واقعات

قاضی شَرِیک کی جرأت وبہادری

حکایت نمبر 415: قاضی شَرِیک کی جرأت وبہادری

حضرت عمر بن ہَیَّاج بن سعید سے منقول ہے: میں حضرتِ سیِّدُناقاضی شَرِیک علیہ رحمۃ اللہ الرفیق کے قریبی دوستوں میں سے تھا۔ ا یک دن صبح سویرے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میرے پاس اس حالت میں تشریف لائے کہ چادر اوڑھی ہوئی تھی اور چمڑے کا لباس پہنا ہوا تھا جس کے نیچے قمیص نہ تھی۔ میں نے کہا:”کیا وجہ ہے کہ آج آپ نے مجلس قضاء منعقد نہیں فرمائی؟”فرمایا: ”کل میں نے اپنے کپڑے دھوئے تھے جو ابھی تک سوکھے نہیں، میں ان کے خشک ہونے کا انتظار کررہا ہوں۔ تم یہاں بیٹھو، ہم کچھ دینی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔” حکم پا کر میں بیٹھ گیا تو ہمارے درمیان غلام کے نکاح سے متعلق گفتگو ہونے لگی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” جو غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے اس کا کیا حکم ہے ؟ کیا اس بارے میں تمہیں کچھ معلومات ہیں۔” ابھی سلسلۂ کلام جاری تھا کہ”خَیْزُرَان”کی طرف سے مقرر ایک نصرانی ( شاہی ملازم کوفہ میں جس کا ہر حکم مانا جاتا تھا اور موسیٰ بن عیسیٰ کو بھی اس کی ہر بات ماننے کا حکم دیا گیا تھا) ہمارے پاس آیا اس کے ساتھ شاہی سپاہی اور دوسرے بہت سے لوگ تھے۔ وہ چراگاہ کی طرف
جانے کا ارادہ رکھتا تھا ،انتہائی قیمتی جُبّہ پہنے، ایک طاقتور عجمی گھوڑے پر بڑے شاہانہ انداز سے بیٹھا ہواتھا۔ قاضی نے دیکھا کہ ایک پریشان حال شخص ہاتھ جوڑے بڑے درد مندانہ انداز میں پکاررہا ہے: ”ہائے! کوئی میری مدد کرے ، میں اولاً اللہ عَزَّوَجَلَّ اور پھر قاضی سے انصاف طلب کرتا ہوں۔” اس سائل کا جسم کوڑوں کی مارسے چھلنی تھا۔ نصرانی( شاہی ملازم) نے قاضی کو سلام کیا قاضی صاحب نے اسے اپنے پاس بٹھالیا۔
زخمی سائل نے عرض کی:”میں پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پھر قاضی صاحب کی پناہ چاہتاہوں۔قاضی صاحب ! میں کپڑے بُنتا ہوں اور میرے جیسے مزدور ماہانہ سو درہم اجرت لیتے ہیں۔ اس نصرانی نے مجھے تقریباً چار ماہ سے قید کررکھا ہے میں سارا دن کام کرتا ہوں لیکن اجرت میں اتنی کم رقم ملتی ہے کہ بمشکل کھانے کی اشیاء خرید سکتا ہوں۔ میرے گھر والے فقرو فاقہ اور تنگدستی میں مبتلا ہیں، آج موقع پا کر میں قید سے بھاگ آیا تو راستے میں اس نصرانی نے مجھے پکڑ لیا اور اتنا مارا کہ میری ساری پیٹھ لہولہان کردی۔ خدارا !مجھ پر رحم کیجئے۔”مظلوم سائل کی یہ درد بھری فریاد سُن کر قاضی شَرِیک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نصرانی کو ڈانٹتے ہوئے کہا: ” اے نصرانی!اُٹھ اوراپنے مقابل کے سامنے کھڑا ہوجا۔”
نصرانی نے کہا:” قاضی صاحب ! اللہ تعالیٰ آپ کا بھلا کرے، یہ”خَیْزُرَان”کے خادموں میں سے ہے اور بھاگ آیا ہے، اسے قید کرلیجئے ۔” قاضی شَرِیک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” تیرا ناس ہو! جو تجھ سے کہا گیا ہے اس پر عمل کراور سائل کے برابر کھڑا ہو جا۔” نصرانی ملازم بادِلِ ناخواستہ سائل کے برابر جا کھڑا ہوا۔ قاضی صاحب نے فرمایا:” اس فریادی کی پیٹھ پر یہ زخم کے نشانات کیسے ہیں ؟” کہا: ” قاضی صاحب!اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے میں نے اپنے ہاتھوں سے اسے کوڑے مارے ہیں،ابھی تو اس کو کم سزا ملی ہے یہ تو اس سے بھی زیادہ کا حق دار ہے، آپ جلدی سے اسے جیل بھجوادیجئے۔”
یہ سُن کر قاضی شَرِیک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کمرے میں داخل ہوئے، واپسی میں ان کے ہاتھ میں ایک زبردست قسم کا سخَت کوڑا تھا۔آپ نے نصرانی کی پیٹھ سے کپڑا ہٹاکر خوب کوڑے لگائے۔ پھر اس مظلوم فریادی سے کہا :”تم بے خوف و خطر اپنے اہل و عیال کے پاس چلے جاؤ۔” وہ دعائیں دیتا ہو ا وہاں سے چلاگیا۔ قاضی صاحب نے پھر کوڑا بلند کیا اور پے درپے کئی کوڑے نصرانی کی پیٹھ پر لگاتے ہوئے کہا :” آئندہ تجھے کسی پر ظلم کرنے کی جرأت نہ ہوگی۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! توآئندہ کبھی بھی کسی مسلمان پر ظلم نہیں کریگا۔ تیری پیٹھ کے زخم تجھے اس بُری حرکت سے باز رکھیں گے۔” اس کے رفقاء نے جب اس کی دُرْگَتْ بنتی دیکھی تو اسے چھڑانے کے لئے آگے بڑھے۔ قاضی صاحب نے بآوازِ بلند فرمایا:” اگر قبیلے کے نوجوان یہاں موجود ہوں تو جلدی سے آئیں اور اس کے دوستوں کو جیل میں ڈال دیں۔” یہ سُن کر سارے حمایتی بھاگ گئے اور نصرانی اکیلا رہ گیا۔ قاضی صاحب نے اسے خوب سزا دی ۔وہ روتا ہواکہہ رہا تھا، عنقریب تم اپنا انجام دیکھ لو گے۔ قاضی صاحب نے اس کی دھمکی کی طرف

کوئی توجہ نہ دی ، کوڑا دہلیز پر پھینک کر میرے پاس آئے اور فرمایا:” اے ابو حَفْص! ہاں، تو میں تم سے یہ پوچھ رہا تھا کہ اس غلام کے بارے میں تم کیا کہتے ہو جو اپنے مالک کی اجازت کے بغیر شادی کرلے۔ قاضی صاحب اس طرح گفتگو کررہے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔نصرانی مار کھا کر عجمی گھوڑے پر سوار ہونے لگا تو گھوڑا بدکنے لگا اب وہاں اس کا کوئی رفیق بھی نہ تھا جو اسے سوار کراتا۔ نصرانی غصے میں آکر گھوڑے کو مارنے لگا توقاضی صاحب نے فرمایا:” اے نصرانی! اس بے زبان جانور پر نرمی کر ! تیری خرابی ہو،یہ اپنے رب اللہ عَزَّوَجَلَّ کا تجھ سے زیادہ مطیع و فرمانبردار ہے۔ ”
نصرانی چلا گیا تو قاضی صاحب نے فرمایا:” آؤ! ہم اپنے مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں۔بتاؤ! ایسے غلام کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟”میں نے کہا:”مجھے اس بارے میں معلوم نہیں ۔ خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم! آج آپ نے بہت بڑی جرأت کی ہے۔ شاید! عنقریب آپ کو اس کی بہت کَڑی سزا ملے ۔” فرمایا:” اے ابوحَفْص! تُو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم کی تعظم کر اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے عزت و بلندی عطا فرمائے گا۔ آؤ ہم اپنے مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں۔” پھر قاضی صاحب مجھے اس غلام والے مسئلے کے متعلق بتانے لگے۔ نصرانی (شاہی ملازم )مار کھا کر سیدھا امیر موسیٰ بن عیسیٰ کے پاس گیا۔ امیر نے جب اسے زخمی حالت میں دیکھا تو پوچھا:”یہ تجھے کیا ہوا؟” نصرانی نے کہا: ”قاضی شَرِیک نے مار مار کر میری یہ حالت کی ہے۔” پھر اس نے سارا واقعہ بیان کر دیا۔ امیر موسیٰ بن عیسیٰ نے کہا:” خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! میں قاضی شَرِیک کے معاملے میں ہر گز دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ یہ سُن کر نصرانی اپنا سامنہ لے کر بغداد چلا گیا اور پھر واپس نہ آيا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!