اسلام

بے کار کاموں سے بچئے

بے کار کاموں سے بچئے

(محمد اعجاز عطاری مدنی)

نواسۂ رسول ،جگر گوشۂ بتول حضرت سیدنا امام ِ حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور تاجدارِ رسالت ،شہنشاہِ نبوت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مِنْ حُسْنِ اِسْلامِ الْمَرْ ءِ تَرْ کُہُ مَالَایَعْنِیْہِ یعنی کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ بے کا ر باتیں چھوڑ دے ۔(مسند امام احمد ،ج3،ص259،حدیث: 1737)
مشہور محدث و شارح ِ حدیث حضرت علامہ علی القاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتےہیں : اسلام کی خوبی سے مراد کمال ِاسلام ہے اور بے کار بات سے مراد وہ بات ہے جس کی طرف کسی دینی یا دنیوی ضرورت میں حاجت نہ ہو ۔ امام نووی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جن پر اسلام کا دارو مدار ہے۔(مرقات ،ج8،ص585،تحت الحدیث: 4840ملتقطاً)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں : یعنی کامل مسلمان وہ ہے جو ایسے کام ایسی حرکات وسکنات سے بچے جو اسے دین یا دنیا میں مفید ہو یا آخرت میں ۔ سُبْحٰنَ اللہ!ان دو کلموں میں دونوں جہاں کی بھلائی وابستہ ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح ،ج6،ص465)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں!بے کار کاموں میں سے ایک گفتگو کرنا بھی ہے ،امام محمد بن محمدغزالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : بے فائدہ گفتگو کی تعریف یہ ہے کہ تمہارا ایساکلام کرنا کہ اگر اس سے رک جاتے تو گنہگار ہوتے اور نہ ہی فی الحال یا آئندہ کوئی نقصان ہوتا ۔ مثلاً تم کسی مجلس میں لوگوں کے سامنے اپنے سفر کا ذکر کرو اور اس میں جو پہاڑ اور نہریں دیکھیں اور جو واقعات تمہارے ساتھ پیش آئے انہیں اور دیگر باتیں بیان کرو تو یہ وہ امور ہیں کہ اگر تم انہیں بیان نہ بھی کرتے تب بھی گنہگار نہ ہوتے اور نہ ہی کوئی نقصان اٹھاتے ۔ مزید فرماتے ہیں :جب ایک کلمہ کے ذریعے اپنے مقصود کو ادا کرسکتا ہے لیکن اس کے باوجود دو کلمے کہتا ہے تو دوسرا کلمہ فضول یعنی حاجت سے زائد ہوگا اور یہ بھی مذموم (و ناپسندیدہ) ہے۔(احیاء العلوم ،ج3،ص345،348)

بزرگانِ دین کا انداز:

بزرگانِ دین رحمہم اللہ تعالٰی اپنی زبان کی حفاظت فرماتے اور فضول باتوں سے بچتے تھے : ٭سیدنا منصور بن معتمر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے چالیس سال تک عشاء کے بعد گفتگو نہ کی ۔٭سیدنا ربیع بن خیثم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے بیس (20)سال تک دنیاوی گفتگو نہ کی ، جب صبح ہوتی تو دوات،کاغذ اور قلم رکھتے اور جو گفتگو بھی کرتے اسے لکھ لیتے، پھر شام کے وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ۔(احیاء العلوم،ج3،ص340)

 

فضول جملوں کی چند مثالیں :

ہاں بھئی کیا ہورہا ہے؟ یار! بجلی کی لوڈشیڈنگ بہت بڑھ گئی ہے، آج گرمی بہت ہے ، گاڑی کتنے میں خریدی ؟ نہ جانےٹریفک کب کھلے گی ! آپ کے شہر میں مہنگائی بہت ہے ،آپ کے علاقے میں مکان کا کیا بھاؤ چل رہا ہے ؟ وغیرہ(جبکہ ان باتو کا کوئی صحیح مقصد نہ ہو)

فضول باتوں سے بچنے کا آسان علاج :

فضول بات منہ سے نکل جانے کی صو رت میں بطور ِ کفارہ 12بار اللہ اللہکہہ لیا کریں یا ایک بار درود شریف ہی پڑھ لیں ، اس طرح کرنے سے ہو سکتا ہے شیطان ہمیں اس خوف سے فضول باتیں کرنے پر نہ ڈال دیں ۔ لکھ کر یا اشاروں میں بات میں بات کرنا بھی مفید ہے ،اللہ عَزَّوَجَلَّ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہِ النبی الامین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ذکرو درود ہر گھڑی وردِ زباں رہے
میری فضول گوئی کی عادت نکال دو

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!