اہل حق کا بے مثال گروہ:
اہل حق کا بے مثال گروہ:
مفسرینِ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ” حضرت سیِّدُناموسیٰ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کے انتقال کے بعد بنی اسرائیل نے دین میں باطل چیزوں کی آمیزش کر دی تو ایک گروہ اُن سے جدا ہو گیا، انہو ں نے اللہ عزَّوَجَلَّ سے دُعا کی کہ وہ ان کو دین میں باطل چیزوں کی ملاوٹ کرنے والوں سے دُور کر دے۔ چنانچہ، زمین کے نیچے ایک سوراخ ظاہر ہوا، اس میں چلتے ہوئے انہوں نے ایک کشادہ اور وسیع میدان دیکھا، تو انہوں نے وہیں پڑاؤ ڈال دیا۔ اُن کے بیٹے اور سب نسلیں مستقل طور پر وہیں قیام پذیر ہو گئیں، یہاں تک کہ حضرت سیِّدُنا ذوالقرنین ایک دن سیر کرتے ہوئے جب وہاں پہنچے ،تو انہوں نے دیکھاکہ یہاں لوگوں کی عمریں درازہیں،کوئی فقیر نہیں، قبریں گھر کے دروازوں کے قریب اور عبادت گاہیں گھروں سے دُور ہیں۔ گھروں پر دروازے بھی نہیں ہیں،نہ اُن پر کوئی حاکم ہے، نہ اُن کا کوئی امیرہے۔ آپ نے دریافت فرمایا:”ان سب باتوں کا راز کیا ہے؟” توعرض کی گئی : ”اے بادشاہ! ہماری عمروں میں برکت کا سبب ہمارا ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔ہم میں سے جب کوئی محتاج ہو جاتاہے تو ہم مل کر اس کی محتاجی دُور کرتے ہیں، اس طرح ہم سب اغنیاء ہیں،اور ہماری قبروں کے گھر سے قریب ہونے کا سبب یہ ہے کہ ہم نے اپنے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ سے سنا ہے کہ قبر زندوں کو موت کی یاد دلاتی ہے،اور عبادت گاہوں کے دور ہونے کا سبب ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام اور علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ” ان کی طرف قدموں کی کثرت سے نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے، اور ہمارے گھروں کے دروازے اس لئے نہیں کہ ہم کسی کی چوری نہیں کرتے ، تو ہمیں دروازوں کی حاجت نہیں ہوتی، اور ہم پر کوئی حاکم یا امیر نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے پر ظلم نہیں کرتے ،بلکہ ہم باہم عدل وانصاف سے کام لیتے ہیں تو ہمیں پھر امیر و حاکم کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ۔”حضر ت سیِّدُنا ذوالقرنین نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تمہاری مثل کوئی قوم نہیں دیکھی، اور اگر میں نے کسی شہر کو وطن بنانے کا ارادہ کیا، تو تمہارے حُسنِ معاشرت اور اخلاقِ جمیلہ کی وجہ سے اس شہر کو وطن بناؤں گا ۔