رَضاعت
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو آپ کی والد ہ ماجدہ نے کئی دن دودھ پلایا پھر ابو لَہَب کی آزادکی ہوئی
لونڈی ثُوَیْبَہ نے چند روزایسا ہی کیا، بعد ازاں حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے یہ خدمت اپنے ذمہ لی۔
قریش میں دستور تھا کہ شہر کے لوگ اپنے شیر خوار بچوں کو بدوی آبادی (1) میں بھیج دیا کر تے تھے تاکہ بچے بدوؤں میں (2) پل کر فصاحت اور عرب کی خالص خصوصیات حاصل کریں اور مدتِ رضاعت کے ختم ہونے پر عوضانہ دے کر واپس لے آتے تھے۔ اس لئے نواحِ مکہ کے قبائل کی بدوی عورتیں سال میں دود فعہ ربیع وخریف میں بچو ں کی تلاش میں شہر مکہ میں آیا کرتی تھیں ۔چنانچہ اس دفعہ قحط سالی میں حلیمہ سَعْدِیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا اپنے قبیلہ کی دس عورتوں کے ساتھ اسی غرض سے شہر میں آئی۔حلیمہ کے ساتھ اس کا شیر خوار بچہ عبد اللّٰہ نام، اس کا شوہر حارِث بن عبدالعزی سَعْدِی ، ایک دراز گوش اور ایک او نٹنی تھی۔ بھوک کے مارے نہ اونٹنی دودھ کا ایک قطرہ دیتی تھی اور نہ حلیمہ کی چھاتیوں میں کافی دودھ تھا، اس لئے بچہ بے چین رہتا تھا اور رات کو اس کے رونے کے سبب سے میاں بیوی سوبھی نہ سکتے تھے، اب قسمت جاگی تو حلیمہ کو جو شرَف وکمال میں مشہور تھی ایسا مبارک رَضِیْع (3) مل گیا کہ ساری زحمت کا فور ہو گئی۔دیکھتے ہی دائیں چھا تی سے لگا لیا۔ دودھ نے جوش مارا حضرت نے پیااور بائیں چھا تی چھوڑدی جس سے حلیمہ کے بچے نے پیا، اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوتا رہا، یہ عدلِ جبلی (4) کا نتیجہ تھا۔ڈیرے پر پہنچی تو پھر دونوں بچوں نے سیر ہو کر دودھ پیا۔حارث نے اٹھ کر اونٹنی کو جو دیکھا تو اس کے تھن دودھ سے بھر ے ہوئے تھے جس سے میاں بیوی سیر ہو گئے اور رات آرام سے کٹی۔ اس طرح تین راتیں مکہ میں گزار کر حضرت آمنہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو وداع کر دیا گیا اور حلیمہ اپنے قبیلہ کو آئی، اس نے حضرت کو اپنے آگے دراز گوش پر سوار کر لیا۔دراز گوش نے پہلے کعبہ کی طرف تین سجدے کر کے سر آسمان کی طرف اٹھایا گو یا شکر یہ ادا کیا کہ اس سے یہ خدمت لی گئی، پھر روانہ ہوئی اور حضرت کی برکت سے ایسی چست وچالاک بن گئی کہ قافلہ کے سب چوپایوں سے آگے چل رہی تھی حالانکہ جب آئی تھی تو کمزوری کے سبب سے سب سے پیچھے رہ جاتی تھی۔ ساتھ کی عورتیں حیران ہو کر پو چھتی تھیں ابو ذُؤَ یْب کی بیٹی ! کیا یہ وہی دراز گوش ہے ؟ حلیمہ جواب دیتی واللّٰہیہ وہی ہے۔ بنو سعد میں اس وقت سخت قحط تھا مگر حضرت کی برکت سے حلیمہ کے مویشی سیر ہو کر آتے اور خوب دودھ دیتے اور دوسروں کے مویشی بھوکے
آتے اوروہ دودھ کا ایک قطرہ بھی نہ دیتے، اس طرح حلیمہ کی سب تنگدستی دور ہو گئی۔ (1)
حلیمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا حضرت (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کو کسی دور جگہ نہ جانے دیتی تھی، ایک روز وہ غافل ہو گئی اور حضرت اپنی رَضا ئی بہن شَیْمَاء کے ساتھ دوپہر کے وقت بھیڑوں کے ریو ڑمیں تشریف لے گئے مائی حلیمہ تلاش میں نکلی اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو شَیْمَاء کے ساتھ پا یا۔کہنے لگی: تپش میں ! ! ! شَیْمَاء بولی: (2) ’’ اماں جان ! میرے بھائی نے تپش محسوس نہیں کی، بادل آپ پر سایہ کر تا تھا، جب آپ ٹھہر جاتے تو بادل بھی ٹھہر جاتا اور جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمچلتے تو بادل بھی چلتا، یہی حال رہا یہاں تک کہ ہم اس جگہ آپہنچے ہیں ۔ ‘‘ (3)
جب حضرت دوسال کے ہو گئے تو مائی حلیمہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دودھ چھڑا دیا اور آپ کو آپ کی والدہ کے پاس لے کر آئی اور کہا: کاش! تو اپنے بیٹے کو میرے پاس اور رہنے دے تا کہ قوی ہو جائے کیونکہ مجھے اس پر وبائے مکہ کا ڈر ہے۔ یہ سن کر بی بی آمنہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حلیمہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ساتھ واپس کر دیا۔حلیمہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا بیان ہے کہ ہمیں واپس آئے دویا تین مہینے گز رے تھے کہ ایک روز حضرت اپنے رضائی بھائی عبد اللّٰہ کے ساتھ ہمارے گھروں کے پیچھے ہماری بھیڑوں میں تھے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا بھائی دوڑ تا آیا، کہنے لگا کہ میرے اس قریشی بھائی کے پاس دو شخص آئے جن پر سفید کپڑے ہیں انہوں نے پہلو کے بل لٹا کر اس کا پیٹ پھاڑ دیا۔یہ سن کر میں اور میرا خا وند دوڑے گئے، دیکھا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکھڑے ہیں اور چہر ے کا رنگ بد لا ہوا ہے، ہم دونوں آپ کے گلے لپٹ گئے اور پو چھا : بیٹا! تجھے کیا ہوا؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بیان کیا کہ دو شخص میرے پاس آئے جن پر سفید کپڑ ے تھے، انہوں نے پہلو کے بل لٹا کر میرا پیٹ پھاڑ دیا اور اس میں سے ایک خون کی پھٹکی نکال کر کہا: ’’ ھٰذَاحَظُّ الشَّیْطٰنِ مِنْکَ ‘‘ ( یہ تجھ سے شیطان کا حصہ ہے) پھر اسے ایمان وحکمت سے بھر کر سِی دیا۔پس ہم آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اپنے خیمہ میں لے آئے۔میرے خاوند نے کہا: حلیمہ ! مجھے ڈرہے اس لڑ کے کو کچھ آسیب ہے، آسیب ظاہر ہونے سے پہلے اسے اس کے کنبے میں چھوڑ آ۔میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو آپ کی والدہ کے پاس لا ئی اور بڑے اِصرار کے
بعد اس سے حقیقت حال بیان کی۔ماں نے کہا : اللّٰہکی قسم! ان پر شیطان کودخل نہیں ، میرے بیٹے کی بڑی شان ہے۔ (1)