں کے مسائل حل کرنے میں مشغول رہے اور خلیفہ کی طرف بالکل تو جہ نہ دی۔ پھر خلیفہ نے ربیع کو بلایا اور کہا:” جاؤ اور قاضی صاحب کو بلا کر لا ؤ ۔”ربیع نے کہا: ”خدا عزوجل کی قسم !قاضی صاحب اس وقت تک آپ کے پاس نہیں آئیں گے جب تک مجلس میں موجود تمام فریا د یو ں کی فریاد نہ سن لیں۔ بہر حال میں چلا جاتاہوں اور آپ کا پیغام ان تک پہنچا دیتا ہوں۔”
چنانچہ ربیع، قاضی محمد بن عمران علیہ رحمۃ اللہ المنان کے پاس آیا اور اسے خلیفہ منصور کا پیغام د ے کر واپس آگیا ۔ قاضی صاحب لوگوں کے مسائل سنتے رہے اور فیصلے کرتے رہے جب سب لوگ چلے گئے اور مجلس بر خاست ہوگئی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خلیفہ منصورکے پاس گئے ، اسے سلام کیا ۔ خلیفہ نے سلام کا جواب دیا اورقاضی صاحب سے یوں مخاطب ہوئے :
اے مرد مجاہد!اے جرأ ت مند قاضی محمد بن عمران ! اللہ عزوجل تجھے تیرے دین کی طر ف سے تیری ذہانت، جرأت مندی اور اچھا فیصلہ کرنے پر اچھا بدلہ عطا فرمائے ، اللہ عزوجل تیرے حسب ونسب میں برکتیں عطا فرمائے پھر خلیفہ منصور نے خادم کو حکم دیا کہ دس ہزار دینار اس مردِ مجاہد قاضی کو ہماری طر ف سے بطور ِانعام پیش کئے جائیں۔ چنانچہ حضرت سیدنا محمد بن عمران علیہ رحمۃ اللہ المنان کو دس ہزار دینار بطور ِانعام پیش کئے گئے، پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے واپس اپنی رہائش گاہ کی طر ف چلے آئے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سبحان اللہ عزوجل ! ہمارا دینِ اسلام کتناعظیم دین ہے کہ اس نے آکر تمام لوگوں کو ایک ہی صف میں کھڑاکر دیا۔ چاہے کو ئی با دشاہ ہو یا فقیر۔ جب حقوق العباد کا معاملہ ہو تو جس کا حق ثابت ہوجائے اُسے اس کاپورا پورا حق اداکرنے کا حکم دیا اور اللہ عزوجل نے دین اسلام میں ایسے ایسے مردانِ مجاہدپیدا فرمائے جو کبھی بھی حق سے روگردانی نہیں کرتے۔ ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیتے ہیں ،چاہے اس کے لئے با دشاہوں سے بھی ٹکر کیوں نہ لینی پڑے ، دین اسلام نے ہمیں مساوات کا درس دیا، اللہ عزوجل ہمیں ہمیشہ حق کا ساتھ دینے کی تو فیق عطا فرمائے اور دین اسلام پر ہی ہمارا خاتمہ فرمائے۔ کتنا پیارا ہے ہمارا دین جس نے مساوات وبرابری کا درس دیا۔ آمین بجاہ ِالنبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز نہ کو ئی بندہ رہا نہ کو ئی بندہ نواز