علامات حب صادق
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے محب صادق میں علامات ذیل پائی جاتی ہیں ۔ اگر کوئی شخص حب احمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا دعویٰ کرے اور اس میں یہ علامات نہ پائی جائیں تو وہ حب میں صادق و کامل نہیں ۔
{1} آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَقوال و اَفعال و آثار کا اِقتدائ، آپ کی سنت پر عمل، آپ کے اَوامر کا اِمتثال ( ۲) اور آپ کی نواہی (۳ ) سے اجتناب اور آپ کے آداب سے آراستہ ہونا۔
{2} آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ذکر کثرت سے کرنا۔مثلاً درود شریف کثرت سے پڑھنا، حدیث شریف پڑھنا، مولود شریف کا پڑھنا یا مجالس میلاد شریف میں شامل ہونا۔
{3} آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت سے مشرف ہونے کا نہایت اشتیاق پیدا ہونا جیسا کہ حضرت
بلال و ابو موسیٰ وغیرہ کو تھا۔ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ
{4} آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم و توقیر کرنا۔ (تفصیل آگے آئے گی اِنْ شَاء اللّٰہ تَعَالٰی)
{5} آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جن سے محبت رکھتے تھے (اہل بیت عظام و صحابہ کرام مہاجرین و انصاررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ) ان سے محبت رکھنااور جو شخص ان بزرگواروں سے عداوت رکھے اس سے عداوت رکھنا اورجو ان کو سب و شتم کرے (۱ ) اس کو بُرا جاننا۔
صحابہ کرام کو رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اس قدر محبت تھی کہ مباحات میں بھی جو اشیاء حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو محبوب و پسندیدہ تھیں وہی صحابہ کرام کو بھی محبوب تھیں ۔جیسا کہ واقعات ذیل سے ظاہر ہے۔
حضرت عبید بن (۲ ) جریج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ اس نے حضرت ابن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا کہ میں نے دیکھا کہ تم بیل کے دباغت کیے ہوئے چمڑے کا بے بال جوتا پہنتے ہو۔ حضرت ابن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا کہ آپ ایسا جوتا پہنا کرتے تھے جس میں بال نہ ہوں اور اسی میں وضو کیا کرتے تھے اس لئے میں دوست رکھتا ہوں کہ ایسا جوتا پہنوں ۔ (شمائل ترمذی) ( ۳)
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک درزی نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کھانے کے لئے بلایا جو اس نے تیار کیا تھا۔میں بھی حضورعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے ساتھ گیا جو کی روٹی اور شوربا حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آگے لایا گیا جس میں کدو اور خشک کیا ہوا نمکین گوشت تھا۔ میں نے حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا کہ پیالے کے اطراف سے کدو کی قاشیں تلاش کرتے تھے اس لئے میں اس دن کے بعد سے کدو ہمیشہ پسند کرتا رہا۔ (مشکوٰۃ بحوالہ صحیحین، کتاب الاطعمہ) (۱ )
امام ابو یوسف رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے سامنے اس روایت کا ذکر آیا کہ حضور سرور عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کدو کو پسند فرماتے تھے۔ ایک شخص نے کہا : اَنَا مَا اُحِبُّہ (میں اس کو پسند نہیں کرتا) یہ سن کر امام موصوف نے تلوار کھینچ لی اور فرمایا: جَدِّدِ الْاِیْمَانَ وَ اِلَّا لَاَقْتُلَــنَّکَ ۔ تجدید ایمان کر ورنہ میں تجھے ضرور قتل کروں گا۔ (مرقاۃ، جزء ثانی، ص۷۷) (۲ )
ایک روز حضرات حسن بن علی اور عبد اللّٰہ بن عباس اور عبد اللّٰہ بن جعفر بن ابی طالب حضرت سلمیٰ (خادمۂ رسول اللّٰہ ) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہمارے واسطے وہ کھانا تیار کرو جسے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پسند فرمایا کرتے اور خوش ہوکر کھایا کرتے تھے۔ اس نے (امام حسن سے) کہا: بیٹا! آج تم اسے پسند نہ کرو گے۔ حضرت امام نے کہا کہ تم ہمارے واسطے وہی تیار کردو۔ پس حضرت سلمیٰ نے کچھ جو کا آٹا ایک ہنڈیا میں چڑھادیا۔ اوپر سے روغن زیتون اور کالی مرچیں اور زِیرہ ڈال دیا۔پک گیا تو ان کے آگے رکھ کر کہا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس کھانے کو پسند فرمایا کرتے تھے اور خوش ہوکر کھایا کرتے تھے۔ (شمائل ترمذی) (۳ )
{6} جو لوگ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بغض و دشمنی رکھیں ان کو اپنا دشمن سمجھنا اور مخالف ِسنت و مبتدع سے دور رہنا، مخالف شریعت سے نفرت کرنا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے:
لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ- (مجادلہ، ع۳)
تو نہ پائے گا کسی قوم کو جو اللّٰہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ دوستی کریں ایسوں سے جو اللّٰہ اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اگر چہ وہ لوگ انکے باپ یا انکے بیٹے یا انکے بھائی یا ان کے گھرانے کے ہوں ۔ (۴ )
اس آیت پر صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا پورا پورا عمل تھا۔ انہوں نے حضورعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی اعانت میں اپنی آبرو اور جان ومال سے دریغ نہ کیا۔کفار و مشرکین کے ہاتھوں سے اَذِیتیں برداشت کیں ۔خدا و رسول کے لئے اپنا وطن چھوڑا، خویش (۱ ) و اقارب سے رشتہ الفت توڑا، اعلاء کلمۃ اللّٰہ کے لئے جہاد کیا اور خدا و رسول کی خوشنودی کے لئے اَعداء اسلام کو خواہ اقارب ہی ہوں قتل کیا یا کرنا چاہا۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ بن جرَّاح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یوم بدر میں اپنے والد کو قتل کر دیا۔ (۲ ) عبد اللّٰہبن اُبی جو رأس المنافقین (۳ ) تھا اس کے صاحبزادے حضرت عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا: اجازت ہو تو میں ابن اُبی کو قتل کردوں ۔ مگر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اجازت نہ دی۔ (۴ ) حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنگ بدر میں اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ مخزومی کو قتل کر دیا۔ (۵ ) بدر کے دن حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لڑکے عبد الرحمن نے جو اس وقت تک ایمان نہ لائے تھے مبارز طلب کیا تو خود حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے مگر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اجازت نہ دی۔ (۶ ) جنگ احد میں حضرت مصعب بن عمیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بھائی کو قتل کردیا۔ ( ۷) حضرات علی و حمزہ و عتبہ بن حارث رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے جنگ بدر میں عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کو جو انکے گھرانے کے تھے قتل کرڈالا۔ جنگ بدر کے خاتمہ پر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے قیدیوں کے بارے میں اپنے اصحاب سے مشورہ کیا۔ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا مشورہ دیا لیکن حضرت فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ آپ ان کو ہمارے حوالے کر دیں
تاکہ ہم ان کو قتل کردیں ۔ مثلاً عقیل کو حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حوالے کردیں اور میرے فلاں رشتہ دار کو میرے سپرد کردیں ۔مگر حضور رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رائے پر عمل کیا۔ (۱ )
{7} قرآن کریم سے محبت رکھنا جس کو رسول اکرمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا خُلْق بنایا ہوا تھا۔ قرآن کریم سے محبت رکھنے کی نشانی یہ ہے کہ ہمیشہ اس کی تلاوت کرے اور اس کے معانی سمجھے اور اس کے احکام پر عمل کرے۔ حضرت سہل بن عبد اللّٰہ تُسْتَری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :
’’ خدا کی محبت کی نشانی قرآن سے محبت رکھنا ہے اور قرآن سے محبت رکھنے کی علامت رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے محبت رکھنا ہے اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے محبت رکھنے کی علامت آپ کی سنت سے محبت رکھنا ہے اور سنت سے محبت رکھنے کی نشانی آخرت سے محبت رکھنا ہے اور آخرت سے محبت رکھنے کی نشانی دنیا سے بغض رکھنا ہے اور بغض دنیا کی علامت یہ ہے کہ اس سے بجز کفاف و قوت لا یموت ذخیرہ نہ کرے جیسا کہ مسافر اپنے ہاتھ اسی قدر توشہ لے جاتا ہے کہ جس سے منزل مقصود پر پہنچ جائے۔ ‘‘
{8} رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی امت پر شفقت رکھنا اور ان کی خیر خواہی کرنا جیسا کہ خود حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کیا کرتے تھے۔
{9} دنیا میں رغبت نہ کرنا اور فقر کو غنا پر ترجیح دینا۔حضرت عبد اللّٰہ بن مغفل کا بیان ہے کہ ایک شخص نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خدا کی قسم! میں بے شک آپ سے محبت رکھتا ہوں ۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: دیکھ تو کیا کہتا ہے۔اس نے تین مرتبہ یہی عرض کیا۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اگر تو مجھ سے محبت رکھتا ہے تو فقر و فاقے کے لئے برگستوان ( ۲) تیار کرلے
کیونکہ فقر و فاقہ میرے محب کی طرف اس سے بھی جلدی پہنچتا ہے جتنی کہ پانی کی رَو اپنے منتہیٰ کی طرف پہنچتی ہے۔ ( ۱)
اس حدیث میں برگستوان کنایہ صبر سے ہے جس طرح لڑائی میں برگستوان گھوڑے کو اذیت سے بچاتی ہے اسی طرح صبر عاشقِ رسولِ خدا کو فقر و فاقے کی اذیت سے بچاتا ہے کیونکہ صبر کے بغیر نفوس فقر کی تکلیف کو برداشت نہیں کرسکتے۔
خوش نصیب وہ لوگ ہیں جو رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے محبت رکھتے اور آپ کی اطاعت کرتے ہیں ۔حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں عرض کیا: آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کی نسبت جو ایسی قوم سے محبت رکھتا ہے جن سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی۔ آپ نے فرمایا: اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ یعنی انسان قیامت کے دن ان لوگوں کے زمرہ میں اٹھے گا جن سے وہ محبت رکھتا تھا۔ ( ۲)
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ ایک شخص نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے دریافت کیا کہ قیامت کب ہوگی۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ تجھ پر افسوس! تونے اس دن کے لئے کیا تیار کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے کچھ تیار نہیں کیا۔ہاں خدا اور رسول سے محبت رکھتا ہوں ۔آپ نے فرمایا کہ تو اس کے ساتھ ہوگا کہ جس سے محبت رکھتا ہے۔ (۳)
اس حدیث کے تحت میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ یوں تحریر فرماتے ہیں : ’’ چوں خدارا دوست مے داری در جوار رحمت و عزت وے خواہی بود وچوں رسول خدار ا دوست داری نیز از مقام قربت و عنایت وے بہرہ ور
باشی اگر چہ مقام او بلند ترو عزیز تراست کہ کسے بآنجانر سد اما نور محبت و تبعیت وے بر محبان و تابعان وے خواہدتافت ( )
و بمعیت قربت وے مشرف خواہد ساخت۔ ‘‘ (۱ )
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بیان فرماتی ہیں (۲ ) کہ ایک شخص نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ بے شک میرے نزدیک میری جان اور میری اولاد سے زیادہ پیارے ہیں ، میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں مگر جس وقت آپ یاد آجاتے ہیں تو جب تک آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ کو دیکھ نہ لوں صبر نہیں آتا۔ جب میں اپنی مو ت اور آپ کی موت کویاد کرتا ہوں تو میں یقین کرتا ہوں کہ جنت میں داخل ہوکر آپ انبیاءے کرام علیہم السلام کے ساتھ بلند مرتبہ میں اٹھائے جائیں گے اور میں جب جنت میں داخل ہوں گا تو (ادنیٰ درجہ میں ہونے کے سبب سے) مجھے ڈر ہے کہ آپ کو نہ دیکھ سکوں گا۔یہ سن کر آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے کچھ جواب نہ دیا یہاں تک کہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلام یہ آیت لے کر نازل ہوئے:
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ (۶۹) (نساء، ع۹) (۳ )
اور جو کوئی اللّٰہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرے پس وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللّٰہ نے انعام کیا ہے یعنی پیغمبروں ، صدیقوں ، شہیدوں اور نیکوں کے ساتھ اور یہ اچھے رفیق ہیں ۔ (۴ )
________________________________
1 – بُرا بھلا کہنا۔
2 – سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں اس طرح لکھا ہے : عبید بن جریح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ اس نے حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔الخ، جبکہ ‘’شمائل ترمذی ‘‘ میں ہے: ‘’ عن عبید بن جریج انہ قال لابن عمر رأیتک تلبس النعال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔الخ ‘‘ اس کے علاوہ بخاری ، مسلم، دلائل النبوۃ للبیہقی ، سبل الہدی و الرشاد اور حدیث و سیرت کی دیگر کتب میں بھی(الفاظِ مختلفہ کے ساتھ اس روایت میں ) ‘’عبید بن جریج ‘‘ اور’’ ابن عمر‘‘ کا ذکر ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں ‘’عبید بن جریح ‘‘ اور ‘’ عمر ‘‘کے بجائے ‘’ عُبید بن جُریج ‘‘اور ‘’ ابن عُمَر‘‘ لکھا ہے ۔و اللّٰہ تعالی اعلم بالصواب۔ علمیہ
3 – الشمائل المحمدیۃ للترمذی، الباب فی نعلہ ، الحدیث:۷۴،ص۶۴۔علمیہ
________________________________
1 – سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ‘’ تاخت ‘‘ لکھا ہے جو کہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے کیونکہ ‘’ اشعۃ اللمعات‘‘ میں ‘’ تافت ‘‘ ہے اور ازروئے معنی بھی ‘’ تافت ‘‘ ہی مناسب معلوم ہوتا ہے لہٰذا ہم نے یہاں ‘’ اشعۃ اللمعات‘‘کے مطابق ‘’ تافت ‘‘ لکھا ہے۔ و اللّٰہ تعالٰی اعلم ۔علمیہ
2 – ترجمہ: جب تو اللّٰہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے تو تجھے اللّٰہ کے جوار رحمت اور حضور علیہ الصلاۃ و السلامکے قرب میں جگہ نصیب ہو گی اگرچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مقام بہت بلند ہے اور وہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا لیکن آپ کی پیروی اور محبت کا نور آپ کے محبین وتابعین پر ضرور چمکے گا ۔علمیہ(اشعۃ اللمعات،کتاب الآداب،باب الحب فی اللہ و من اللہ، ج۴، ص۱۴۴) ۔علمیہ
3 – در منثور بحوالہ طبرانی وابن مردو یہ وابو نعیم فی الحلیۃ والضیاء المقدسی فی صفۃ الجنۃ۔
4 – ترجمۂکنزالایمان:اور جو اللّٰہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللّٰہ نے فضل کیا یعنی انبیااور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں ۔ (پ۵،النساء:۶۹) ۔علمیہ
5 – الدر المنثور فی التفسیر الما ثور،سورۃ النساء، تحت الایۃ :۷۰،ج۲، الجزء۵،ص۵۸۸ ۔علمیہ