قبروں کی زیارت
قبروں کی زیارت
(۱)’’عَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ فَزُورُوہَا‘‘۔ (1)
حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا ( اب میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ) ان کی زیارت کرو۔ (مسلم)
(۲)’’عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ فَزُورُوہَا فَإِنَّہَا تُزَہِّدُ فِی الدُّنْیَا وَتُذَکِّرُ الْآخِرَۃَ‘‘۔ (2)
حضرت ابن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت سے روکا تھا تو اب میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ انکی زیارت کرو اس لیے کہقبروں کی زیارت کرنا دنیا سے بیزار کرتا ہے ۔ اور آخرت کی یاد دلاتا ہے ۔ (ابن ماجہ)
اِنتباہ :
(۱)…قبروں کی زیارت کا بہتر طر یقہ یہ ہے کہ پائنتی کی جانب سے جا کرمیت کے منہ کے سامنے کھڑا ہو اور یہ کہے : ’’ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ دَارِ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ أَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَإِنَّا إنْ شَائَ اللَّہُ بِکُمْ لَاحِقُونَ نَسْأَلُ اللَّہَ لَنَا وَلَکُمْ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ‘‘ پھر تین یا پانچ یا سات یا گیارہ بار درود شریف پڑھے بعدہٗ جس قدر ہوسکے قرآن شریف کی سورتیں اور آیتیں تلاوت کرے مثلاً سورئہ یس، سورۂ ملک ، چاروں قُل ، سورۂ فاتحہ، الٓم سے مُفْلِحُوْنَ تک، آیۃ الکرسیاور اٰمَنَ الرَّسُوْلُ وغیرہ پھر آخر میں درود شریف پڑھ کر ایصالِ ثواب کرے اور افضل یہ ہے کہ ایصالِ ثواب میں سب مؤمنین و مؤمنات کو شامل کرے کہ ہر ایک کو پورا پورا ثواب ملے گا اورکسی کے اجر میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ (3) (رد المحتار)
(۲)… اولیائے کرام کے مزارات مقدسہ کی زیارت کے لیے سفر کرنا جائز ہے ۔ (1) (بہارشریعت بحوالہ رد المحتار)
(۳)… اولیائے کرام کی زیارت کرنا خدائے تعالیٰ سے محبت کی دلیل ہے اور زائرین کو کافر و بدعتی کہنا کھلی ہوئی گمراہی اور بدعقیدگی ہے ۔ تفسیر صاوی جلد اول ص :۲۴۵ ، آیت ِکریمہ:{ابْتَغُوا إِلَیْہِ الْوَسِیلَۃَ} کے تحت ہے کہ:
’’مِنَ الضَّلَالِ الْبَیِّنِ وَالْخُسْرَانِ الظَّاھِرِ تَکْفِیْرُ الْمُسْلِمِیْنَ بِزِیَارَۃِ أَوْلِیَاءاللَّہِ زَاعِمِیْنَ أَنَّ زِیَارَتَھُمْ مِنْ عِبَادَۃِ غَیْرِ اللَّہِ کَلَّا بَلْ ھِیَ مِنْ جمْلَۃِ الْمَحَبَّۃِ فِیْ اللّٰہ‘‘۔ (2)
یعنی اولیاء اللہ کی زیارت کے سبب مسلمانوں کو اس خیال سے کافر کہنا کہ ان کی زیارت عبادتِ غیر اﷲ ہے کھلی ہوئی گمراہی اور خسارے کا سبب ہے ۔ (اولیاء کی زیارت عبادت غیر اللہ) ہر گز نہیں ہے ۔ بلکہ یہ الحبُّ فِی اﷲ میں سے ہے ۔
(۴)… منکرات ِشرعیہ اگر ایامِ عرس میں پائے جائیں تو ان کی وجہ سے زیارت ترک نہ کرے اس لیے کہ ایسی باتوں سے نیک کام ترک نہیں کیا جاتا بلکہ اسے بُرا جانے اور اصلاح کی جدوجہد کرے ۔ جیسا کہ ردالمحتار جلد اول ص:۶۳۱ میں ہے : ’’ قَالَ ابْنُ حَجَرٍ فِی فَتَاوِیہِ وَلَا تُتْرَکُ لِمَا یَحْصُلُ عِنْدَہَا مِنْ مُنْکَرَاتٍ وَمَفَاسِد کَاخْتِلَاطِ الرِّجَالِ بِالنِّسَاء وَغَیْرِ ذَلِکَ لِأَنَّ الْقُرُبَاتِ لَا تُتْرَکُ لِمِثْلِ ذَلِکَ بَلْ عَلَی الْإِنْسَانِ فِعْلُہَا وَإِنْکَارُ الْبِدَع بَلْ وَإِزَالَتُہَا إنْ أَمْکَنَ ا ہـ۔ قُلْت وَیُؤَیِّدُ مَا مَرَّ مِنْ عَدَمِ تَرْکِ اتِّبَاعِ الْجِنَازَۃِ وَإِنْ کَانَ مَعَہَا نِسَاء وَنَائِحَاتٌ تَأَمَّلْ‘‘۔ (3)
(۵)…عورتوں کو عزیزوں کی قبروں پر جانا ممنوع ہے اس لیے کہ وہ جزع فزع کر یں گی۔
(۶)…اولیائے کرام کے مزاراتِ مقدسہ پر برکت کے لیے حاضر ہونے میں بوڑھی عورتوں کے لیے حرج نہیں اور جوانوں کے لیے ناجائز ہے ۔ جیسا کہ ردالمحتار جلد اول ص:۶۳۱ میں ہے : ’’ وَالتَّبَرُّک بِزِیَارَۃِ قُبُورِ الصَّالِحِینَ فَلَا بَأْسَ إِذَا کُنَّ عَجَائِزَ وَیُکْرَہُ إِذَا کُنَّ شَوَابَّ کَحُضُورِ الْجَمَاعَۃِ فِی الْمَسَاجِدِ‘‘۔ (4)
اور علامہ طحطاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی کے مثل لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ :
’ ’ حَاصِلُہ أَنَّ مَحَلَّ الرُّخْصَۃِ لَھُنَّ إِذَا کَانَتِ الزِّیَارَۃُ عَلَی وَجْہٍ لَیْسَ فِیْہِ فِتْنَۃٌ ‘‘ ۔ (1)
یعنی حاصل یہ ہے کہ عورتوں کے لیے اجازت صرف اس صورت میں ہے جب کہ زیارت ایسے طریقے پرہو کہ اس میں کوئی فتنہ نہ ہو۔ (طحطاوی، ص ۳۷۶)
اور حضرت صدر الشریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تحریر فرمایا ہے کہ اسلم یہ ہے کہ عورتیں مطلقاً ( یعنی جوان ہوں یا بوڑھی سب) منع کی جائیں۔ (2) (بہار شریعت ، جلد چہارم ص ۵۴۹)
(۷)…مزاراتِ مقدسہ پر ہاتھ پھیرنا ، بوسہ دینا، ان کے سامنے جھکنا اور زمین پر چہرہ ملنا منع ہے اس لیے کہ یہ چیزیں عاداتِ نصاریٰ میں سے ہیں۔ جیسا کہ اشعۃ اللمعات، جلد او ل، باب زیارت القبور، ص:۷۱۶ میں ہے : ’’مسح نہ کند قبر را وبوسہ ندہد آنرا ومنخی نہ شود وروئے بہ خاک نہ مالدکہ ایں عادت نصاریٰ ست‘‘۔ (3)
اور فتاویٰ عالمگیری جلد پنجم مصری ص:۳۰۴میں ہے :
’’ وَلَا یَمْسَحُ الْقَبْرَ وَلَا یُقَبِّلُہُ فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَادَۃِ النَّصَارَی‘‘ ۔ (4)
یعنی قبر پر ہاتھ نہ پھیرے اور نہ اسے بوسہ دے اس لیے کہ وہ عاداتِ نصاریٰ میں سے ہے ۔
اور فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ، ص: ۸ میں ہے ۔ مزارات کو بوسہ نہ دینا چاہیے (5)۔
(۸)… قبر کو سجدہ (6) کرنا حرام ہے اور عبادت کی نیت سے ہو تو کفر ہے ۔
٭…٭…٭…٭