امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکان نہ بنایا:
امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکان نہ بنایا:
حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خلیفہ ہارون الرشید نے پوچھا:”کیا آپ کا کوئی مکان ہے؟” تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”نہیں۔”اس نے تین ہزار دینارپیش کرتے ہوئے کہاکہ ان سے مکان خرید لیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دینارلے لئے لیکن انہیں خرچ نہ کیا۔ جب ہارون الرشید نے بغداد روانگی کا ارادہ کیاتو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی: ”آپ بھی میرے ساتھ چلیں، میں نے عزم کیا ہے کہ لوگوں کو اسی طرح مؤطّا کی ترغیب دلاؤ ں جس طرح امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو قرآن کی ترغیب دلائی۔” تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:” لوگوں کو مؤطّا شریف کی ترغیب دلانے کی حاجت نہیں کیونکہ حضور نبئ اَکرَم، نورِ مجسّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے( پردہ فرمانے کے) بعد صحابۂ کرام علیہم الرضوان مختلف شہروں میں پھیل گئے اورلوگوں کو احادیث ِ مبارکہ بیان کرتے رہے جس کی بدولت آج ہر شہر میں کثیر علمِ حدیث موجود ہے۔”
(احیاء علوم الدین، ج۱، ص۴۷۔حلیۃ الاولیاء،مالک بن انس، الحدیث۸۹۴۲،ج۶،ص۳۶۱)
اور حضور سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْنَ،جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ رحمت نشان ہے: ”اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ یعنی میری امت کا اختلاف ر حمت ہے۔”
(شرح صحیح مسلم للنووی،کتاب الوصیۃ، باب ترک الوصیۃ۔۔۔۔۔۔الخ، ج۱۱، ص۹۱)
اور تمہارے ساتھ بغداد جانے کی بھی ضرورت نہیں،کیونکہ حضور نبئ کریم، رءوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے، ”ان(لوگوں) کے لئے مدینہ بہترتھا اگر وہ جانتے۔”
(صحیح مسلم ،کتاب الحج ، باب المدینہ تنفی خبثھا۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۳۸۱ ۱،ص۹0۷)
اور سرکارِ عالی وقار، شافِعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ ذیشان ہے،”مدینہ منورہ میل کُچیل کو یوں دُور کرتا ہے جیسے بھٹی لوہے کا میل دور کرتی ہے۔”
(صحیح مسلم ،کتاب الحج ، باب المدینہ تنفی خبثھا وتسمی طا بۃ وطیبۃ، الحدیث ۱۳۸۱/ ۱۳۸۳، ص۹0۷)
اور یہ ہیں تمہارے دینار،جیسے تم نے دیئے تھے ویسے ہی ہیں۔ اگر چاہو تولے لواور چاہو تو چھوڑ دویعنی تم نے یہ دینا ر دے کرمجھے مدینہ منورہ چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ لہٰذا اب تم انہیں واپس لے لو کیونکہ میں مدینۃُ الرَّسول عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پردُنْیَاوَمَا فِیْھَا (یعنی دنیا اور جو کچھ اس میں ہے) کو ترجیح نہیں دوں گا۔”
(حلیۃ الاولیاء،مالک بن انس،الحدیث۸۹۴۲،ج۶،ص۳۶۱۔احیاء علوم الدین،کتاب العلم،ج۱، ص۴۷)