شدَّاد کی جنت
حکایت نمبر421: شدَّ اد کی جنت
حضرتِ سیِّدُناوَہْب بن مُنَبِّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے،”حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن قِلَابَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گمشدہ اونٹوں کی تلاش میں نکلے۔جب عدن کے صحرا میں پہنچے توایک عظیم الشان شہر ظاہرہواجس کے گردقلعہ بناہواتھااورقلعے کے اردگرد بہت سے خوبصورت محل تھے۔ وہ یہ سوچ کراس طرف گئے کہ کسی سے اپنے اونٹوں کے متعلق پوچھ لیں گے،لیکن وہاں کوئی نظر نہ آیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سواری سے اتر کر گلے میں تلوار لٹکائے قلعے میں داخل ہوئے تودوبڑے بڑے دروازے دیکھے جن پر سفید وسرخ قیمتی موتی جَڑے ہوئے تھے، ایسے مضبوط اور خوب صورت دروازے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ ویران صحرا میں عظیم ُ الشَّان خوب صورت شہر دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت گھبر ا ئے۔ جب ایک دروازہ کھول کراندر داخل ہوئے تو اپنے آپ کوایک ایسے شہرمیں پایا جس میں بہت سے محلات تھے۔ ہر محل کے اوپرکمرے تھے جن کے اوپرسونے سے بنے ہوئے بہت سے کمرے تھے۔ان کی تعمیر میں سونا، چا ندی اورقیمتی جواہرات استعمال کئے گئے تھے۔ان مکانوں کی بلندی، شہرمیں تعمیر شدہ کمروں جتنی تھی۔ صحن میں جابجا قیمتی پتھر اور مشک و زعفران کی ڈَلیاں بکھری ہوئی تھیں۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہاں سے کچھ قیمتی موتی اورمشک وزعفران کی ڈلیاں اُٹھائیں ،لیکن دروازوں اورصحن میں نصب موتیوں اورجواہرات کوجدانہ کر سکے۔ پھر اپنی اونٹنی پرسوار ہوکر اس کے قدموں کے نشانات پرچلتے ہوئے واپس یمن پہنچے اور لوگوں کواس عجیب وغریب شہرکے متعلق بتاتے ہوئے وہاں سے لائی ہوئی چیزیں دکھائیں۔ طویل عرصہ گزرنے کی وجہ سے ان موتیوں کارنگ پیلا ہو چکا تھا ۔
جب یہ واقعہ پورے ملک میں مشہورہوگیاتوامیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناامیر مُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواپنے پاس بُلاکرواقعہ دریافت کیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس عجیب وغریب شہراوروہاں کی اشیاء کے متعلق سب کچھ بتا دیا۔ امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ باتیں بڑی عجیب معلوم ہوئیں،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مُتعجب ہو کر پوچھا: ” تم نے جوباتیں بیان کیں ان کے سچ ہونے کے بارے میں،مَیں کیسے یقین کر لوں؟”عرض کی :”حضور! میں وہاں کے موتی جواہرات اپنے ساتھ لے آیا تھا، کچھ چیزیں اب بھی میرے پاس موجود ہیں، یہ کہہ کر آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ یاقوت پیش کئے جوعام یاقوتوں کی نسبت قدرے پیلے ہوچکے تھے ۔کچھ مشک کی ڈَلیاں پیش کیں جن میں خوشبونہ تھی ، لیکن جب انہیں توڑا گیا تو ان میں سے تیزخوشبونکلی جسے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سونگھااسی طرح زعفران کی خوشبوبھی سونگھی۔ اب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواس واقعہ کایقین ہوگیاتھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے پوچھا: ”ایسا کون ہے؟ جومجھے اس عجیب وغریب شہراوراس کے
بانی کانام بتائے اوریہ بتائے کہ یہ کس قوم کا واقعہ ہے؟” خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! حضرتِ سیِّدُناسلیما ن بن داؤد علٰی نبینا وعلیہما الصلٰوۃ والسلام کی مثل کسی کو سلطنت عطانہیں کی گئی،اس طرح کاشہرتوان کے ملک میں بھی نہ تھا۔ ” بعض لو گو ں نے عرض کی:”اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! اس زمانے میں پوری دُنیا میں اس واقعہ کے متعلق صحیح معلومات صرف حضرتِ سیِّدُناکَعْبُ الْا َ حْبَار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مناسب سمجھیں توانہیں بلوائیں اورحضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن قِلَابَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چھپادیں، اگر واقعی یہ اس شہرمیں داخل ہوئے ہوں گے توحضرتِ سیِّدُنا کَعْبُ الْا َ حْبَار رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہراوراس میں داخل ہونے والے کے بارے میں ضرور بتائیں گے کیونکہ یہ ایساعظیم معاملہ ہے کہ اس شہرمیں داخل ہو کر اس کے اَسرار (یعنی رازوں) سے واقف ہونے والے کا ذِکر سابقہ کتب میں ضرورہوگا۔اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جواشیاء زمین پر پیدا فرمائیں ،جوواقعات وحادثات رونماہوئے اورمستقبل میں جوبھی عظیم واقعات ہوں گے وہ تمام کے تمام تورات میں مفصل بیان کر دئیے گئے۔ اور اس وقت حضرتِ سیِّدُنا کَعْبُ الْاَ حْبَار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابقہ کتب کے سب سے بڑے عالِم ہیں ۔ اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ وہ آپ کواس واقعہ کی خبرضروردیں گے۔”
امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناامیرِمُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرتِ سیِّدُنا کَعْبُ الْاَ حْبَار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبلوا کر فر ما یا : ”اے ابواِسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میں نے تمہیں ایک بڑے کام کے لئے بلایاہے ، اُمید ہے کہ تمہارے پاس اس کاعلم ضرور ہوگا۔” آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : ”اللہ عَزَّوَجَلَّ علیم وخبیر ہے،اس کے سامنے سب عاجزہیں۔ میراسارا علم اسی کی عطاسے ہے ،فرمائیے! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیاپوچھناچاہتے ہیں ؟” فرمایا:”اے ابواِسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ !مجھے بتاؤکہ کیادنیامیں کسی ایسے شہر کے متعلق تمہیں کوئی خبرپہنچی ہے جوسونے چاندی کی اینٹوں سے بنایاگیاہو۔جس کے ستون زبرجداوریاقوت کے ہوں ۔ جس کے محلات اوربالاخانوں کوموتیوں سے مزین کیاگیاہو،جس میں باغات اورنہریں جاری ہوں اورجس کے راستے کشادہ ہوں ۔”
حضرتِ سیِّدُناکَعْبُ الْاَ حْبَار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ!قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!مجھے ظنِ غالب تھاکہ اس شہراوراس کے بنانے والے کے متعلق مجھ سے ضرورسوال کیا جائے گا۔ اس شہر کی جوصفات آپ نے بیان کیں اورجوکچھ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبتایا گیاوہ حق ہے۔اس کو”شَدَّاد بن عَاد” نے بنایا اور اس کانام ”اِرم” ہے ۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ مجید میں اس طرح ارشادفرمایا:
اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ۪ۙ﴿7﴾ الَّتِیۡ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلَادِ ۪ۙ﴿8﴾
ترجمۂ کنزالایمان:وہ اِرَم حدسے زیادہ طول والے کہ ان جیساشہروں میں پیدانہ ہوا۔(پ30،الفجر:7۔8)
امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناامیرِمُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”اے کَعْب رضی اللہ تعالیٰ عنہ !اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پررحم فرمائے، اس کے متعلق ذرا تفصیل سے بتائیے۔”
فرمایا:”اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !عادکے دوبیٹے تھے، شدیداورشَدَّاد۔جب عاد کا انتقال ہواتودونوں بیٹوں نے سرکشی کی اورقہروغضب سے تمام شہروں پرزبردستی مسلط ہوگئے۔کچھ حکمران توڈرکران کی اطاعت پر مجبور ہوئے اوربقیہ سے جنگ وجدال کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔یہاں تک کہ تمام لوگ ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پرمجبو ر ہوگئے ۔ ان کے زمانے میں مشرق ومغرب میں کوئی ایسانہ تھاجس نے طَوعاًیاکَرھاََ(یعنی خوشدلی یامجبوری سے ) اُن کی حکمرانی قبول نہ کی ہو۔جب دونوں کی سلطنت خوب مضبوط ہو گئی اور ہرجگہ ان کی بادشاہت کے سِکّے بیٹھ گئے تو ”شدید ”مرگیا۔اب ”شَدَّاد”ا کیلا ہی پوری سلطنت کا بادشاہ تھا۔کسی کواس سے جنگ وجدل کرنے کی ہمت نہ تھی۔ شَدَّادکو سا بقہ کتب پڑھنے کابہت شوق تھا۔ان کتابوں میں جب بھی جنت اوراس میں موجود محلات، یاقوت، جواہرات اورباغات کاتذکرہ پڑ ھتا یا سنتا تو اس کاشریر نفس اسے اس بات پرابھارتا کہ تُوبھی ایسی جنت بنا سکتا ہے۔
جب اس بدبخت ونامراد کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی توسو خز ا نچیوں کو بلایااورہرخزانچی کوایک ایک ہزار مد د گا ر دے کر کہا: ”جا ؤ! اورروئے زمین کاسب سے بڑااورعمدہ جنگل تلاش کرو۔پھراس میں ایک ایسا شہر بناؤ جو سونے،چاندی، یاقو ت، زبرجد اور موتیوں سے مزین ہو۔اس کے نیچے زبرجدکے ستون اوپرمحلات اوربالاخانے ہوں،پھران کے اوپرمزیدبہترین وعمدہ کمرے ہوں ان کمروں کے اوپربھی بالاخانے ہوں ۔ محلات کے نیچے گلی کوچوں میں ہرقسم کے ایسے میوہ دار درخت ہوں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں ۔ کیونکہ میں نے سابقہ کتب میں جس جنت کے بارے میں پڑھااورسنا وہ ایسی ہی ہے۔اورمیں ایسی جنت دنیاہی میں بنانا چاہتا ہوں۔”شَدَّادملعون کی یہ بات سن کر خزانچیوں نے کہا:”آپ نے اس شہر کی جو صفات بیان کی ہیں اس کی تعمیرکے لئے اتنے سارے یاقوت،زبرجد،ہیرے جواہرات اورسوناچاندی کہاں سے لائیں گے ۔ ‘ ‘ کہا:”کیاتمہیں معلوم نہیں کہ اس وقت ساری دنیاپرمیری حکومت ہے ؟”انہوں نے کہا: ”کیوں نہیں! بے شک ایساہی ہے۔”کہا:”توپھرپوری دنیامیں پھیل جاؤ!زمین پر،سمندرمیں جہاں جہاں زبرجد،یاقوت اور ہیرے جواہرات کا خز ا نہ ہوسب لے لواورہرقوم پرایک ایسا فرد مقررکروجواپنی قوم کے تمام خزانے جمع کرلے۔ جتنا ہمیں مطلوب ہے اس سے کہیں زیادہ خزانہ دنیا میں موجود ہے ۔”یہ کہہ کر شَدَّادنے پوری دنیاکے بادشاہوں کوپیغام بھجوایاکہ وہ اپنے اپنے ملک کا خزانہ میرے شہرمیں بھجوادیں۔حکم پاتے ہی ساری دنیاکے بادشاہ دس سال تک شَدَّادکے شہرمیں اپنے اپنے ملک کا خزانہ جمع کراتے ر ہے ۔ جس میں سونا،چاندی ،یاقوت، زبرجد، ہیرے جواہرات ،الغرض ہرقسم کی زیب وزینت کاسامان تھا۔
حضرتِ سیِّدُناامیرِ مُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:”اے کَعْب رضی اللہ تعالیٰ عنہ !ان بادشاہوں کی تعد ا دکتنی تھی؟’ ‘ فرمایا:
”اے امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! وہ دو سو ساٹھ(260) تھے،جب سب سامان جمع ہوگیا توکام کرنے والے نکلے تاکہ ایسی جگہ تلاش کریں جہاں شَدَّادکی جنت بنائی جاسکے کافی تلاش کے بعدوہ ایسے صحراء میں پہنچے جوٹیلوں اورپہاڑوں وغیرہ سے خالی تھا وہ کہنے لگے کہ یہی وہ جگہ ہے جس کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ بس پھرکیاتھا! کاریگراورمزدورجوق د ر جوق وہاں پہنچنے لگے جتنی جگہ درکارتھی اس کی حدمقررکی،چشمے کھودے ،گلی کُوچے بنائے ،نہروں کے لئے گڑھے کھود ے ان کی جڑوں میں خوشبودار سفید پتھر رکھے۔پھر عمارتوں اورستونوں کے لئے بنیادیں کھودی گئیں اوران میں بھی بہت قیمتی او ر مضبو ط پتھرلگائے گئے ۔اب زبرجد، یاقوت، سوناچاندی اورہیرے جوہرات منگوائے گئے۔کاریگر ستون بنانے لگے ، معمار سونے چاندی کی اینٹوں سے محلات تعمیر کرنے لگے ،دودھ اورخوشبودارپانی کی نہریں جاری کی گئیں۔اور اس طرح اس شہرکی تعمیرمکمل ہوئی۔
حضرتِ سیِّدُنا امیرِ مُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: ”اے کَعْب! خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!میراخیال ہے کہ ا نہیں اس شہرکی تعمیرمیں بہت عرصہ لگاہوگا؟”کہا:”جی ہاں!میں نے ”تورات” میں پڑھاکہ یہ ساراکام تین سو(300)سال میں مکمل ہوا۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: ”شَدَّادبدبخت کی عمرکتنی تھی؟’ ‘ فرمایا: ” نوسو(900)سال ۔” فرمایا : ”اے ابواِسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ! آپ نے ہمیں عجیب وغریب خبردی ہے، اس بارے میں مزیدکچھ بتائیے ۔”فرمایا:”اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کانام ”اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَاد”رکھااس کے ستون زبرجدویاقوت کے تھے،اس شہرکے علاوہ پوری دنیامیں کوئی اور شہر ایسانہیں جویاقوت وزبرجد سے بنایا گیا ہو ۔ چنانچہ ،فرمانِ خداوندی ہے : اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ۪ۙ﴿۷﴾ الَّتِیۡ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلَادِ ۪ۙ﴿۸﴾ ترجمۂ کنزالایمان:وہ اِرَم حدسے زیادہ طول والے کہ ان جیساشہروں میں پیدانہ ہوا۔ (پ۳۰،الفجر:۷۔۸)
اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ!اس جیساکوئی اورشہرنہیں ،جب شد ا د کو اس کی تکمیل کی خبردی تو اس نے کہا:”جاؤ!اس کے گردمضبوط قلعہ بناؤ اور قلعہ کے گرد ایک ہزارمحل بناؤ،ہرمحل میں ایک ہز ار جھنڈے گاڑو اورہرہرجھنڈے پرایک مخصوص نشان بناؤ،یہ محلات میرے وزراء کے لئے ہوں گے۔”حکم پاتے ہی کاریگرمصروفِ عمل ہوگئے ۔ فراغت کے بعدجب کاریگروں نے شداد کو خبر دی تو اس نے اپنے خاص وزیروں میں سے ایک ہزاروزراء کوحکم دیاکہ میری اس بنائی ہوئی جنت کی طرف چلنے کی تیاری کرو۔” ہرخاص وعام ”اِرَم” کی طرف جانے کی تیاری میں لگ گیا۔لوگوں نے جھنڈے اورنشانات اٹھالئے ، حکم جا ری ہوا کہ میرے وزراء اورخاص عہدے داران ،اپنی عورتوں ،خادموں اورکنیزوں کولے جانے کی تیاری کریں ۔پھرشَدَّادنے وزراء اور دوسرے لوگوں کوبہت ساری دولت وخوردونوش کاسامان دینے کاحکم جاری کیا۔تمام لوگ دس سال تک اس جنت میں جانے کی تیاری کرتے رہے۔شَدَّادنے دوآدمیوں کواپنے شہرکا نگران مقررکیااوراجازتِ عام دے دی کہ جوآناچاہے میرے ساتھ آ
جائے۔ اب شدّادبڑے جاہ وجلال اور متکبر ا نہ وفاتحانہ اندازمیں بڑی شان وشوکت سے سپاہیوں کے جھر مٹ میں روانہ ہوا۔ جب وہ اس جنت سے صرف ایک دن اورایک رات کے فاصلے پررہ گیاتوخالقِ کائنا ت،مالکِ لَم یَزَلْ،قادرِمطلق خدائے بزگ وبرترعَزَّوَجَلَّ نے ان پرعذاب بھیجا،آسمان سے ایک چیخ سنائی دی شَدَّاد نامراداپنی بنائی ہوئی جنت کی ایک جھلک دیکھے بغیرہی اپنے تمام ہمراہیوں کے ساتھ ہلاک ہوگیا،سب لشکری تباہ وبربادہوگئے اور کوئی بھی اس شہرمیں داخل نہ ہوسکا۔اوراب قیامت تک بھی کوئی اس میں داخل نہیں ہو سکتا۔اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہ تھا”اِرَم”کاساراواقعہ۔ہاں !آپ کے زمانے میں ایک شخص اس میں داخل ہوگا،وہ اس کی تمام چیزیں دیکھے گا اورواپس آکربیان کریگا۔لیکن اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی، کوئی اس کی بات ماننے کوتیارنہ ہوگا۔”
یہ سن کرامیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناامیرِمُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”اے ابواِسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ !کیاآپ اس میں داخل ہونے والے شخص کی کچھ صفات بتاسکتے ہیں؟”فرمایا:”ہاں!وہ شخص سرخ وبھورا اورپست قدہوگااس کی آنکھیں نیلی ہوں گی اور اس کے ابرو پر ایک تِل ہوگا ۔وہ اپنے گمشدہ اونٹ کی تلاش میں اس صحرا میں جائے گاتواس پروہ شہرظاہرہوگا۔وہ اس میں داخل ہوکرکچھ چیزیں وہاں سے اُٹھا لائے گا۔”اس وقت حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن قِلَابَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرتِ سیِّدُنا امیرِمُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ۔حضرتِ سیِّدُناکَعْبُ الْاَ حْبَار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی طرف دیکھا تو فرمایا: ”اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہی وہ شخص ہے جواس میں داخل ہواہے ، آپ اس سے وہ چیزیں پوچھ لیجئے جومیں نے آپ کو بتائیں۔” حضرتِ سیِّدُنا امیرِمُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”اے ابو ا ِسحا ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہ تومیرے خادموں میں سے ہے اورمیرے پاس ہی ہے۔”فرمایا: ”یاتویہ اس شہرمیں داخل ہوچکاہے یاعنقریب داخل ہوگا،بس یہی وہ شخص ہے ۔” یہ سن کر حضرتِ سیِّدُنا امیرِ مُعَاوِیَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”اے ابواِسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ !اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہیں دوسرے علماء پر فضیلت دی ہے ،بے شک ! تمہیں اولین وآخرین کاعلم دیاگیاہے ۔”حضرتِ سیِّدُناکَعْبُ الْاَ حْبَار رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے فرمایا:”قسم ہے اس پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی جس کے قبضۂ قدرت میں کَعْب کی جان ہے!اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کوئی چیزپیدانہیں فرمائی مگرا س کی تفسیراپنے برگزیدہ رسول حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کوبتادی۔”بے شک قرآنِ کریم بہت بلند و عظیم اور وعید سنانے والاہے۔”