شہزادے کی انگوٹھی
حضرت سیدنا عبداللہ بن الفرج العابد علیہ رحمۃاللہ الماجد فرماتے ہیں :” ایک مرتبہ مجھے کسی تعمیر ی کام کے لئے مزدور کی ضرورت پڑی، میں بازار آیا اور کسی ایسے مزدور کو تلاش کرنے لگا جو میری خواہش کے مطابق ہو، یکایک میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جو سب سے آخر میں بیٹھا ہو ا تھا۔ چہرہ شرافت وعبادت کے نور سے چمک رہا تھا ، اس کا جسم بہت ہی کمزور تھا ، اس کے سامنے ایک زنبیل اور رسی پڑی ہوئی تھی،اس نے اُون کاجبہ پہنا ہوا تھا اور ایک موٹی چادر کا تہبند باندھا ہوا تھا ۔
میں اس کے پا س آیا او رپوچھا:” اے نوجوان! کیا تم مزدو ری کرو گے ؟” کہنے لگا:” جی ہاں۔” میں نے پوچھا : ” کتنی اُجرت لوگے ؟ ”اس نے جوا ب دیا:”ایک درہم اور ایک دانق (یعنی درہم کاچھٹا حصہ) لوں گا۔” میں نے کہا: ”ٹھیک ہے ، میرے ساتھ چلو۔” وہ نوجوان کہنے لگا:”جیسے ہی مُؤذِّن ظہر کی اذان دے گا میں کام چھوڑ کر نماز کی تیاری کرو ں گا اور نماز کے بعد دوبارہ کام شروع کردوں گا، پھر جب عصر کی اذان ہوگی تو میں فوراًکام چھوڑ کر نماز کی تیاری کروں گا اور نماز کے بعد کام کروں گا،اگر تمہیں یہ شرط منظور ہے تو میں تمہارے ساتھ چلتا ہو ں ورنہ کوئی اور مزدور ڈھونڈ لو۔” میں نے کہا:” مجھے تمہاری یہ شرط منظور ہے ۔ میں اسے لے کر اپنے گھر آیا او ر کام کی تفصیل بتا دی ، اس نے کام کے لئے کمر باندھی اور اپنے کام میں مشغول ہوگیا ۔اورمجھ سے کوئی بات نہ کی۔ جب مؤذن نے ظہر کی اذان دی تو اس نے مجھ سے کہا:”اے عبداللہ! مؤذن نے اذان دے دی ہے۔” میں نے کہا:”آپ جایئے اور نماز کی تیاری کیجئے ۔” نماز سے فراغت کے بعد وہ عظیم نوجوان دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگیا اور بڑی دیا نتداری سے احسن انداز میں کام کرنے لگا۔ عصر کی اذان ہوتے ہی اس نے مجھ سے کہا:”اے عبداللہ! مؤذن اذان دے چکا۔” میں نے کہا :”جائیے اور نماز پڑھ لیجئے۔” نماز کے بعد وہ دوبارہ کام میں مشغول ہوگیا اور غروبِ آفتاب تک کام کرتا رہاپھر میں نے اسے طے شدہ اُجرت دی اور وہ وہاں سے رخصت ہوگیا ۔
کچھ دنوں کے بعد مجھے دوبارہ مزدور کی ضرورت پڑی تو مجھ سے میری زوجہ نے کہا:”اسی نوجوان کو لے کر آناکیونکہ اس کے عمل سے ہمیں بہت نصیحت حاصل ہوئی ہے او روہ بہت دیا نتدار ہے، چنانچہ میں بازار گیا تو مجھے وہ نوجوان کہیں نظر نہ آیا۔ میں نے لوگو ں سے اس کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگے:” کیا آپ اسی کمزورو نحیف نوجوان کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جو سب سے آخر میں بیٹھتا ہے ؟” میں نے کہا:”جی ہا ں، میں اسی کے متعلق پوچھ رہا ہوں ۔”تو انہوں نے کہا:” وہ تو صرف ہفتہ کے دن آتا ہے، اس کے علاوہ کسی دن کام نہیں کرتا۔” یہ سن کرمیں واپس آگیا اور ہفتے کا انتظار کرنے لگا پھر بروز ہفتہ میں دو بارہ بازار گیا تو میں نے اس پُرکشش وعظیم نوجوان کو اسی جگہ موجود پایا۔ میں اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا:” کیا تم مزدوری کرو گے؟”
اس نے کہا :”جی ہاں، لیکن میری وہی شرائط ہوں گی جو میں نے پہلے بتائی تھیں ۔”میں نے کہا: ”مجھے منظور ہے، تم میرے ساتھ چلو۔” وہ میرے ساتھ میرے گھر آیا او رمیں نے اسے کام کی تفصیل بتادی وہ بڑی دیانتداری سے پہلے کی طر ح کام کرتارہا اور اس نے کئی مزدوروں جتنا کام کیا، شام کو میں نے اسے طے شدہ اُجرت سے زیادہ رقم دینا چاہی تو اس نے زائد رقم لینے سے انکار کردیا۔ میں نے بہت اصرار کیا مگر وہ نہ مانا اور اجرت لئے بغیر ہی وہاں سے جانے لگا مجھے اس بات سے بڑا رنج ہوا کہ وہ بغیر اجرت لئے ہی جا رہا ہے۔ میں نے اس کا پیچھا کیا اور بصد عاجزی اسے اُجرت دی۔ اس نے زائد رقم واپس کر دی اورطے شدہ مزدوری لے کر وہاں سے روانہ ہوگیا ۔ کچھ دنوں کے بعد جب دوبارہ ہمیں مزدور کی ضرورت پڑی تومیں ہفتہ کے دن بازار گیا اور اسی نوجوان کو تلاش کرنے لگا لیکن وہ مجھے کہیں نظر نہ آیا میں نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگو ں نے بتایا کہ وہ ہفتے میں صرف ایک دن کام کرتا ہے اور مزدوری میں ایک درہم اور ایک دانق (یعنی درہم کا چھٹا حصہ) اُجر ت لیتاہے، وہ روزانہ ایک دانق اپنے استعمال میں لاتا ہے ۔آج وہ بیمارتھااس لئے نہیں ایا ۔میں نے پوچھا :” وہ کہا ں رہتا ہے؟” لوگو ں نے بتا یا:” فلاں مکان میں رہتا ہے۔” میں وہاں پہنچا تو وہ ایک بڑھیا کے مکان میں موجود تھا۔ بڑھیا نے بتا یا کہ یہ کئی دنوں سے بیمار ہے۔ میں اس کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ سخت بیماری میں مبتلاہے اور اینٹوں کا تکیہ بنایا ہوا ہے ، میں نے اسے سلام کیا او ر پوچھا:” اے میرے بھائی! کیا تمہاری کوئی حاجت ہے ؟” کہنے لگا:”جی ہا ں، مجھے تم سے ایک ضروری کام ہے، کیا تم اسے پورا کر و گے ؟ میں نے کہا: ”ان شاء اللہ عزوجل میں تمہارا کام ضرور پورا کروں گا، بتاؤ! کیا کام ہے ؟”
اس نوجوان نے کہا:”جب میں مرجاؤں تو یہ لوٹا اور زنبیل بیچ کر گور کن کو اُجرت دے دینا اور کفن کے لئے مجھے میرا یہی اُون کا جبہ اور چادر کا فی ہے، مجھے اسی لباس میں سپرد خاک کردینا اور میری جیب میں ایک انگوٹھی ہے اسے اپنے پاس رکھنا اور میری تدفین کے بعد اسے امیر المؤمنین ہارو ن الرشید علیہ رحمۃاللہ المجید کے پاس لے جانا، جب ان کی شاہی سوا ری فلاں دن فلاں مقام سے گزرے توانہیں کہنا: ”میرے پاس آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی ایک امانت ہے پھر انہیں یہ انگوٹھی دکھا دینا،وہ خود ہی تمہیں اپنے پاس بلا لیں گے اوراس بات کا خیال رکھنا کہ یہ کام میری تدفین کے بعد ہی کرنا۔” میں نے کہا:” ٹھیک ہے،میں تمہاری وصیت پر عمل کرو ں گا ۔”
پھر اس عظیم نوجوان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ مجھے اس کی موت کا بہت دکھ ہوا ،بہر حال میں نے اس کی وصیت کے مطابق اس کی تجہیز وتکفین کی اور پھر انتظار کرنے لگا کہ خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃاللہ المجیدکی سواری کس دن نکلتی ہے۔ جب وہ دن آیا تو میں راستے میں بیٹھ گیا ،امیر المؤمنین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جاہ وجلال کے عالم میں ہزارو ں شہسواروں کے ساتھ بڑی شان وشوکت سے چلے آرہے تھے۔جب ان کی سواری میرے قریب سے گزری تو میں نے بلند آواز سے کہا:”اے امیر
المؤمنین (رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ) !میرے پاس آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی ایک امانت ہے۔” پھر میں نے وہ انگوٹھی دکھائی، انہوں نے انگوٹھی دیکھ کر حکم دیا کہ اسے ہمارے مہمان خانے میں لے جاؤ میں اس سے علیٰحد گی میں گفتگو کرو ں گا۔
چنانچہ مجھے محل میں پہنچا دیا گیا،جب خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃاللہ المجید کی واپسی ہوئی تو انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور باقی تمام لوگو ں کو باہر جانے کا حکم دیا، پھر مجھ سے پوچھا:” تم کون ہو؟” میں نے کہا:” میرا نام عبداللہ بن فرج ہے۔” انہوں نے پوچھا: ” تمہارے پاس یہ انگوٹھی کہاں سے آئی؟”میں نے اس عظیم نوجوان کا سارا واقعہ خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃاللہ المجید کو سنادیا ۔”
یہ سن کر وہ اس قدر روئے کہ مجھے ان پر ترس آنے لگا ۔ پھر جب وہ میری طر ف متوجہ ہوئے تومیں نے ان سے پوچھا : ”اے امیر المؤمنین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ !اس نوجوان سے آپ کا کیا رشتہ تھا ؟”آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :” وہ میرا بیٹا تھا ۔” میں نے پوچھا:” اس کی یہ حالت کیسے ہوئی؟”آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:”وہ مجھے خلافت ملنے سے پہلے پیدا ہوا تھا۔” ہم نے اس کی خوب نیک ماحول میں پرورش کی او راس نے قرآن کا علم سیکھا پھرجب مجھے خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی تو اس نے مجھے چھوڑ دیا، اور میری دنیاوی دولت سے کوئی فائدہ حاصل نہ کیا، یہ اپنی ماں کا بہت فرمانبردار تھا، میں نے اِس کی ماں کو ایک انگوٹھی دی جس میں بہت ہی قیمتی یا قوت تھا اور اس سے کہا:” یہ میرے بیٹے کو دے دو تا کہ بوقتِ ضروت اسے بیچ کر اپنی حاجت پوری کر سکے۔” اس کے بعد وہ ہمیں چھوڑ کر چلا گیا اور ہمیں اس کے متعلق بالکل معلومات نہ مل سکیں،آج تم نے اس کے متعلق بتایاہے پھرآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ رونے لگے اورکہا:”آج رات مجھے اس کی قبر پر لے چلنا ۔”
جب رات ہوئی اور ہم دونوں اس کی قبر پر پہنچے تو خلیفہ ہارو ن الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید اس کی قبر کے پاس بیٹھ گئے اور زاروقطار رونا شروع کر دیا اور ساری رات روتے روتے گزاردی جب صبح ہوئی تو ہم وہاں سے واپس آگئے۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ مجھ سے فرمانے لگے:” تم روزانہ رات کے وقت میرے پاس آیا کرو،ہم دونوں اس کی قبر پر آیا کریں گے۔”چنانچہ میں ہر رات ان کے پاس جاتا، وہ میرے ساتھ قبر پر آتے اور رونا شروع کردیتے پھر واپس چلے جاتے ۔حضرت سیدنا عبداللہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :” مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ نوجوان خلیفۃ المسلمین ہارون الرشید علیہ رحمۃاللہ المجید کا شہزاد ہ تھا۔” مجھے تو اس وقت معلوم ہوا جب خودامیر المؤمنین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے بتایا کہ وہ میرا بیٹاتھا۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)