الاصلاح بالمنقول والمعقول
لمن خائف القرآن وحدیث الرسول
اعلی حضرت پیرسیدمقبول احمدشاہ قادری
قارئین کویادہوگا چندماہ پیشتر ہماری طرف سے ایک اشتہار وہابیہ کے متعلق شائع ہوا تھا۔ اس اشتہار میں وہابیوں کے وصولِ ثلاثلہ لکھاتھا ۔جو میں نے لکھا تھا۔انہیں اصول ثلاثہ کے ماتحت میں اپنی طرف سے ایک لفظ نہیں بڑھایا اس میں وہابیہ کی بہت سی غلطیاں ان پرظاہر کئے تھے۔انہیں غلطیوں میں یہ بھی تھا کہ جس کوتم حرام اوربدعت کہتے ہواسی کوتم خودکرتے ہو۔جس کو کفر وشرک کہتے ہو۔ اسی کو تم خودکرتے ہو۔جس کوتم حرام کہتے ہواسی کو تم خوددکھاتے ہو یہ سب کفریات ہیں۔ہمارے اس اظہار سے صرف یہ عرض تھا کہ یہ لوگ اپنی اصلاح کریں اوربیہودہ باتوں سے باز آجائیں مگر وہ اس اشتہار کوسمجھے نہیں ان کو لازم تھا کہ کسی سمجھدار کے پاس لے جاکراس اشتہار کوسمجھیں اگران کے نزدیک یہ عیب تھا توہندوستان یا پنجاب میں کسی بزرگ وہابی کے پاس بھیجتے ساتھ ہی ان سے التجا کرتے کہ ہماری بےکسی اور بے بسی پررحم کیجیے اوراس اشتہار کا جواب لکھ کر ہماری مدد کیجیے۔مگریاد رہے ان اشتہاروں کے جواب دینے میں کسی وہابیہ کی جرات ہرگزنہ ہوگی۔کیوں کہ ان اشتہاروں کے جواب لکھنا آسان نہیں یہ اشتہار کسی میسور کے وہابی کی نظرسے گزرا تووہ سمجھ کوسوں دور ہے اس نے وہابیہ کوالٹابھڑکایایہ کہہ کرمشتہر نے وہابیوں کو بہت سب وشتم کیا ہے اورسب وہابیوں کومشرک کافر لکھا ہے۔
ہم نے ان کے اصولوں کے ماتحت لکھامگر وہابی نہ سمجھے ہمارے اشتہارمیں یہ بھی مذکور تھا تم کہتے ہوجو چیز حدیث سے ثابت نہیں وہ بدعت سئیہ ہے تم بعض حدیثوں کوصحیح کہتے ہواور بعض کوضعیف ، صحیح ضعیف کہنا حدیث سے ثابت نہیں لہذا یہ وہابیہ کے نزدیک بدعت ہے۔اگرتم علمائے جرح وتعدیل کے قولوں کو مانتے ہویعنی جس کو انہوں نےصحیح ضعیف کہا تم بھی وہی کہتے ہو یہ ان کی تقلید ہی ٹھہری۔تمہارے نزدیک تقلید کرنا کفر وشرک ہے وہابی مذکور نے بے سوچے سمجھے چند عبارتیں ایڈیٹر جوناگڑھی کے رسالوں سے نقل کروا کے جن کو ان سوالوں کے ساتھ کوئی نسبت نہیں لکھ دیئے اور علمائے محدثین وفقہا کے تعریف لکھی ہیں یہ تعریف لکھنے سے وہابیہ کو کچھ فائدہ نہیں جن علما کی انہوں نے تعریف لکھی ہے وہ سب کے سب سنی تھے ۔بعض سنی مجتہد تھے بعض سنی مقلد تھے ہمارے مخاطب فرقہ جدیدہ وہابیہ ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ان علما میں کسی ایک کو ثابت کرو کہ وہ وہابی تھا ،علاوہ اس کے ہم چکڑالوی کو اہل قرآن وہابی کو اہل حدیث کب کہتے ہیں، وہابی نہ اہل حدیث ہے نہ ہوسکتا ہے نہ ہم اس کو اہل حدیث کہتےہیں۔صدہاسال گزرے یہ اللہ کے خاص بندے جن کےیہ لقب تھے۔ اس عالم سے تشریف لے گیے۔
امام القاری حنفی شرح شاطبی میں تحریر فرماتے ہیں امام سیوطی شافعی تفسیراتفاق میں تحریرفرماتے ہیں حضرت عثمان ،حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت موسی عشری وغیرہم صحابہ میں سے قراء اہل قرآن کے لقب سے مشہورتھے ۔ حضرت ابن مسیب، حضرت عروہ، حضرت سام، حضرت عطا بن ابی رباح، حضرت عکرمہ وغیرہم تابعین میں سے قراء اہل قرآن کے لقب سے مشہور تھے۔ کیا یہ لقب ایک چکڑالوی کوجو علوم عربیہ سے اور علم قرآن سے واقف ہی نہیں دیا جائے ہرگز نہیں۔ تاریخ ابن خلدون میں ہے اہل حدیث کا لقب
پہلے حضرت امام مالک کو علما کی طرف سے عطاہوا ہے ان کے بعد باقی محدثین جیساحضرت ابن مدینی ، حضرت یحیٰ ابن قطان، حضرت ابن معین ، حضرت امام حنبل وغیرہم کو ملا ہے کیا یہ مجتہد مستقل کا لقب ایسے وہابی کودیاجائے ۔جواستنجا کے مسائل تک سے واقف نہیں حاشاوکلا اگراسمیں کسی کوشک ہوتو اس فرقہ کے بڑے لکھے پڑھے آدمی سے دریافت کرواستنجاکرنا فرض کب اورواجب کب، سنت اورمستحب کب یہ حدیث سے ثابت کرو پھرناظرین خود فیصلہ کرسکتے ہیں یہ کس لقب کےمستحق ہیں ۔ان پیشوائے دین کے یہ لقب ان گمراہ دوفرقوں کو دینا بدترین گمراہی ہے اوربہت بڑاظلم ہے ۔بلکہ ان کو چکڑالوی اوروہابی کہا جائے کیوں کہ یہ دونوں لفظ نہ اس میں بے عزتی ہے نہ توہین ہے۔اگریہ اپنے زعم باطل سے اس کو براسمجھیں فرضی اہل قرآن اہل حدیث یااس زمانے کے اہل حدیث کہاکروتاکہ اگلے بزرگوں میں اوران میں تمیز ہوجائے۔میسوری وہابی نے قرآن پڑھنے کی حرمت امام کے پیچھے مشتہر کی طرف منسوب کیا ہے۔ حالانکہ یہ اس نے بہت بڑاگناہ کیا ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس اشتہار میں دیکھوکیا لکھاہواہےاور یہ بھی نبی کریم ﷺ کاحکم ہے۔جوکوئی امام کے پیچھے قرآن پرھے گا۔اس کے منہ کو پتھروںسے بھردویہ بھی حکم نبی کریمﷺ کا ہے۔ جوکوئی امام کے پیچھے قرآن پڑھے گا اس کے منہ کو آگ سے بھردو صحابہ کافتوی ہے۔جوکوئی امام کے پیچھے قرآن پڑھے گا اس کی نماز نہیں ہوتی یہ کفایہ شریف میں موجود ہے۔جو شرح ہےہدایہ شریف کی۔یہ وعیدشدید اس واسطے ہے کہ یہ اللہ رب العزت کے حکم کے خلاف ہے۔جو ثابت دلیل قطعی سے ہے دلیل قطعی کے مقابلے میں دلیل ظنی کی کچھ حقیقت نہیں۔کیاوہابی اب بھی اس کو مشتہر کی طرف منسوب کرو گے۔ذرا اللہ سے ڈرو ۔ میسوری وہابی نے علماء جرح وتعدیل کے قولوں کوماننا جاننا جائز لکھا ہے۔یہ لکھنے سے اس نے اپنے آپ کوکفرمیں گرایا ساتھ ان وہابیوں کو بھی جنہوں نے اس کی تحریر پررضامندی ظاہرکی کتب فتوی باب الارتدادمیں ایک مسئلہ یوں مذکور ہے مثلاًزیدایک بات کو کفرکہتا ہے اوراس کواعتقاد ہے یہ بات کفرکی ہے۔ نفس الامر اورواقع میں وہ بات کفرکی نہیں پھرزید نے اس بات کو جس کو کفرکہتاتھا اس کے کرنے پررضامندی ظاہرکی علما کے نزدیک زید کافرہوا کیوں کہ جب زید کے نزدیک یہ بات کفرکی تھی۔زید اس بات کے کرنےپرراضی ہوا۔رضابرکفرکفر ہے۔لہٰذا زیدکافر ہوا اس مسئلہ کوذہن میں اچھی طرح ٹھہراؤاور اس مقیس علیہ بناؤ۔
وہابیوں کے نزدیک تقلید مجتہدین نعوذ باللہ کفروشرک ہے۔میسوری وہابی جس تقلیدکوکفرکہتاتھا۔اس کے کرنے پررضامندی ظاہرکی۔رضابرکفرکفرہے۔لہٰذا وہابی مذکوراسلام سے خارج ہواسب عبادت اوراعمال صالحہ اس کے ضائع ہوگیے۔ اگراس کی عورت ہے وہ اس پرحرام ہوگئی تاوقتیکہ اس عقیدۂ فاسدہ سے توبہ نہ کرلے تجدیدنکاح نہ کرے اس کو اس عورت کے ساتھ صحبت کرناحرام ہے۔یہی حکم ان وہابیہ کا ہےجنہوں نے ان کی تحریر پررضامندی ظاہرکی جیسے میسور اورچامراج نگر کے وہابی کیوں کہ وہ اس کی کفر کی بات پرراضی ہوگیے۔۔رضابرکفر کفر ہے ۔یہ فتوی علما کا فتوی ہے۔سنی مسلمانوں کو اس پرعمل کرنا ضروری وواجب ہے۔
وہابی اگرکہے یہ سنیوں کافتوی ہے ہم اس پر عمل نہ کریں وہابی کو لازم ہے کوئی حدیث نبویﷺ پیش کرے جس میں یہ ہو ۔رضابرکفرکفرنہیں ہے۔تاکہ ان کو نجات مل جائے مگرکوئی وہابی ایسے حدیث پیش کرنے پر قادرنہ ہوگا۔وہابی کے لےدو ہی راستے ہیں یااس عقیدہ فاسدہ سے توبہ کریں یااپنا خاتمہ کفر پر کرائیں ۔ ہمارا کام تھا سمجھانے کا وہ سمجھا دیے۔عمل کرنے کا اختیار ان کو ہے۔ وہابی حضرات ٹھنڈے دل سے سوچ اور غور کریں۔
ہمارے اشتہار میں نماز کے مسائل زیربحث تھے۔وہابیہ کو ہم نے بہت سے سوال کیے انہوں نے کسی ایک کاجواب نہ
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
دیا،ایک رکت کی نماز کے لیے دس سوال کیے۔کیا کوئی جواب دے جب ان کی عاجزی کا یہ عالم ہے نہ ان کے پاس کوئی سند نہ کوئی ثبوت موجود ہے ان پرلازم اورفرض تھا۔ضداور ہٹ دھرمی چھوڑدیں مذہب حقہ حنفیہ کی تقلید کریں میں تم کو سمجھتا ہو ں مگر تم اپنے اعتقاد سے اورزبان سے کفر کی طرف جاتے ہو چنانچہ میسوری وہابی نے اپنی زبان سے اپنے کفر کااقرار کیا ہے مجھے اس بات کابہت بڑا رنج ہے آپ لوگ مسلمان ہو کر اپنے اعمال صالحہ کوضائع کرتے ہو خود جس چیز کو حرام کہتے ہو اس کو کرتے ہویہ دیکھ کر میرےدل میں رحم آیا۔میں نے تم کو سنی حنفی بننے کی دعوت دی تاکہ تمہارے اعمال صالحہ ٹھکانے لگ جائیں تم بھی مسلمان کامل بن جاؤ گے۔ تم لوگوں نے میری دعوت کو قبول نہ کیاتم لوگوں نے خسارے میں ہی رہنا قبول کیا۔
تمہارا اختیار غرق ہونے والے کو تنکے کا سہارا جب وہابیہ کونماز کے متعلق مسئلوں میںجواب دینے سے عاجزی ہوئی میں نے ان مسائل کے متعلق ناطقہ بند کر کے چھوڑ دیا تو خارج از بحث غیرضروری باتوں کا ذکر چھیڑنے لگے۔ ان شاء اللہ العزیز اس میں بھی وہابیہ کو ناطقہ بند کر کے چھوڑوں گا۔ میں نے آپ کو ضروریات دین کی طرف دعوت دی تھی ۔آپ نہ سمجھے آپ یہ سمجھ گیے کہ قادریہ چشتیہ وغیرہ بننے کی دعوت دیتا ہوں۔ معاذ اللہ میں وہابیہ کو کبھی قادریہ نہیں کہوں گاکیوں کہ وہابیہ میں نسبت ہے شیخ نجدی کی۔جونجد کے قِران کی علامت ہے۔ قادری میں نسبت ہے حضرت قطب الاقطاب کی طرف۔ان دونوں نسبتوں میں تضاد ہے ۔اجتماعی ضدیں محال ہیں۔وہابی کی عزت افزائی کے لیے اس قِران کی نسبت کافی ہے۔
آپ سمجھے عرس ،گیارہویں وغیرہ کی طرف ۔فرض کیجیے میں نے آپ کو عرس کی طرف دعوت دی تھی،ایک سنت کی طرف میں نے آپ کو دعوت دی نبی کریمﷺ ہرسال شہدائے احد کے قبروں کی زیارت کو جایا کرتے تھے ان کے بعد خلفا اربعہ بھی جایاکرتے تھے۔یہ تفسیردرمنشوروتفسیر کبیر میں موجود ہے۔سنی مسلمان بھی شہدائے اکبر کے قبروں کی زیارت کو سال کے بعد جاتے ہیں۔اسی کو عرف عام میں عرس کہتے ہیں۔
زیارت قبر سنت ہے خواہ عرس میں ہو یا غیر عرس میں بھی زیارت قبرہوتی ہے۔اس نعمت سنت کی طرف میں نے آپ کو بلایاہے جس نعمت سے تمام وہابیہ محروم ہیں خواہ تبرائی ہویا گلابی وہابی۔ یہ دونوں اس نعمت سے محروم ہیں۔ زیارت قبر جوسنت ہے وہابیہ اس کو قبرپرستی کہتے ہیں جو حرام ہے سنت رسول ﷺ کو معاذ اللہ حرام کہنا اور توہین کرنا کفر ہے ۔یہ دوسراکفر وہابیہ پرعائد ہوا ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
فرض کیجیے میں نے چہلم گیارہویں کی طرف دعوت دی جس کو تم دونوں فریق تبرائی وگلابی وہابی حرام کہتے ہیں ۔حلال خدا کو حرام کہنا کفر ہے جیسے کہ حرام حرام خدا کو حلال کہنا کفرہے میں نے آپ کو کفر سے بچانے کی کوشش کی مگرآپ نے اپنی وہابیت سے کفر میں گرنے کی کوشش کی یہ تیسرا کفر وہابیہ پر عائدہوا۔وہابی مذکور نے کتب فقہ بھی جانتا نہیں کہ وہ کیا ہیں۔ اور اس کو سمجھنے کی استعداد ہی نہیں ایصال ثواب کا کھانا صدقہ نہیں ہے ۔بلکہ وہ زندوں کی طرف سے اپنے بزرگوں اورعزیزوں کا تحفہ وہدیہ ہے۔ مواہب الدنییہ شریف کی ایک حدیث میں آیا ہے ۔جب ایصال ثواب کیا جاتا ہے اللہ رب العزت اپنے فرشتوں کے ذریعے سے اس ثواب کو ایک نور کے طبق میں ارواحوں کے سامنے پیش کرتا ہے وہ فرشتے ان روحوں کو یوں کہتے ہیں یہ تم کو دوست واحباب نے تحفہ بھیجا ہے وہ یہ دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں پھروہ اس کو اپنے آس پاس پڑوسیوں میں تقسیم کرتے ہیں جیسے زندہ لوگ کسی تحفہ کواپنے پڑوسیوں میں اور رشتہ داروں میں تقسیم کرتے ہیں ۔جن روحوں کی ایصال ثواب نہ کیا جائے وہ رنجیدہ اور غمگین رہتے ہیں جیسے وہابیہ کی روح۔ یہ حدیث رسول ہے۔اس پرسنی مسلمان کا عمل ہے وہابی کرتے نہیں ۔ اس حدیث میں لفظ تحفہ موجود ہے۔
اس سے معلوم ہوا یہ صدقہ نہیں بلکہ ہدیہ وتحفہ ہےجب
ایک چیز کی نیت کر لے تو صدقہ ہوجاتی ہے مگرنیت کرے تحفہ کی وہ تحفہ بن جاتی ہے۔سنی مسلمان ایصال ثواب کے کھانے کو تحفہ کی نیت سے پکاتے ہیں،اس تحفہ کاکھانا مسجد کے اماموں کو مقتدیوں کو امیروں کو فقیروں کوسب کوجائز ہے۔وہابیہ ایصال ثواب کرتے نہیں مگریہ ایک دوسرے کے ہاں دعوتوں میں جاتے ہیں اورکھاتے ہیں بعض مالدار بھی ہوتے ہیں کیا یہ صدقہ ہے۔ اگریہ صدقہ ہے تو کھلانے والابھی گنہگار کھانے والامالدار بھی گناہگار پھر بتلاؤ یہ کیا ہے۔اعتراض کرنے کے واسطےبھی حوصلہ ہوناضروری ہے۔اس کو حدیث سے ثابت کرواگروہابی عرس کودسواں چالیسواں گیارہویں وغیرہ کو حرام کہتے ہیں ۔تو یہ ایسی کوئی قرآن کی آیت یاکوئی ایسی حدیث نبویﷺ پیش کرےجس کی دلالت صریحہ اس پرہوکہ عرس کرنا ،دسواں گیارہویں کاکھاناحرام ہے۔ کیوں کہ حرام کہنے والے پرلازم ہےکہ کوئی دلیل شرعی پیش کرے مگروہابی ہرگزقادرنہیں ہوں گے۔ اس دلیل کے پیش کرنے پروہابیوں کے امورمذکورہ کا حرام کہنا زبانی بکواس ہے، اپنانامہ اعمال کو سیاہ کرتے ہیں سنی مسلمان ان کی اس بکواس کوگوزخرسے زیادہ وقعت نہ دیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وہابی مذکورہ نے لکھا ہے ہم نماز میں رسولﷺ کی صورت کو آمین پکارتے وقت رفع یدین کرتے وقت دل میں لاتے ہیں۔ وہابی مذکورنے اپنی بے علمی سے امرتسر کے وہابی علم والے کی ناک کاٹ دی ،پیرجماعت علی شاہ صاحب شاید مریدوں کو تصورشیخ کی تعلیم دیتے ہوں گے۔ چند سال ہوگیےاس تصورشیخ کے خلاف تبرائی ، وہابی گلابی کافتوی امرتسروہابی کے اخبار میں شائع ہوا تھا’’اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت میں غیراللہ کا تصور دل میں لاناکفراورشرک ہے۔ اسماعیل دہلوی نے لکھا اللہ کے خاص بندوں کی تصورنماز میں لانا اگرچہ سیدعالمﷺ کی ہو اپنے گائے بیل کے تصورمیں غرق ہونے کے برابر ہے۔
تصورکرنے والوں کی نماز باطل ہوجاتی ہے۔ یہ چوتھا کفر ہے وہابیہ کے میسوی وہابی کے اوپرعائدہوا ہے۔میں پوچھ رہا ہوں صرف قرآن حدیث کے مدعی وہابی نے رسول اللہ ﷺتصور دل میں لانا کس حدیث اورقرآن کے ماتحت ہے۔ وہابی مذکوربدعتی ہوا۔ شایدناظرین متفکر ہوں کہ تبرائی کیا چیز ہے۔گلابی وہابی کیا چیز ہے ۔تبرائی وہابی وہ ہیں جو سنی مسلمان کو سنی عالم کو سب وشتم کرے،گالیاں دیتے ہیں، علما کی توہین کرنا اور گالی دینا کفر ہے۔نعوذباللہ نبی کی تو ہین گالی دینے کے برابرہے اگر کوئی اس کی تصدیق کرناچاہئے وہابی میسور چامراج نگر اور گنڈل پیٹ سے اس کی تصدیق ہوسکتی ہے کیوں کہ وہ ہمیشہ اسی مشغلہ میں ہیں۔یہ پانچواں کفروہابی پرعائدہوا۔شریعت نے باغیان اسلام کی سرکوبی کے لیے یہی مشن گن کفر کی حکمی اورشرعی عموماً مقرر کیا ہے خصوصاًحقیقی مشن گن کااستعمال بادشاہ اسلام کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے ان ممالک میں جہاں اسلامی حکومت اس فرقہ ضالہ کا وجودہی نہیں جیسا افغانستان غزنوی سے ایک آدمی دہلی بانیٔ وہابیت مولوی نذیرحسن صاحب کے پاس آیا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
یہاں ان کاشاگرد ہوکر وہابی بن کر واپس وطن کوچلا جب غزنوی میں علما کومعلوم ہواہے۔ یہ وہابی ہے امیر کو خبردی امیر نے اس کوکہا۔ توبہ کراس گمراہ اعتقاد سے باز آجا اس نے انکارکیا اس کوجلاوطن کردیاگیا پھرپنجاب میں آکرامرتسر میں رہا انہیں کی ذریت کے چندگھر امرتسرمیں غزنوی کرکے مشہور ہیں۔ ایک آدمی کابل سے آیا پنجاب میں مرزا غلام احمدقادیانی کاشاگردہوکر مرتد ہوا۔واپس جب کابل کو گیاتوامیرنے اس کو کہا کہ اس ارتداد سے توبہ کرچندروزسوچنے کے لیے مہلت دی گئی جب اس نے توبہ نہ کیاتوحقیقی مشن گن سے اس کے پرخچے اڑائے گئے۔ یہ ہندوستان کفرستان ہے یہاں کوئی کسی کا پوچھنے ولا نہیں جس کے جی میں جو آئے وہ کرتا ہے۔ یہاں پر ہم وہی شرعی کفر کے مشن گن استعمال کرتے ہیں تاکہ لوگ کفریات سےلغویات سے بیہودہ باتوں سے پرہیز کریں۔اپنے ایمان کوبچائیں کوئی یہ نہ کہے یہ قتل کرنا ظلم ہے۔
بلکہ نہایت ہی انصاف اورعین انصاف ہے جیسے ڈاکٹرایک عضوناسورکوکاٹ کر پھینک دیتا ہے تاکہ باقی بدن سڑ جانےاوربگڑجانے سے بچ جائے۔
اسلام میں ایسے لوگوں کوقتل کرنا اسی غرض سے ہے تاکہ باقی مسلمان کفراورفتنہ فساد کی بیماری سے محفوظ رہے۔ اپنے ایمان کی بربادی سے بچ جائیں ۔اپنی زندگی امن وامان کے ساتھ بسرکریں گلابی وہابی ہیں جوسنی نماوہابی ہیں۔ ظاہران کا سنیوں کی طرح ہے باطن اوراعتقاد ان کاوہی ہے،جو وہابیوں کا ہے۔ یایوں سمجھ لیجیے تبرائی وہابی برساتی مینڈکوں کی طرح پکارتے ہیں۔گلابی وہابی دآبۃ الارض دیمک کی طرح اندراندر نقصان پہونچاتی ہیں۔ان کی نقصان رسائی پر انسان جلدی واقف نہیں ہوتا ۔ایسے وہابی آجکل کہیں کہیں پائے جاتے ہیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
مذکورہ وہابی نے لکھا ہے کہ مشتہر نے ہم کو آبائی تقلید کی طرف بلایا ہے۔وہابیہ کی یہ قسمیں تقلیدکے کس حدیث کے ماتحت ہیں ۔ تقسیم کرنے والا بدعتی ہے اس کے سب اعمال صالحہ اکارت ہوگیے وہابیہ کے نزدیک آبائی تقلید بھی کفروشرک ہے۔
وہابیہ کے آباواجداد جوکچھ کرتے آئے اور کہتے آئے تووہابیہ ماں کوماں بہن کوبہن ،عورت کوعورت، کتے کو کتا، بکرے کو بکرا وہ سب کچھ چھوڑدینا چاہئے مثلاً وہابی کے آباواجداد وماں کو ماں، بہن کوبہن ،عورت کو عورت ،کتے کوکتا، بکرے کو بکرا کہیں یہ توآبائی تقلیدٹھہری ۔جووہابی کے ہاں کفر وشرک ہے لہٰذا وہابیہ پرواجب ہے۔اس کو بدل ڈالے تاکہ کفروشرک سے بچ جائے وہ تبادلہ یوں ہوگا۔ماں کو عورت ،عورت کو ماں ،بہن کو عورت ، عورت کو بہن،کتے کوبکرا، بکرے کو کتا کہیں تاکہ آبائی تقلید سے بچ جائیں ۔ امیدقوی ہے وہابی اس پرعمل کرتے ہوں گے، یا کریں گے۔ اگروہابیہ نے یہ تبادلہ نہیں کیا تویہ ہمیشہ کفر و شرک میں ہی رہیں گے۔ ان کا خاتمہ ہمیشہ کفر وشرک پر ہی ختم ہوگا۔ یہ چھٹواں کفروہابی پرعائدہوا۔
وہابی مذکور کاجھوٹ
وہابی مذکورلکھتے ہیں مولوی ثناء اللہ صاحب کے اوپرکوئی سوال نہ کیا اور نہ ثناء اللہ نے میرے اوپر کوئی سوال کیا البتہ عموماً سوالوں کے مخاطب ہرایک وہابی ہے مگر ان کا جواب کسی وہابی سے نہ بنا نہ بنے گا۔وہابی مذکورنے جوسوال ان کی طرف منسوب کر کے لکھا مجھ کو اعتبار نہیں کہ یہ ان کا سوال ہے ۔ کیوں کہ اس بے سروپاسوال سے سائل کی بے علمی اورجہالت ٹپکتی ہے۔ جب تقلیدکا حکم اللہ کی طرف اوراللہ کے رسولﷺکی طرف سے ہوچکا اس پر اجماع ہوگیا۔ اب کسی کے حکم کی ضرورت نہیں مولوی ثناء اللہ علم رکھتا ہے گووہابی ہے وہ ادھر کے وہابیوں کی طرح بے علم نہیںہے ۔پھر اس نے یہ کیا سوال کیا؟۔ مقلدکو تقلید کرنے کے لیے امام کا حکم ہونا ضروری ہے۔ کیا مولوی اس امام کےحکم کو قرآن وحدیث سے ثابت کرسکتے ہیں ہرگز نہیں اگر تمام وہابی مل کر ایک دوسرے کی مدد کریں پھرایسی کوئی آیت یاحدیث پیش کرنے پرہرگزقادر نہیں ہوںگے۔ پھر وہابی نے لامعانی سوال کیوں کیا۔ اگریہ واقعی انہیں کا سوال ہے تو میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ بالکل علم سے عاری ہے میراخیال جو ان کے علم کےمتعلق تھا ۔وہ غلط ہواپھربھی میری نظرسے کبھی گزرانہیں سوائے اب کے میں تقاضے کی نوبت ہی آنے نہیں دیتا۔ لیجیے اس
بیہودہ سوال کا جواب
سنیے! مفتی اس لیے فتوی دیتا ہے تاکہ لوگ اس پرعمل کریں جس نے اس فتویٰ پرعمل کیا وہ اس مفتی کامقلد ہوا۔ جس نے اس پرعمل نہیں کیا وہ اس کا مقلدنہیں نفس فتویٰ مفتی کی طرف سےعین حکم مفتی کاہے۔
حضرت امام اعظم نے بیشماراور بے حساب فتاوے( حکم )دئے۔مفتی اورفتوی کے پیرو، مقلد اور متبع ہوجاؤ ۔کتب فتاوی ان کے فتاؤں سے محلول ہیں کیا وہابی جی سوال کاجواب
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
سمجھ شریف میں داخل ہوا ۔معلوم ہوا ہے امام کا حکم دینا فتویٰ اور امام کی تقلید کا افسوس ہے۔
اس مسائل پرایسے سوال کے جواب کے لیے سب دنیا کے علما کو دعوت دی جس کا ایک معمولی طالب علم تاراورپودا جدا کرکے بتلادے ۔ان وہابیوں نے تمام عمر انہیں لایعنی باتوں میں گزاردی ہمیشہ سوال جواب میں رہے۔ پیرکےدرجہ سے گزرگیے۔ نہ ان میں سوال کرنے کا حوصلہ ہے۔ نہ جواب دینے کاسلیقہ اب تک طفل مکتب ہی رہے۔ ابھی کمسن ہیں نہیں واقف ہیں کہ وہ کیاچیز ہے۔ادا کیاہے۔ وہابیہ نے میرے بعض سوالوں کوبیہودہ قرار دیاہے وہابیہ کا دعویٰ ہے ہم حدیث پرعمل کرتے ہیں۔حدیثوں کی تین قسمیں ہیں ایک حدیث قولی، ایک حدیث فعلی، ایک حدیث تقریری، میں نے وہابیہ سے سینے پرہاتھ باندھنے آمین پکارنے رفع یدین کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺکاحکم پوچھا اسی کوحدیث قولی کہتے ہیں۔وہابیہ کے طرف سے کوئی جواب نہیں ۔میںنے وہابیہ سے پوچھا نبی کریم ﷺ سے مقتدی ہو کر ’’نماز پڑھنا ثابت ہے؟
افعال مذکورکا اس حال میں کرناثابت ہوتوپیش کرویہ حدیث فعلی ہے وہابیہ کی طرف سے کوئی جواب نہیں اور میں نے وہابیہ سے پوچھا کسی صحابہ نے نبی کریمﷺ کے مقتدی ہو کر افعال مذکورکوکیا ہویاکسی صحابی نے تنہائی میں افعال مذکور کیا ہواور نبی کریمﷺ نے دیکھ کر خاموشی فرمائی ۔ایسی بھی کوئی حدیث پیش کرو یہ حدیث تقریری ہے۔ وہابیہ کی طرف سے کوئی جواب نہیں،وہابیہ کا دعوی ہےکہ ہم حدیث پرعمل کرتے ہیں۔حدیثوں کی یہی تین قسم ہیں۔ کوئی چوتھی قسم نہیں پھر یہ کس حدیث پرعمل کرتے ہیں ؟۔ وہابیہ کے پاس جب اس کا جواب ہی نہیں، انہوں نے ان سوالوں کو بیہودہ قرار دے کر اپنے وہابیوں کو گمراہی کے اندر رکھ دیا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اگرکوئی وہابی سمجھدارہوتاوہ ہمارے اشتہاروں کو دیکھ کر فوراًتوبہ کرتامگرافسوس ہے۔وہابیہ میں کوئی سمجھدار نہیں ان سب سوالوں کااورباقی بہت سوالوں کا قرضہ ان پرباقی رہا جب تک چاند اورسورج آسمان میں ہیں۔تب تک اس قرضہ کا ادا کرنا ان سے ممکن نہ ہوگا۔البتہ میں ان کواس قرضہ سے معافی دے سکتا ہوں بشرطیکہ وہ اپنی وہابیت سے توبہ کریں اس کفریات سے بچیں ۔
وہابی مذکور نے ایک مرتبہ چند مسلمانوں کے سامنے مامب ہلی میں کہا تھا کہ نبی کریمﷺ نے مقتدی ہوکرکبھی کوئی نماز ادانہیں کی پھرمسلمانوں نےا ن کو کہا ہم ثابت کریں گے تو آپ توبہ کرتے ہیں مگرانہوں نےتوبہ سے انکارکیاپھرانہوں نے ان سے پوچھا تم کہتے ہو جوچیز حدیث سے ثابت نہیں وہ بدعت ہے۔
مقتدی ہو کرسینے پرہاتھ باندھنا آمین پکارنا وغیرہ حدیث سے ثابت نہیں۔تمہارے نزدیک یہ بدعت ہے ۔یہ بدعتوں کے واسطے آیاہے ۔وہ دوذخیوں کے کتے ہیں،کتے کو مسجد کے اندرجانے کی اجازت نہیں یا ان فعلوں کو حدیث سے ثابت کرو یا اپنے عقیدے فاسدہ سے توبہ کروو۔وہ اس کو ثابت نہ کرسکے نہ توبہ کی پھر وہ مسجد کے اندرجانے سے رک گیے اورمسجد کے اندرجانہ سکے غرض میں نے اشتہارطویل سابق میں ثابت کرکے بتایاکہ ابتدائی نماز اورآخرنماز نبی کریمﷺ نے مقتدی ہوکرادافرمائی ہے تم جو مقتدی ہو کرافعال کرتے ہو ،۔نبی کریمﷺ سے مقتدی ہو کر ان فعلوں کا کرنا ثابت نہیں ۔تم یہ کیوں کرتے ہو؟۔اس کے جواب دینے کے لیے وہابیہ نے بہت کوشش کی سارا ہندوستان اورپنجاب چھان مارے وہابی کے علاوہ سنی شافعیوں سے بھی تحقیق کرے جب وہابیہ ہرطرف سے خائب وقاصر ہو کر آئے وہابیہ کے سامنے اپنی رسوائی اور شرمندگی چھپانے کے لیے مدیرمحمدی کے دوسوال جو اس کو سمجھ میں نہ آئے تھے ان کے رسالہ سے نقل کرکے یا کسی سے نقل کرواکے جواب کامطالبہ کیا وہابی جی ایسے سوال کیا کیجیے۔ایسے سوالوں کے جواب لکھنے پرطبیعت خوش اوردل باغ باغ ہوجاتاہے۔
بیہودہ سوالوں سے پرہیزکیجیے وہابیہ کے جتنے مسائل عقدہ
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
لاینحل ہیں۔ حنفی مذہب کے ایک ادنیٰ خادم سے ان کو حل کروا سکتے ہیں ۔بعونہ تعالیٰ جواب لکھتا ہوں۔ اول میں مسئلہ وتر کا جواب لکھتا ہوں۔
بخاری شریف ،مسلم شریف، ترمذی شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ سےروایت ہے کہ رمضان اورغیررمضان میں نبی کریمﷺ گیارہ رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔ سنی حنفیوں کے نزدیک یہ آٹھ رکعتیں تہجد کی نماز ہے اور تین رکعت وترکی نماز ۔اکثرنبی کریمﷺ سے تہجد کی نماز آٹھ ہی رکعت ثابت ہیں۔ انہیں آٹھ رکعتوں کو وہابیہ نے تروایح قرار دیا۔حالانکہ حدیث میں صاف ظاہر ہے کہ غیر رمضان میں بھی آٹھ رکعت پڑھتے تھے۔غیررمضان میں تراویح کیسی؟ تراویح خاص نماز رمضان ہی کی ہے۔ معلوم ہواکہ یہ آٹھ رکعت تراویح نہیں ہے ۔ وہابی پر لازم ہے کہ حدیث سے ثابت کرے یہ رات کی نماز کونسی نماز ہے۔اس میں کسی نماز کا نام نہیں ۔رات کی نماز کا اطلاق ہر رات کی نمازپرآتاہے ۔وہابیہ نے اس کو تراویح نام رکھا۔
کسی دلیل سے رات کی نماز بارہ رکعت تیرہ، پندرہ، سترہ رکعت بھی آئی اور اس سے بھی زیادہ حنفی مذہب میں وتر کی تین رکعت دو قعدے کے ساتھ آخر قعدے میں سلام ہے۔ یہی مذہب اکابر صحابہ ومجتہد صحابہ کاہے۔ جیسے حضرت عمر حضرت علی ،حضرت عبداللہ بن مسعود وغیرہم ۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے ۔حضور ﷺ وتر کی نماز تین رکعت پڑھتے تھے۔ اس میں فصل نہیں کرتے تھے۔یعنی قعدہ کرتے تھے ۔ سلام سے دو رکعت پرفصل نہیں کرتے تھے۔ یہ نسائی شریف میں ہے۔ امام احمدحنبل نے اپنے مسندمیں اس حدیث کوروایت کیا اس لفظ کی زیادتی کے ساتھ ۔دورکعت پرسلام نہیں پھیرتے تھے ۔قعدہ توکرتے تھے ۔حضرات ابی بن کعب سے مروی ہے، حضور نبی کریم ﷺ وتر کی پہلی رکعت میں سورۂ اعلیٰ پڑھتے تھے۔ دوسری رکعت میں سورۂ کافرون پڑھتے تھے۔ تیسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھتے تھے۔ سلام ان تین رکعتوں کے بعد ہوتاتھا۔ اسی پر احناف کاعمل ہے ۔اسی حدیث سے حنفیوںکے نزدیک ان تین سورتوں کووتر کی نمازمیںپڑھنا سنت اورمستحب ہے۔ اس کاترک عمداً مکروہ تنزیہی ہے۔ بعض حدیثوں میں بھی آیا ہے کہ سورہ اخلاص کے ساتھ سورہ معوذتین بھی پڑھتے ہیں۔
مگرحنفیہ کے نزدیک یہ زیادتی ثابت نہیں اوراس زیادتی ماننے سے تیسری رکعت کی قرات زائد دوسری رکعت پرلازم آتی ہے جومکروہ ہے۔ حضرت ابوعالیہ سے طحاوی شریف میں روایت ہے اصحاب رسولﷺ ہم کو وتر نماز سکھاتے تھے وتر نماز مغرب کی نماز کی طرح ہے۔
مغرب کی نماز دن کاوتر ہے۔ یعنے دن غروب ہوتے ہی اس نماز کوپڑھتے ہیں اس لیے اس کو دن کاوتر مجازاً کہا گیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے ۔وترکی تین رکعت ،دن کے وتر مغرب کی نماز کی طرح ہے۔امام بہیقی نے کہا یہ حدیث صحیح ہے وتر کوجو مغرب کی نماز سے تشبیہ دی گئی اس واسطے کہ مغرب کی نماز تین رکعت ہے۔،مغرب کی نماز میںتین رکعت اور دوقعدے ہیں وترکی نماز میںبھی تین رکعت ہیں ،مغرب کی نماز میں دورکعت میں سلام نہیں ہوتا۔ مغرب کی فرض نماز میں قعدۂ آخر میں سلام ہے۔ وتر کی نماز میں بھی قعدۂ آخرمیں سلام ہے ۔ حضرت امام اعظم کے مذہب کے سب مسائل ہم تک بطور ترواتر چلے آئے ہیں، تواتر کے لئےنہ کتاب کی ضرورت نہ کتاب کے اندر ہونے کی ضرورت ،یہ عدم ضرورت ہےضرورت عدم نہیں، جس مذہب کے ہم سنی حنفی مقلد ہیں جب وتر کی نماز تین رکعت دوقعدے کے ساتھ آخر قعدے میں سلام کے ساتھ ثابت ہونا صاف ظاہر ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا وہابی نے وتر کی نمازکاسوال کیوں کیا۔نبی کریمﷺ نے فرمایا رات کی نماز دورکعت ہے جب تم میںسے کسی کو صبح ہوجانے کا خوف ہوجائے توایک رکعت ان پہلے دورکعتوں کے ساتھ ملادو یہ ایک رکعت پہلے دورکعتوں کو نمازی کے لیے وتر بنا دے گی اس حدیث سے
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بھی تین ہی رکعت ثابت ہوجاتے ہیں۔ یعنی ملنے والی ایک رکعت جو دو رکعتوںکے ساتھ ملائی گی۔مجموعہ تین ہی رکعت ثابت ہوئی اسی حدیث سےثابت ہواکہ ایک ہی رکعت کوئی نماز نہیں مذکورہ کے احادیث کثیرہ سے ثابت ہوا ۔ وتر تین رکعت دو قعدے اورآخر قعدے میں سلام کے ساتھ ثابت ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک رکعت وتر کی نماز نہیں نہ اور کوئی نماز۔ اگر کہیں ایک رکعت وتر کی نماز ثابت ہوجائے تووہ منسوخ ہے۔ حضرت محمدبن کعب قرظی سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ایک رکعت وتر نماز پڑھنے کوبتیرا یا بتیعہ کہتے ہیں۔ حدیث شریف سے ثابت ہوا۔ایک رکعت وتر نماز منسوخ ہے ۔ اسی واسطے نبی کریمﷺ نے فرمایا رات کی نماز دورکعت سے تین رکعتوں کو وتر کہتے ہیں۔ ایک رکعت کا وتر ہونا منسوخ ہوا۔ ثابت ہوا وتر تین رکعت ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود کا فتوی ہے ایک رکعت ہرگزوتر سے کفایت نہ کرے گی۔ یعنی وتر نماز نہیں کہلائے گی ۔حضرت سعد بن ابی وقاص نے جب ایک رکعت وتر پڑھی حضرت عبداللہ بن مسعودنے ان پرانکار فرمایا اورفرمایا اے سعد کیا ہے یہ بتیراء۔ یعنی کیا ہے ایک رکعت وتر کی نماز۔ جس کو ہم نبی کریم ﷺ کے زمانے میں نہیں جانتے تھے۔ اور مبسوط شریف میں ہے جب حضرت عمر نے حضرت سعد کو ایک رکعت وتر پڑھتے دیکھا فرمایا کہ اے سعد کیا یہ بتیرا ۔یعنی کیا یہ ایک رکعت کی نماز، پہلے دورکعت پڑھ پھر انہیں دورکعتوں کے ساتھ ایک رکعت ملاؤ۔ ثابت ہوا ایک رکعت نہ وتر کی نماز ہے نہ کوئی اور نماز۔ اگر کہیں ایک رکعت نماز وتر ثابت ہوجائے تووہ منسوخ ہے۔ وتر کے بعد دورکعت بیٹھ کر پڑھنا سنت اور مستحب ہے۔ ترمذی شریف میں حضرت ام سلمیٰ سے مروی ہے نبی کریمﷺ وتر کی بعد دورکعت پڑھتے تھے۔ ابن ماجہ شریف میں یہی حدیث اس لفظ کے زیادتی نبی کریمﷺ وتر کے بعد بیٹھ کر خفیف دو رکعت پڑھتے تھے۔ دارمی شریف میں حضرت ثوبان سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ مہینہ جہد ثعل۔۔۔۔ کا ہے جو تم میں سے وتر کی نماز پڑھے اس کے بعد دورکعت پڑھے اگررات کی نماز کے واسطے اٹھا توبہتر ہے نہیں تو یہ دورکعت اس کے لیے رات کی نماز کے قائم مقام ہو جائے گی یعنی تہجد کے۔ مسند امام احمدحنبل میں حضرت ابوامامہ سے مروی ہے نبی کریمﷺ وتر کے بعد دورکعت بیٹھ کر پڑھتے تھے دونوں رکعتوں میں سورۂ زلزال اور سورۂ کافرون پڑھتے تھے۔ ثابت ہوا وتر کے بعد دورکعت بیٹھ کر پڑھنا سنت اور مستحب ہے بعض جہلا کہتے ہیں کہ وتر کے بعد کوئی نماز نہیں ۔وہابیہ کہتے ہیں یہ دورکعت بیٹھ کر پڑھنا بدعت ہے۔اس لیے کوئی وہابی یہ دورکعت پڑھتے نہیں ۔نعوذ باللہ ۔ ان کی تردید کے واسطےیہ مسئلہ لکھا گیا۔
وہابیہ سے سوال
تم جو ایک رکعت مستقل تکبیرتحریمہ کے ساتھ عشا کےوقت میں بلا خوف صبح کےپڑھتے ہو ثابت کرو اور یہ بھی حدیث سے ثابت کرو ایک رکعت وتر کی نماز منسوخ نہیں ہے، جیسے میں حدیث سے ثابت کیا کہ ایک رکعت وتر کی نماز منسوخ ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
دوسرے سوال کا جواب
اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا جب تم بے غسل ہواپنے بدنوں کو خوب مبالغہ کے ساتھ پاک کرو ۔ ظاہر ہے جنابت کی حالت میں سارا بدن ناپاک ہوجاتا ہے۔ نجاست حکمی سے سارے بدن کا دھونا فرض ہوا۔مگروہ اعضا مستثنی ہیں جن کو پانی پہنچنے سے نقصان پہونچتا ہے ،جسے داخل آنکھ وغیرہ بعض اعضا من وجہہ داخل بدن کے حکم میں ہیں ۔جب منہ اور ناک بند کردی داخل بدن کے حکم میں ہیں جیسے منہ اور ناک کھولیں تو ظاہربدن کے حکم میں ہیں۔جیسا ظاہربدن کودھونے سے نقصان نہیں ہوتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے جنابت کے بارے میں صیغۂ مبالغہ کارارشاد کا فرمایا یعنی لفظ فاطھروا یہ باب تفعل سے ہے اس باب کی خاصیت تکلیف اور کثرت اور مبالغہ ہے جب تک صیغۂ مبالغہ
کے مبالغہ کے معنی کا لحاظ کیا جائے۔صیغہ کی غرض وغایت نہ پہچانی جائے تب تک اس کا معنی پورا نہ ہوگا۔ صیغۂ مبالغہ چاہتا ہےکہ زیادتی کو جب تک صادرنہ کیا جائے اس صیغہ مبالغہ کامعنی متحقق نہ ہوگا۔قرآن کا سباق وسیاق مبالغہ اور غیرمبالغہ کو تمیز کیا جائے جس کے پہچاننے کے واسطے علم معانی وضع ہوا۔قرآن کے جاننے سے عاجزی لازم آتی ہے۔لہٰذا حضرت امام اعظم نے اس صیغہ مبالغہ کو یعنی صیغۂ فاطھروا کو مدنظر رکھ کر اعضاؤں کو جو من وجہہ داخل بدن ہیں۔جیسے منہ اور ناک ظاہرمیںدھونا فرض ہے۔ تاکہ صیغہ مبالغہ کا معنی متحقق ہوجائے اور زیادتی ثابت ہوجائے۔منہ اور ناک جب بدن دھونے کے فرض میں داخل ہوا توتین ہوگئے۔ایک سارا بدن دھونا اور منہ اورناک جو من وجہہ داخل بدن تھے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ان کو ظاہربدن کا حکم دے کر ان کا دھونا بھی فرض ہوا۔ زیادتی صیغہ مبالغہ کی متحقق ہوگئی ۔سارا بدن دھونا فرض ہواغسل میں عبارت نص سے اور منہ کااور ناک کادھونا فرض ہوا۔ غسل میں اشارۂ نص سے غسل کے تینوں فرض ثابت ہوئے نص قرآن سے بخلاف وضو۔ وضو میں اللہ تعالیٰ صیغہ مبالغہ سے حکم نہیںدیا۔ یہ عدم صیغہ کو مدنظر رکھ کر وضو میں چہرہ دھونا فرض ہوا ناک اور منہ کا دھونا فرض نہ ہوا۔اسی کانام ہے قرآن دانی۔ فللہ الحمد۔سیدنا حضرت امام اعظم جنہوں نے قرآن کی غرض وغایت ۔قرآن کے اسرار اور قرآن کے لب لباب کو سمجھ کر امت مرحومہ کے اوپر بڑا احسان کیا اور مسائل دقیقہ کو آسان کردیا جن کے سمجھنے سے باقی انسانوں کے عقلیں حیران تھیں ، وہابیہ چونکہ سباق وسیاق علم قرآن سے عاری ہیں اس لیے ان کو غسل کے تین فرض کی دلیل سمجھ میں نہ آئی کہ کس دلیل سے غسل کے تین فرض ثابت ہیں ۔وہابی سے سوال تمہارے ہاں غسل میں اوروضو میں منہ اور ناک کا دھونا کیا ہے اگر دونوں کاحکم ایک ہے تو غسل میں صیغۂ مبالغہ آیا ہے اور وضو میں نہیں۔اس کا لحاظ کرنا ہے یا نہیں۔ حدیث سے ثابت کرو۔
فرض کیجیے ایک وہابی نے غسل میں منہ اور ناک میں پانی نہیں ڈالا دوسرے وہابی نے منہ اور ناک میں پانی ڈالا تیسرے وہابی نے وضو میں منہ اور ناک میں پانی ڈالا چوتھے وہابی نے وضو میں منہ اور ناک میں پانی ڈالا ان دونوں بے غسل وہابیوں میں کس کا غسل ہوا۔اور کس کانہیں ہوا۔ان دونوں کا وضوا ہوا یا دونوں دونوں کا نہ ہوا۔ حدیث سے ثابت کرو
وہابی مذکورہ کے ذریعے سے معلوم ہوا ایڈیٹر محمدی مرگیا۔ خیر اس دنیائے فانی میں کسی کو بقا نہیں۔ ہرایک کو اپنے وقت معین میں یہاں سے جانا ہے مگر ہرمسلمان کو ضروریات دین کا جاننا فرض عین ہے۔جیسے وضو کے فرض غسل کے فرض نمازوں کے فرض روزوں کے فرض۔ان کا جاننا ہرمسلمان عاقل وبالغ پرفرض عین ہے خواہ عورت ہو یا مرد، اس امر میں کوتاہی کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے مدیرمحمدی غسل کے تین فرض جاننے کے سوا مذکورہ بالاقرآنی آیت سمجھنے کے سوا مرگیا۔
الرشاد شمارہ ۱۱