اعمال

نفس کے محاسبہ کا انوکھاطریقہ

نفس کے محاسبہ کا انوکھاطریقہ

حضرت سیِّدُنا ابراہیم تیمی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ( اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کا انداز بیان کرتے ہوئے) فرماتے ہیں، ایک مرتبہ میں نے یہ تصور باندھا کہ میں جنت میں ہوں، وہاں کے پھل کھا رہا ہوں اور اس کی نہروں سے مشروب پی رہا ہوں۔ اس کے بعد میں نے یہ خیال جمایا کہ میں جہنم میں ہوں اور تھوہڑ (کانٹے دار درخت)کھا رہا ہوں اوردوزخیوں کا پیپ پی رہا ہوں۔ ان تصوُّرات کے بعد

میں نے اپنے نفس سے پوچھا: ”تجھے کس چیز کی خواہش ہے؟ (جنت کی یا دوزخ کی؟)” نفس نے کہا: ”(جنت کی اس لئے ) میں چاہتا ہوں کہ دنیا میں جا کر نیک عمل کرکے آؤں۔” تب میں نے اپنے نفس سے کہا: ” فی الحال تجھے مہلت(مُہْ۔لَت) ملی ہوئی ہے۔ (یعنی اے نفس! اب تجھے خود ہی راہ مُتَعَیَّن کرنی ہے کہ سُدھر کر جنت میں جانا ہے یا بگڑ کر دوزخ میں! لہٰذا) اسی حساب سے عمل کر۔”

(حلیۃ الاولیاء، ج۴، ص۲۳۵،رقم۵۳۶۱۔ مکاشفۃ القلوب، ص۲۶۵)

پیارے اسلامی بھائیو! فضول دنوں میں تم نے جو وقت برباد کیا اس کی تلافی کرو، عنقریب ہر عمل کرنے والا اپنے اعمال کا بدلہ پائے گا اس دن نافرمان معافی چاہے گا لیکن اسے معافی نہ ملے گی اور اپنی گمراہی پر ندامت کرتے ہوئے اپنی انگلیاں کاٹے گا۔ ہائے، افسوس !اس دن کیسی حسرت چھائی ہوگی اوراس دن کی ہولناکیاں کتنی شدید ہوں گی۔ اللہ عزَّوَجَلَّ کی قسم!اپنے غفلت کے ایام پر گریہ و زاری کرو، موت کی سختیوں میں غوروفکرکرو، مرنے سے پہلے پہلے محبوب ِحقیقی عَزَّوَجَلَّ کے دروازے پرحاضر ہو جاؤگویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں اچانک موت آچکی ہے۔ چنانچہ، اللہ عزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

وَ اَنۡذِرْہُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ ۘ وَ ہُمْ فِیۡ غَفْلَۃٍ وَّ ہُمْ لَا یُؤْمِنُوۡنَ ﴿39﴾

ترجمۂ کنزالایمان :اور انہیں ڈرسناؤ پچھتاوے کے دن کا،جب کام ہو چکے گااور وہ غفلت میں ہیں،اور وہ نہیں مانتے۔(پ16، مریم:39)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اپنے نفس کوشہوات کی قید سے آزاد کر لواور اپنی عقلوں کو غفلت کے نشے سے بیدار کر لواور موت سے پہلے دارِبقاء کے لئے تیار ہوجاؤ۔ گویا میں تمہارے ساتھ ہوں اور موت کا منادی تمہارے پاس آچکاہے:

وَ اَنۡذِرْہُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ ۘ وَ ہُمْ فِیۡ غَفْلَۃٍ وَّ ہُمْ لَا یُؤْمِنُوۡنَ ﴿39﴾

ترجمۂ کنزالایمان :اور انہیں ڈرسناؤ پچھتاوے کے دن کا،جب کام ہو چکے گااور وہ غفلت میں ہیں،اور وہ نہیں مانتے۔(پ16، مریم:39)
اللہ عزَّوَجَلَّ کی قسم! عنقریب افسوس اور غم میں تمہارے آنسو جاری ہوں گے اورجب ہمارے نور کو دیکھنے والا مَلَکُ المَوْت کو دیکھے گا تو ہکا بکا رہ جائے گااور تو پل صراط پر اپنے اعمال کے ساتھ مقید ہو کر رہ جائے گااور تمہارے پوشیدہ وظاہر تمام برے اعمال ظاہر ہو جائیں گے۔ اللہ عزَّوَجَلَّ کی قسم!اس وقت تمہاری آنکھیں آنسوبہائیں گی۔چنانچہ ،
اللہ عزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

وَ اَنۡذِرْہُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ ۘ وَ ہُمْ فِیۡ غَفْلَۃٍ وَّ ہُمْ لَا یُؤْمِنُوۡنَ ﴿39﴾

ترجمۂ کنزالایمان :اور انہیں ڈرسناؤ پچھتاوے کے دن کا،جب کام ہو چکے گااور وہ غفلت میں ہیں،اور وہ نہیں مانتے۔ (پ16، مریم:39)
ہائے، افسوس! اب عمر ضائع ہونے کے بعد تجھے حسرت کوئی فائدہ نہ دے گی اور اُمیدیں ختم ہونے کے بعد فکر تجھے کوئی فائدہ نہ دے گی۔معلوم نہیں، حیرت کے دن تیرا کیا جواب ہوگا؟جب یہ پکارا جائے گا:

(2)ہٰذَا یَوْمُ لَا یَنۡطِقُوۡنَ ﴿ۙ35﴾

ترجمۂ کنزالایمان:یہ دن ہے کہ وہ بول نہ سکیں گے۔(۱) (پ29،المرسلٰت:35)
اس بندے کا وارث کون ہوگاجس کو معصیت اور گناہوں نے شرمندہ کر دیا ہے؟اس بھاگے ہوئے کاوالی کون ہوگاجس کو لغزشوں اور عیبوں نے تیرے دروازے سے دور کردیاہے؟

 

1۔۔۔۔۔۔مفسِّرِ شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:” نہ کوئی ایسی حجت پیش کرسکیں گے جو انہیں کام دے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ” روزِ قیامت بہت سے موقع ہوں گے، بعض میں کلام کریں گے، بعض میں کچھ بول نہ سکیں گے۔”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!