صبر کی انوکھی داستان
حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :” حضرت سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کابیٹا جو کہ حضرت سیدتنا اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے تھا وہ فو ت ہوگیا، حضرت سیدتنا اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تمام گھر والوں سے کہاکہ جب تک میں ابو طلحہ کوبیٹے کی وفات کا نہ بتاؤں اس وقت تک کوئی بھی انہیں اس کے متعلق نہ بتائے۔ جب حضرت سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کو گھر تشریف لائے تو حضر ت سیدتنا اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں رات کا کھانا پیش کیااورجب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھانے سے فارغ ہو چکے تو حضرت سیدتنااُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ایسا بناؤ سنگھار کیا کہ اس سے پہلے کبھی نہ کیا تھا پھر حضرت سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے ہمبستری کی اور جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فراغت پاچکے تو حضرت سیدتنا اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:”اے ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی قوم کو کوئی چیز امانت کے طورپر دی جائے اورپھر وہ امانت ان سے طلب کی جائے تو انہیں وہ امانت واپس کر نی چاہے یا نہیں؟” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:” انہیں ضرور وہ امانت ادا کرنی چاہے۔” یہ جواب سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:”بس پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بیٹے کو اسی طرح گمان کریں (یعنی وہ بھی ایک امانت تھی جو واپس لے لی گئی)۔”
انہوں نے صبح حضورنبی پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سارا واقعہ بتایا توغمخوار آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے یہ دعا فرمائی: ” اللہ عزوجل تمہاری اس رات میں تمہارے لئے برکت عطا فرمائے ۔”پھر حضرت سیدتنا اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا حاملہ ہوگئیں۔
ایک مرتبہ سفر میں حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ حضرت سیدتنااُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ جب حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سفر سے واپس تشریف لائے تو رات کا وقت تھا۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سفر سے واپسی پر رات کو مدینے میں نہ جاتے۔جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم مدینہ شریف کے قریب پہنچے تو حضرت سیدتنا اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دردِ ز ہ اٹھا، چنانچہ حضرت سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے پاس ٹھہرادیا گیا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم آگے تشریف لے گئے، حضرت سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی :”اے میرے پر وردگار عزوجل! تو خوب جانتا ہے کہ میں تواس بات کو پسند کرتا ہوں کہ جب مدینہ طیبہ سے نکلوں تب بھی تیرے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمکا ساتھ ہو، اور جب مدینہ منورہ میں داخلہ ہوں تب بھی تیرے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی رفاقت نصیب ہو، اور تجھے معلوم ہے کہ اب میں کیسی آزمائش میں مبتلا ہوگیا ہوں ۔” حضرت سیدتنا اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی:”اے ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! اب میں پہلے کی طرح شدید درد محسوس نہیں کررہی۔” چنانچہ ہم چل پڑے اور جب مدینہ منورہ آئے تو انہیں دو بارہ دردِ زہ شرو ع ہوگیاا ورخوشیاں لٹاتا ہوا ایک مدنی منا تولُّد ہوا ۔
حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر میری والدہ نے مجھ سے فرمایا:” اے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ! تم جب تک صبح اس بچے کو رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ بابر کت میں نہ لے جاؤ اس وقت تک کوئی بھی اسے دو دھ نہ پلائے۔” چنانچہ میں صبح بچے کو لے کر بارگاہِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں حاضر ہوگیا، اس وقت حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ہاتھ میں اونٹوں کو داغنے والا آلہ تھا ۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی نظرِ عنایت جب مجھے پر پڑی تو استفسارفرمایا:” شاید! اُم سلیم کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے؟” میں نے کہا:”جی ہاں۔” پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے وہ لوہے کا آلہ رکھ دیا۔ میں بچے کو حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس لے آیا۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے اپنی آغو شِ رحمت میں لے لیا اور مدینہ منورہ کی ”عجوہ ” کھجو ر منگوائی ، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنے دہن اقدس میں لے کر چبائی، جب وہ خوب نرم ہوگئی تو بچے کے منہ میں ڈال دی، بچے نے اسے چوسنا شرو ع کردیا۔ یہ دیکھ کر حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اس بچے کے چہر ے پر اپنا دست شفقت پھیرا اوراس بچے کا نام” عبداللہ ”رکھا۔
(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل ابی طلحۃ الأنصاری، الحدیث:۱۰۷(۲۱۴۴)،ص۱۱۰۹)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)