چار عظیم نعمتیں
چار عظیم نعمتیں
حضرت سیدناسالم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے ساتھ ”لبنان” کے پہاڑو ں میں سفر پر تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک مقام پر پہنچ کر مجھ سے فرمایا:” اے سالم !جب تک میں واپس
نہ آجاؤں تم اسی جگہ ٹھہرنا ۔” اتنا کہنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک پہاڑ کی سمت گئے اور میری نظر وں سے اوجھل ہوگئے ۔ دو دن گزر گئے لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ واپس تشریف نہ لائے۔ مَیں اکیلا اس ویران جگہ پر یشان تھا، جب مجھے بھوک لگتی تو پتے اور سبزی کھالیتا،جب پیا س کی شدت ہوتی تو قریبی تا لاب سے پانی پی لیتا۔ بالآخر تین دن بعد حضرت سیدنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی تشریف لائے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے چہرے کا رنگ متغیر تھا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت زیادہ پریشانی کے عالم میں تھے ۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی حالت کچھ سنبھلی تو میں نے عرض کی: ”حضور !کیاکسی درندے کی وجہ سے آپ پر خوف طاری ہے؟” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواباًفرمایا:” نہیں۔” میں نے عرض کی:” پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اتنے خوفزدہ اور پریشان کیوں ہیں؟” فرمانے لگے: ”یہاں سے جانے کے بعد میں ایک غارکی طرف نکل گیا۔ جب میں اس میں داخل ہو ا تو ایک ایسے بزرگ کو دیکھا جن کی داڑھی اور سر کے بال بالکل سفید ہوچکے تھے ، جسم بہت کمزور ولاغر تھا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ بزرگ ابھی قبر سے نکل کر آرہے ہیں، وہ نہایت غمگین حالت میں اپنے پاک پروردگار عزوجل کی عبادت میں مشغول تھے اور نہایت خشوع وخضوع سے نماز پڑھ رہے تھے ۔جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے آگے بڑھ کر انہیں سلام کیا ۔”انہوں نے جواب دیا او ردوبارہ نماز میں مشغول ہوگئے ،عصر تک نماز میں مشغول رہے پھر ایک پتھر سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں بلند کرنے لگے۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہ کی بالآخر میں نے ہی ان سے عرض کی :”اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے، مجھے کچھ نصیحت فرمائیے او رمیرے لئے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کیجئے ۔”
اس بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” اے بیٹا! میں دعا کر تا ہوں کہ اللہ عزوجل تجھے اپنی سچی محبت اور اپنے قُرب ِخاص کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ اِتناکہنے کے بعد وہ بزرگ چپ ہوگئے۔” میں نے عرض کی :”حضور!کچھ اور نصیحت فرمائیے۔” فرمایا : ”جس شخص کو اللہ عزوجل اپنے قُرب کی دولت سے نواز تا ہے اسے چار عظیم نعمتیں عطا فرماتا ہے :
(۱)۔۔۔۔۔۔ بغیرخاندانی شان وشوکت کے عزت ۔
(۲)۔۔۔۔۔۔بغیر طلب کے علم۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ بغیر مال کے غِناء۔
(۴)۔۔۔۔۔۔ بغیر جماعت کے اُنس والفت۔
اِتنا کہنے کے بعد اس بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک درد ناک چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے۔ میں نے گمان کیا کہ شاید یہ بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اِنتقال فرماچکے ہیں لیکن تین دن کے بعد انہیں افاقہ ہوا فوراً قریبی چشمے پر گئے۔ وضوکیا اور مجھ سے پوچھا:
”اے بیٹا! اس حالت میں میری کتنی نمازیں فوت ہوگئیں دویا تین نماز یں۔” میں نے عرض کی :”حضور! آپ کی تین دن اور تین راتوں کی نمازیں فوت ہو چکی ہيں، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تین دن تک بے ہوشی کی حالت میں رہے ہیں ۔” پس انہوں نے اپنی نمازیں مکمل کیں۔
پھر مجھ سے فرمایا:”جب میں اپنے پاک پروردگار عزوجل کا ذکر کرتا ہوں تو میرا شوقِ ملاقات بڑھ جاتا ہے، مجھ پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ، میں مخلوق سے ملاقات کو پسند نہیں کرتا کیونکہ لوگو ں کی ملاقات مجھے میرے رب عزوجل کے ذکر سے غافل کر دیتی ہے۔بیٹا! اب تم یہاں سے چلے جاؤ تا کہ میں اپنے رب عزوجل کی عبادت کر سکوں، اللہ عزوجل تمہیں اپنی حفظ وامان میں رکھے ۔”
جب میں نے یہ سنا تومجھے رونا آگیااورمیں نے عرض کی: ”حضور! میں مسلسل تین دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضر رہا ہوں، مجھے مزید کچھ نصیحت فرما یئے۔”
تو وہ بزرگ فرمانے لگے:” اے میرے بیٹے! اپنے رب عزوجل سے سچی محبت کر ، اس کی محبت کے عوض کوئی چیز طلب نہ کر، اس سے بے غر ض محبت کر۔بے شک جو لوگ اللہ عزوجل سے محبت کرتے ہیں وہ لوگو ں کے سردار ہیں ، زاہدوں کی نشانیاں ہیں۔ ایسے لوگ اللہ عزوجل کے منتخب شدہ بندے ہیں، اللہ عزوجل نے انہیں اپنی محبت کے لئے منتخب فرمالیاہے ،یہ لوگ اللہ عزوجل کے پسندیدہ بندے ہیں۔ اتنا کہنے کے بعد اس نیک بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک چیخ ماری او راس کی رُو ح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ۔”
کچھ ہی دیر بعد میں نے دیکھا کہ مختلف سمتو ں سے بہت سے اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ پہاڑو ں سے اُتر کر آرہے ہیں۔ انہوں نے اس بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تکفین کی، نماز جنازہ ادا کی اور اسے دفن کر دیا ۔
جب وہ جانے لگے تو میں نے ان سے پوچھا: ”یہ بزرگ کون تھے اوران کا نام کیا تھا؟” انہوں نے بتایا :” ان کانام شیبان المُصاب علیہ رحمۃ اللہ الوھاب ہے۔”اِتنا کہنے کے بعد وہ تمام صالحین وہاں سے چلے گئے ۔
حضرت سیدناسالم علیہ رحمۃ اللہ الدائم فرماتے ہیں کہ میں نے اہلِ شام سے حضرت سیدناشیبان المصاب علیہ رحمۃ اللہ الوہاب کے متعلق پوچھا: ”انہوں نے بتا یا کہ لوگ انہیں دیوانہ سمجھتے تھے اور بچے انہیں پاگل سمجھ کر تنگ کرتے اور پتھر مارتے اسی لئے وہ یہاں سے چلے گئے اور پہاڑوں میں مشغولِ عبادت ہو گئے۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي الله تعالي عليه وسلم)
(اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل !ہمیں بھی اپنا قرب ِخاص عطا فرما ، دنیا کی محبت سے بچا کر اپنی محبت کی لازوال
دولت سے سرفراز فرما، بزرگانِ دین رحمہم اللہ تعالیٰ کی طر ح خوب عبادت وریا ضت کا ذوق وشوق عطافرما، ہر وقت اپنے اور اپنے مدنی حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے جلوؤں میں گم رہنے کی سعادت عطا فرما ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)