اسلام

ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن

حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی نسبت مبارکہ کی وجہ سے ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کا بھی بہت ہی بلند مرتبہ ہے،ان کی شان میں قرآن کی بہت سی آیات بینات نازل ہوئیں جن میں ان کی عظمتوں کا تذکرہ اور ان کی رفعتِ شان کا بیان ہے،چنانچہ خدا وند قدوس نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ
ترجمۂ کنزالایمان: اے نبی کی بیبیو تم اورعورتوں کی طرح نہیں ہو۔ (پ22،الاحزاب:32)
    دوسری آیت میں ارشاد فرمایاکہ
وَ اَزْوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمْ
ترجمۂ کنزالایمان:اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں (پ22،الاحزاب:6)
    یہ تمام امت کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی مقدس ازواج دوباتوں میں حقیقی ماں کے مثل ہیں ،ایک یہ کہ ان کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے ليے کسی کا نکاح جائز نہیں۔
    دوم یہ کہ ان کی تعظیم وتکریم ہر امتی پر اسی طرح لازم ہے جس طرح حقیقی ماں کی، بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ،لیکن نظر اور خلوت کے معاملہ میں ازواج مطہرات کا
حکم حقیقی ماں کی طرح نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید میں حضرت حق جل جلالہ کا ارشاد ہے کہ
وَ اِذَا سَاَلْتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ
ترجمۂ کنزالایمان:اورجب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو۔(پ22،الاحزاب:53)
    مسلمان اپنی حقیقی ماں کو تو دیکھ بھی سکتا ہے اور تنہائی میں بیٹھ کر اس سے بات چیت بھی کر سکتا ہے مگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی مقدس ازواج سے ہر مسلمان کے ليے پردہ فرض ہے اور تنہائی میں ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا حرام ہے ۔
اسی طرح حقیقی ماں کے ماں باپ،نانی نانا اورحقیقی ماں کے بھائی بہن ماموں خالہ ہوا کرتے ہیں ،مگرازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے ماں باپ امت کے نانی نانااور ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے بھائی بہن امت کے ماموں خالہ نہیں ۔
    یہ احکام حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی ان تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے ہيں جن سے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے نکاح فرمایا ،چاہے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے پہلے ان کا انتقال ہوا ہو یا حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بعد انہوں نے وفات پائی ہو۔یہ سب کی سب امت کی مائیں ہیں اور ہر امتی کے ليے اس کی حقیقی ماں سے بڑھ کر لائق تعظیم و واجب الاحترام ہیں ۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،المقصد الثانی،الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات،ج۴،ص۳۵۶)
    ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی تعداداور ان کے نکاحوں کی ترتیب کے بارے میں مؤرخین کا قدرے اختلاف ہے ۔مگر گیارہ امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے بارے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ان میں سے حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے سامنے ہی انتقال ہوگیا تھا
مگر نو بیبیاں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی وفات اقدس کے وقت موجود تھیں۔
    ان گیارہ امت کی ماؤں میں سے چھ خاندان قریش کے اونچے گھرانوں کی چشم وچراغ تھیں جن کے اسماء مبارکہ یہ ہیں:
(۱) خدیجہ بنت خویلد (۲) عائشہ بنت ابوبکر صدیق (۳) حفصہ بنت عمر فاروق (۴)ام حبیبہ بنت ابوسفیان (۵) ام سلمہ بنت ابوامیہ (۶) سودہ بنت زمعہ
اورچار ازواج مطہرات خاندان قریش سے نہیں تھیں بلکہ عرب کے دوسرے قبائل سے تعلق رکھتی تھیں وہ یہ ہیں:
(۱) زینب بنت جحش (۲) میمونہ بنت حارث (۳) زینب بنت خزیمہ
(۴) جویریہ بنت حارث اور ایک زوجہ یعنی صفیہ بنت حیی ،یہ عربی النسل نہیں تھیں بلکہ خاندان بنی اسرائیل کی ایک شریف النسب رئیس زادی تھیں۔
    اس بات میں بھی کسی مؤرخ کا اختلاف نہیں ہے کہ سب سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا اور جب تک وہ زندہ رہیں آپ نے کسی دوسری عورت سے عقد نہیں فرمایا۔
( شرح العلامۃ الزرقانی، المقصد الثانی،الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات، ج۴،ص۳۵۹)
ان کے مولیٰ کے ان پر کروڑوں درود           ان کے اصحاب وعترت پہ لاکھوں سلام
پارہائے صحف غنچہائے قدس                 اہل بیت نبوت پہ لاکھوں سلام
اہل اسلام کی مادران شفیق                    بانوان طہارت پہ لاکھوں سلام
                                        (حدائق بخشش،حصہ دوم، ص۲۲۳)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!