باکرامت نوجوان بزرگ
حکایت نمبر231: باکرامت نوجوان بزرگ
حضرتِ سیِّدُنامحمد بن داؤددِیْنَوَرِی علیہ رحمۃ اللہ الجلی کہتے ہیں:”میں نے حضرت سیِّدُنا ابوبَکْر مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کو فرماتے ہوئے سنا:”کہ ایک مرتبہ جب میں ”عسویہ”سے ”رملہ”کی طرف جارہا تھا تو راستے میں ایک ایسا شخص ملا جو ننگے پاؤں ، ننگے سرتھا۔ اس کے پاس دو چادریں تھیں ایک کا تہبند باندھا ہوا تھا اورایک کندھوں تک اوڑھی ہوئی تھی۔ موسمِ گرما عروج پر تھا میں اس شخص کو دیکھ کر بہت حیران تھا کہ اس قدر گرمی میں اس کی یہ حالت! اس کے پاس نہ تو زادِ راہ تھا اورنہ ہی کوئی ایسا برتن یا
پیالہ وغیرہ جسے بوقت ضرورت استعمال کرسکے ۔ میں نے اپنے دل میں کہا : ”اگر اس شخص کے پاس رسی اورڈول ہوتا جس کے ذریعے یہ پانی نکال کروضو وغیرہ کرسکتا تو یہ اس کے لئے بہتر تھا۔”
میں دوپہر کے وقت اس کے پاس گیا اور کہا: ”اے نوجوان! تو نے جو چادر اپنے کندھوں تک اوڑھی ہوئی ہے اگر اسے سر پر اوڑھ لیتا تو سورج کی تپش سے بچ جاتا ۔ میری بات سن کر وہ خاموش رہا اورآگے چل دیا۔کچھ دیربعد میں نے پھر کہا: تم اتنی سخت گرمی میں ننگے پاؤں ہو،کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ کچھ دیر میں جوتے پہن لوں اورکچھ دیر تم؟”اس نے کہا :”تم بہت فضول گُو ہو، کیا تم نے کبھی حدیث ِ پاک لکھی ہے ؟”میں نے کہا:”ہاں۔” بولا :” کیا تمہیں معلوم نہیں کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دوجہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشادفرمایا : ”کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ جوبات کام کی نہ ہو اُسے چھوڑ دے۔” (جامع الترمذی،ابواب الزہد،باب من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ،الحدیث۲۳۱۷، ص۱۸۸۵)
یہ حدیثِ پاک سنا کر وہ کچھ دیر خاموش کھڑا رہا پھر آگے چل دیا۔اب میرے پاس پانی ختم ہوچکا تھا ۔ جب میں ساحل سمندر کے پاس پہنچا تو پیاس لگنے لگی ۔ وہ میری طرف آیا اور کہا:” کیا تم پیاسے ہو؟”میں نے نفی میں سر ہلادیا۔ یہ دیکھ کر وہ آگے چل دیا چلتے چلتے مجھے بہت زیادہ پیاس محسوس ہونے لگی۔ وہ پھر میری طرف آیااورکہا : ”کیا تمہیں بہت زیادہ پیاس لگی ہے؟” میں نے کہا: ”ہاں !لیکن تم یہاں میٹھا پانی کہاں سے لاؤ گے ؟” اس نے کوئی جواب نہ دیا اورمیرا ڈول اٹھاکر سمندر میں ڈال دیا اور اسے بھر کر میرے پاس لے آیا پھر کہا:”پانی پی لو۔” میں نے پیا تو سمندر کا وہ کھاراپانی دریائے ”نِیل” کے میٹھے اور صاف پانی سے زیادہ شیریں اور عمدہ تھا۔اس ڈول میں تھوڑی سی گھاس پڑی ہوئی تھی۔ میں نے کہا:” یہ شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ولی معلوم ہوتاہے ۔ میں ضروراس کی صحبت اختیار کروں گا۔
چنانچہ منزل پر پہنچ کر میں نے اس سے کہا:”میں تمہارے ساتھ سفر کرنا چاہتا ہوں۔” کہا:”اچھا تمہیں کیاپسندہے، تم آگے چلو گے یا میں؟”میں نے کہا:” اگرتم آگے چلو گے تو مجھے بہت پیچھے چھوڑدو گے۔” چنانچہ، میں آگے آگے چلنے لگا ۔ میں تھوڑی دور چل کر آرام کے لئے رُک جاتا پھر چلنے لگتا۔ میں اسی طرح چلتارہا ۔ جب وہ میرے قریب آیا تو میں نے کہا: ”میں تمہارے ساتھ چلنا چاہتاہوں، مجھے اپنے ساتھ رکھ لیجئے۔”
اس نے کہا:” اے ابوبَکْر!اگرتم اس بات پر راضی ہوکہ تم چلتے رہو اورمیں بعض جگہ بیٹھ جاؤں پھر تو ٹھیک ہے ورنہ تم میرے رفیق نہیں بن سکتے۔” پھر وہ مجھے چھوڑ کر چل دیااور منزل پر پہنچ کر قیام کیا۔وہاں میرے کچھ دوست رہتے تھے ۔ ان کے پاس ایک بیمار شخص تھا میں نے ان سے کہا:” اس بیمار پرڈول میں موجود پانی کے کچھ چھینٹے ڈالو۔” انہوں نے جیسے ہی پانی اس کے اوپر ڈالا وہ فوراً صحت یاب ہوگیا اوراس کی بیماری دور ہوگئی۔ پھر میں نے اپنے دوستوں سے اس شخص کے متعلق پوچھا کہ وہ کہاں
ہے تو انہوں نے جواب دیا ہمیں تو وہ کہیں بھی نظر نہیں آرہا ۔میں حیران تھا کہ نہ جانے وہ باکرامت بزرگ کہاں چلاگیاتھا۔ ”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)