اُ ستا ذ ہو توا یسا
حکایت نمبر265: اُ ستا ذ ہو توا یسا۔۔۔۔۔۔!
حضرت سیِّدُنا محمد بن عیسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اکثر ”طَرَسُوْس” کی طرف جاتے اور وہاں ایک مسافر خانے میں ٹھہرتے ، ایک نوجوان آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر حدیث سنا کرتا ، جب بھی آپ ”رِقَّہ” (نامی شہر میں ) تشریف لاتے وہ نوجوان حاضرِ خدمت ہوجاتا ۔ ایک مرتبہ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ”رِقَّہ’ ‘ پہنچے تو اس نوجوان کو نہ پایا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس وقت جلدی میں تھے کیونکہ مسلمانوں کا ایک لشکر جہاد کے لئے گیا ہوا تھا آپ بھی اس میں شرکت کے لئے آئے تھے ۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لشکر میں شامل ہوگئے ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! مسلمانوں کو فتح ہوئی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ غازی بن کر واپس طَرَسُوْس آئے اور ”رِقَّہ” پہنچ کراپنے اس نوجوان شاگرد کے بارے میں پوچھاتو پتا چلا کہ نوجوان مقروض تھااور ا س کے پاس اتنی رقم نہ تھی کہ وہ قرض ادا کرتا لہٰذا قرض ادانہ کرنے کی وجہ سے اسے گرفتار کر لیا گیا ہے ۔”
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:” میرے اس نوجوان شاگرد پر کتنا قرض تھا ؟”کہا :” دس ہزار درہم۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پوچھتے پوچھتے قرض خواہ کے گھر پہنچے ، اسے دس ہزار درہم دے کراپنے شاگر د کی رہائی کا مطالبہ کیا اور کہا:” جب تک میں زندہ رہوں اس وقت تک
کسی کو بھی اس واقعہ کی خبر نہ دینا ۔” پھر راتوں رات آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے رخصت ہوگئے ۔قرض خواہ نے صبح ہوتے ہی مقروض نوجوان کو رہا کر دیا۔ نوجوان جب باہر آیاتو لوگو ں نے کہا: ” حضر ت سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کے متعلق پوچھ رہے تھے ، اب وہ واپس جاچکے ہیں ، یہ سن کر نوجوان آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تلاش میں نکل پڑا اور تین دن کی مسافت طے کرکے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس پہنچا ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسے دیکھا تو پوچھا:” اے نوجوان ! تم کہاں تھے ؟میں نے تمہیں مسافرخانے میں نہیں پایا۔” نوجوان نے کہا: ”اے ابو عبد الرحمن علیہ رحمۃ اللہ المنّان !مجھے قرض کے عوض قید کرلیا گیا تھا۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا: ”پھر تمہاری رہائی کا کیا سبب بنا؟” کہا:”اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کسی نیک بندے نے میرا قرض ادا کردیا، اس طرح مجھے رہائی مل گئی۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ”اے نوجوان ! اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرو کہ اس نے کسی کو تیرا قرض ادا کرنے کی توفیق دی اورتجھے رہائی عطافرمائی ۔”
راوی کہتے ہیں: جب تک حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ زندہ رہے تب تک اس قرض خواہ نے کسی کو بھی خبر نہ دی کہ نوجوان کاقرض کس نے ادا کیا ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے وصال کے بعداس نے ساراواقعہ لوگو ں کو بتا دیا۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)